تعلیمی اداروں میں امتحانات ختم کر دینا چاہییں؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2025ء) ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ایک درجن سے زائد اساتذہ، ماہرین تعلیم اور طلبہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سنجیدگی سے یہ جانچا جائے کہ آیا روایتی امتحانات کا سسٹم آج بھی علم کی حقیقی پیمائش کا مؤثر ذریعہ ہیں یا نہیں۔
مقصد کیا صرف یادداشت کو جانچنا ہے؟گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تعلیمی اداروں میں موجودہ امتحانی نظام کا مقصد محض طلبہ کی یادداشت کو جانچتا ہے نہ کہ ان کی فہم یا تنقیدی صلاحیت کو۔
ڈاکٹر اصفر زیدی کے بقول، "بچے صرف اچھے نمبر لینے کے لیے رٹے بازی پر انحصار کرتے ہیں اور سیکھنے کا اصل مقصد کہیں کھو جاتا ہے۔
(جاری ہے)
" وہ سمجھتے ہیں کہ ایک سال کی محنت کو تین گھنٹوں کے پرچے سے جانچنا کسی طور مناسب نہیں۔
ان کے خیال میں سمسٹر سسٹم ایک بہتر متبادل تھا مگر اس میں بھی خامیاں پیدا ہو چکی ہیں، "اب اکثر اساتذہ مکمل نصاب پڑھانے کے بجائے صرف چند موضوعات پر توجہ دیتے ہیں اور انہی سے امتحان لے کر پوری کلاس کو پاس کر دیتے ہیں۔
" ان کا مشورہ ہے کہ اساتذہ کو حاصل امتحانی اختیارات محدود کر کے بیرونی ممتحن (ایکسٹرنل ایگزامینر) کا کردار بڑھایا جانا چاہیے۔ کیا امتحانات اسٹوڈنٹس کی ذہنی صحت کے لیے مسئلہ ہیں؟کچھ طالب علموں کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں امتحانات طلبہ پر شدید ذہنی دباؤ ڈالتے بھی ہیں اور یہ دباؤ کئی نفسیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔
اے لیول کی ایک طالبہ ایشال طارق نے بتایا، "ہماری کلاس کے کئی طلبہ کو امتحانی دباؤ کی وجہ سے نیند نہ آنے، پینک اٹیک ہونے اور صحت کے دیگر مسائل کا سامنا رہا ہے۔‘‘پنجاب یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات محمد رؤف نواز کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ روایتی امتحانات کو ختم کر کے ایک جامع اور جدید نظام اپنایا جائے۔ ان کے مطابق، "محض کتابی رٹہ بازی طلبہ کی ترقی کا معیار نہیں ہونا چاہیے۔
حاضری، کلاس ڈسکشن، غیر نصابی سرگرمیاں اور تحقیقی منصوبے بھی کارکردگی کا حصہ ہونے چاہییں۔‘‘ان کا کہنا ہے، "آج کی دنیا میں روایتی ڈگریوں اور امتحانات کی وقعت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ملازمت کے لیے اب پراجیکٹس، مہارتیں اور عملی تجربہ دیکھا جاتا ہے۔ آپ خود سوچیں، ایک نوجوان جو ایم اے یا ایم فل کے امتحانات پاس کر چکا ہو لیکن ایک رپورٹ تیار کرنے یا کمپیوٹر چلانے کی مہارت نہ رکھتا ہو، کیا وہ ملازمت حاصل کر پائے گا؟"
عملی تجربہ لازمی ہے!پنجاب یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات رؤف نواز کے بقول پاکستان میں اب یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد بچوں کو مختصر مدت میں عملی مہارتیں سکھا کر فیلڈ میں بھیج دینا چاہیے۔
اسی لیے بی ایس اور ایل ایل بی جیسے پروگراموں کے دورانیے کم کرنے کی تجاویز زیر غور ہیں۔رؤف نواز نے چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس نظام میں اگرچہ روایتی امتحانات نہیں ہوتے مگر اس کے تربیت یافتہ افراد کی عملی مہارتیں ہمیشہ نمایاں رہی ہیں۔ ان کے مطابق امتحانات کی ساکھ اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتی جب تک امتحان لینے والے افراد دیانت دار نہ ہوں۔
ایک جانبدار ممتحن کسی نااہل امیدوار کو بھی ڈگری دلوا سکتا ہے، اس لیے امتحانی عمل کو شخصی مداخلت سے پاک ہونا چاہیے۔ندیم نامی ایک طالب علم نے سوال اٹھایا، "ایک جیسے پرچے پر ساجد کو پانچ نمبر اور ساجدہ کو پچاس نمبر کیسے مل سکتے ہیں؟ کیا یہ ممتحن کی سلیکشن یا تعصب کا مسئلہ نہیں؟"
رقیہ نورین گزشتہ پندرہ برسوں سے ایک نجی تعلیمی ادارے میں امتحانی امور کی انچارج ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نجی شعبے میں امتحانی اصلاحات کافی پہلے شروع ہو چکی تھیں، ''ہمارا امتحانی نظام بڑی حد تک کمپیوٹرائزڈ ہے۔ صرف 10 فیصد سوالات یادداشت سے متعلق ہوتے ہیں، باقی سوالات طلبہ کی فہم، تجزیہ اور تخلیقی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔‘‘لاہور کالج فار ویمن سے وابستہ ڈاکٹر شبانہ اصغر نے اس خیال کا اظہار کیا کہ امتحانات طلبہ کو ایک ہی پیمانے سے ناپتے ہیں حالانکہ ہر طالب علم کی صلاحیت، ذہنی رجحان اور سیکھنے کا انداز مختلف ہوتا ہے، ''تین گھنٹے کے امتحان کے بجائے ایک تقریر، تحقیقی رپورٹ یا تخلیقی منصوبہ طالب علم کی صلاحیت کا بہتر عکاس ہو سکتا ہے۔
‘‘ اصلاحات کی جائیں لیکن امتحانی نظام بالکل ختم نہ کیا جائےامتحانات کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ یہ نظام کسی حد تک نظم و ضبط اور میرٹ کا ضامن ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ سعید ہاشمی کہتی ہیں کہ امتحانات کو مکمل طور پر ختم کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول، "امتحانات ہی طلبہ کو مطالعہ، تحقیق اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔
اگر انہیں ذہنی دباؤ کا جواز بنا کر ختم کر دیا گیا تو سیکھنے کی رہی سہی روایت بھی ماند پڑ جائے گی۔‘‘ان کا ماننا ہے کہ اعتدال ہی بہتر راستہ ہے، "امتحانی نظام میں اصلاحات ضرور ہونا چاہییں، لیکن جہاں روایتی امتحانات ضروری ہوں، خاص طور پر سائنس، ریاضی یا قانون جیسے مضامین میں، وہاں انہیں برقرار رکھا جانا چاہیے۔"
کئی ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ اگرچہ امتحانات کا مکمل خاتمہ فی الحال ممکن نہیں، لیکن اس شعبے میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ مسلسل تعلیمی جائزہ، اوپن بُک امتحانات، پراجیکٹ بیسڈ اسائنمنٹس، زبانی پریزنٹیشنز اور گروہی مباحثوں جیسے متبادل ذرائع سے طلبہ کی تخلیقی و تنقیدی صلاحیتوں کا بہتر انداز میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے روایتی امتحانات طالب علم طلبہ کی سکتا ہے
پڑھیں:
اسرائیل کے حملوں کی صرف مذمت کافی نہیں اب واضح لائحہ عمل دینا ہوگا، اسحاق ڈار
دوحہ(نیوز ڈیسک) نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملوں کی صرف مذمت کافی نہیں اب واضح لائحہ عمل دیناہوگا کیونکہ اسرائیل کی اشتعال انگیزی سے واضح ہے وہ ہر گز امن نہیں چاہتے۔
تفصیلات کے مطابق نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ حملہ مکمل طور پر غیر متوقع اور ناقابل قبول اقدام ہے، ایک خودمختار ملک پر حملے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے حملوں کی صرف مذمت کافی نہیں ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ایک واضح لائحہ عمل سامنے لایا جائے، دنیا کو اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا۔
پاکستان کے کردار سے متعلق سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ برادر ملک قطر کے ساتھ کھڑے ہوکر فعال کردار ادا کیا ہے۔ او آئی سی فورم سے اسرائیل کی بھرپور انداز میں مذمت کی گئی اور قطر پر حملے کے بعد ہم نے صومالیہ کے ساتھ مل کر اقوامِ متحدہ کے ہنگامی اجلاس کی درخواست بھی دی ہے۔
غزہ اور فلسطین کی صورتحال پر ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے عوام انتہائی مشکل وقت گزار رہے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ وہاں غیر مشروط جنگ بندی ہونی چاہیے، اسرائیل کی اشتعال انگیزی سے یہ واضح ہے کہ وہ کسی صورت امن نہیں چاہتے۔
نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے پرامن حل کی حمایت کی ہے، میرے نزدیک مسائل کے حل کے لیے مذاکرات ہی بہترین راستہ ہیں، مگر اس کے لیے سب کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے کردار کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کو کشمیر اور فلسطین جیسے تنازعات پر اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے، اس ادارے میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ عالمی امن کے حوالے سے اس کا کردار مؤثر ہوسکے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ بطور ایٹمی قوت پاکستان امتِ مسلمہ کے ساتھ کھڑا ہے، ہمارے پاس مضبوط فوج اور بہترین دفاعی صلاحیتیں موجود ہیں، ہم کسی کو بھی اپنی خودمختاری اور سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے۔
بھارت کے حوالے سے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا تاہم بھارت سےکشمیرسمیت تمام مسائل پر بات چیت کے لئے تیار ہیں۔
Post Views: 6