UrduPoint:
2025-07-25@13:36:30 GMT

تعلیمی اداروں میں امتحانات ختم کر دینا چاہییں؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

تعلیمی اداروں میں امتحانات ختم کر دینا چاہییں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2025ء) ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ایک درجن سے زائد اساتذہ، ماہرین تعلیم اور طلبہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سنجیدگی سے یہ جانچا جائے کہ آیا روایتی امتحانات کا سسٹم آج بھی علم کی حقیقی پیمائش کا مؤثر ذریعہ ہیں یا نہیں۔

مقصد کیا صرف یادداشت کو جانچنا ہے؟

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تعلیمی اداروں میں موجودہ امتحانی نظام کا مقصد محض طلبہ کی یادداشت کو جانچتا ہے نہ کہ ان کی فہم یا تنقیدی صلاحیت کو۔

ڈاکٹر اصفر زیدی کے بقول، "بچے صرف اچھے نمبر لینے کے لیے رٹے بازی پر انحصار کرتے ہیں اور سیکھنے کا اصل مقصد کہیں کھو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

" وہ سمجھتے ہیں کہ ایک سال کی محنت کو تین گھنٹوں کے پرچے سے جانچنا کسی طور مناسب نہیں۔

ان کے خیال میں سمسٹر سسٹم ایک بہتر متبادل تھا مگر اس میں بھی خامیاں پیدا ہو چکی ہیں، "اب اکثر اساتذہ مکمل نصاب پڑھانے کے بجائے صرف چند موضوعات پر توجہ دیتے ہیں اور انہی سے امتحان لے کر پوری کلاس کو پاس کر دیتے ہیں۔

" ان کا مشورہ ہے کہ اساتذہ کو حاصل امتحانی اختیارات محدود کر کے بیرونی ممتحن (ایکسٹرنل ایگزامینر) کا کردار بڑھایا جانا چاہیے۔ کیا امتحانات اسٹوڈنٹس کی ذہنی صحت کے لیے مسئلہ ہیں؟

کچھ طالب علموں کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں امتحانات طلبہ پر شدید ذہنی دباؤ ڈالتے بھی ہیں اور یہ دباؤ کئی نفسیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔

اے لیول کی ایک طالبہ ایشال طارق نے بتایا، "ہماری کلاس کے کئی طلبہ کو امتحانی دباؤ کی وجہ سے نیند نہ آنے، پینک اٹیک ہونے اور صحت کے دیگر مسائل کا سامنا رہا ہے۔‘‘

پنجاب یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات محمد رؤف نواز کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ روایتی امتحانات کو ختم کر کے ایک جامع اور جدید نظام اپنایا جائے۔ ان کے مطابق، "محض کتابی رٹہ بازی طلبہ کی ترقی کا معیار نہیں ہونا چاہیے۔

حاضری، کلاس ڈسکشن، غیر نصابی سرگرمیاں اور تحقیقی منصوبے بھی کارکردگی کا حصہ ہونے چاہییں۔‘‘

ان کا کہنا ہے، "آج کی دنیا میں روایتی ڈگریوں اور امتحانات کی وقعت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ملازمت کے لیے اب پراجیکٹس، مہارتیں اور عملی تجربہ دیکھا جاتا ہے۔ آپ خود سوچیں، ایک نوجوان جو ایم اے یا ایم فل کے امتحانات پاس کر چکا ہو لیکن ایک رپورٹ تیار کرنے یا کمپیوٹر چلانے کی مہارت نہ رکھتا ہو، کیا وہ ملازمت حاصل کر پائے گا؟"

عملی تجربہ لازمی ہے!

پنجاب یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات رؤف نواز کے بقول پاکستان میں اب یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد بچوں کو مختصر مدت میں عملی مہارتیں سکھا کر فیلڈ میں بھیج دینا چاہیے۔

اسی لیے بی ایس اور ایل ایل بی جیسے پروگراموں کے دورانیے کم کرنے کی تجاویز زیر غور ہیں۔

رؤف نواز نے چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس نظام میں اگرچہ روایتی امتحانات نہیں ہوتے مگر اس کے تربیت یافتہ افراد کی عملی مہارتیں ہمیشہ نمایاں رہی ہیں۔ ان کے مطابق امتحانات کی ساکھ اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتی جب تک امتحان لینے والے افراد دیانت دار نہ ہوں۔

ایک جانبدار ممتحن کسی نااہل امیدوار کو بھی ڈگری دلوا سکتا ہے، اس لیے امتحانی عمل کو شخصی مداخلت سے پاک ہونا چاہیے۔

ندیم نامی ایک طالب علم نے سوال اٹھایا، "ایک جیسے پرچے پر ساجد کو پانچ نمبر اور ساجدہ کو پچاس نمبر کیسے مل سکتے ہیں؟ کیا یہ ممتحن کی سلیکشن یا تعصب کا مسئلہ نہیں؟"

رقیہ نورین گزشتہ پندرہ برسوں سے ایک نجی تعلیمی ادارے میں امتحانی امور کی انچارج ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نجی شعبے میں امتحانی اصلاحات کافی پہلے شروع ہو چکی تھیں، ''ہمارا امتحانی نظام بڑی حد تک کمپیوٹرائزڈ ہے۔ صرف 10 فیصد سوالات یادداشت سے متعلق ہوتے ہیں، باقی سوالات طلبہ کی فہم، تجزیہ اور تخلیقی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔‘‘

لاہور کالج فار ویمن سے وابستہ ڈاکٹر شبانہ اصغر نے اس خیال کا اظہار کیا کہ امتحانات طلبہ کو ایک ہی پیمانے سے ناپتے ہیں حالانکہ ہر طالب علم کی صلاحیت، ذہنی رجحان اور سیکھنے کا انداز مختلف ہوتا ہے، ''تین گھنٹے کے امتحان کے بجائے ایک تقریر، تحقیقی رپورٹ یا تخلیقی منصوبہ طالب علم کی صلاحیت کا بہتر عکاس ہو سکتا ہے۔

‘‘ اصلاحات کی جائیں لیکن امتحانی نظام بالکل ختم نہ کیا جائے

امتحانات کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ یہ نظام کسی حد تک نظم و ضبط اور میرٹ کا ضامن ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ سعید ہاشمی کہتی ہیں کہ امتحانات کو مکمل طور پر ختم کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول، "امتحانات ہی طلبہ کو مطالعہ، تحقیق اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔

اگر انہیں ذہنی دباؤ کا جواز بنا کر ختم کر دیا گیا تو سیکھنے کی رہی سہی روایت بھی ماند پڑ جائے گی۔‘‘

ان کا ماننا ہے کہ اعتدال ہی بہتر راستہ ہے، "امتحانی نظام میں اصلاحات ضرور ہونا چاہییں، لیکن جہاں روایتی امتحانات ضروری ہوں، خاص طور پر سائنس، ریاضی یا قانون جیسے مضامین میں، وہاں انہیں برقرار رکھا جانا چاہیے۔"

کئی ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ اگرچہ امتحانات کا مکمل خاتمہ فی الحال ممکن نہیں، لیکن اس شعبے میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ مسلسل تعلیمی جائزہ، اوپن بُک امتحانات، پراجیکٹ بیسڈ اسائنمنٹس، زبانی پریزنٹیشنز اور گروہی مباحثوں جیسے متبادل ذرائع سے طلبہ کی تخلیقی و تنقیدی صلاحیتوں کا بہتر انداز میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے روایتی امتحانات طالب علم طلبہ کی سکتا ہے

پڑھیں:

9 مئی کیس میں بری شاہ محمود پی ٹی آئی کی قیادت سنبھال سکتے ہیں؟ سلمان اکرم کا جواب سامنے آگیا

پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ شاہ محمود قریشی کے خلاف ابھی بھی پانچ چھ مقدمات ہیں،  یہ کہنا قابل ازوقت ہے کہ وہ پارٹی کی قیادت سنبھالیں گیے، شاہ محمود قریشی ابھی باہر نہیں آرہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  ہم سب فسطائیت کا شکار ہیں۔اس میں کسی کے لیے کوئی استثنیٰ نہیں ہے،  اسلیے کسی قسمُ کا کوئی غلط مفروضہ نہ قائم کیا جائے، منصوبہ ساز ملک عدلیہ اور نظام کےساتھ جو کررہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہے

۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ  یہ ایسی صورتحال ہے جس کو قبول نہیں کرنا چاہیے، یہ پی ٹی آئی کا نہیں پوری کا قوم کا مسئلہ ہے، نظام انصاف انصاف کا نظام نہیں رہا بلکہ اسکو حملوں کا نظام بنادیا گیا، یہ ساری نظام اب قوم کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زندہ قومیں ایسی صورتحال کا جواب دیا کرتی ہیں،  قومیں اس صورتحال میں خاموش نہیں رہتی قومیں اسکا جواب دیتے ہیں،  دیکھتے ہیں پاکستانی قوم کیا جواب دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کے خلاف ابھی بھی پانچ چھ مقدمات ہیں،  یہ کہنا قابل ازوقت ہے کہ وہ پارٹی کی قیادت سنبھالیں گیے، شاہ محمود قریشی ابھی باہر نہیں آرہے۔

متعلقہ مضامین

  • پولیس کی ترجیح منشیات کے بڑے ڈیلرز اور سپلائرز کو ٹارگٹ کر کے سپلائی چین توڑنا ہے: آئی جی سندھ
  • حمزہ علی عباسی کو حجاب سے متعلق متنازع بیان دینا مہنگا پڑگیا
  • لاہور: پنجاب حکومت کا اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام، معیار تعلیم بلند کرنے کا فیصلہ
  • وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور احد خان چیمہ سے ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے اعلیٰ سطحی وفد کی ملاقات،دونوں اداروں کے درمیان اشتراک بارے بریفنگ دی
  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت خصوصی اجلاس، تعلیمی اداروں میں اصلاحات اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کئی اہم فیصلے
  • امریکا آنیوالے تمام غیر ملکیوں کو اب 250 ڈالرز اضافی ویزا فیس دینا ہوگی
  • 9 مئی کیس میں بری شاہ محمود پی ٹی آئی کی قیادت سنبھال سکتے ہیں؟ سلمان اکرم کا جواب سامنے آگیا
  • کیا9مئی کیس میں بری شاہ محمود پی ٹی آئی کی قیادت سنبھال سکتے ہیں؟
  • سندھ بھر کے کالجوں میں نئے تعلیمی سال کیلئے داخلوں کا مرحلہ مکمل
  • اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی نے انٹرمیڈیٹ کے نتائج کا اعلان کر دیا