نوجوان معاشی و سماجی مشکلات کے سبب بچے پیدا کرنے سے گریزاں، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 10 جون 2025ء) بڑھتے سماجی و معاشی دباؤ کے باعث دنیا بھر کے نوجوانوں میں والدین بننے سے ہچکچاہٹ کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ خواہش کے باوجود بچے پیدا کرنے سے گریزاں ہیں۔
اقوام متحد کے فنڈ برائے آبادی (یو این ایف پی اے) نے بتایا ہے کہ رہن سہن کے اخراجات میں بڑے پیمانے پر اضافہ، صنفی عدم مساوات اور مستقبل کے بارے میں گہری ہوتی بے یقینی کے نتیجے میں بہت سے نوجوان والدین بننے اور اپنے بچوں کی پرورش کو مشکل کام سمجھنے لگے ہیں۔
Tweet URLدنیا میں آبادی کی صورتحال پر ادارے کی تازہ ترین رپورٹ بعنوان 'باروری کا حقیقی بحران: تبدیل ہوتی دنیا میں تولیدی اختیار کی جستجو' میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت لوگوں کی آزادانہ طور سے فیصلہ کرنے کی یہ صلاحیت خطرے میں ہے کہ آیا انہیں بچے پیدا کرنا چاہئیں یا نہیں اور اگر کرنا ہیں تو وہ کب کریں گے۔
(جاری ہے)
رپورٹ میں یو این ایف پی اے/یو گورنمنٹ کے جائزے میں اس حوالے سے 14 ممالک کی صورتحال بتائی گئی ہے جو دنیا کی 37 فیصد آبادی کا احاطہ کرتے ہیں۔
معاشی خدشاترپورٹ کے مطابق، معاشی رکاوٹیں نوجوانوں میں بچے پیدا کرنے سے گریز کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس حوالے سے جن لوگوں کے ساتھ بات کی گئی ان میں 39 فیصد کا کہنا تھا کہ معاشی تنگی کے باعث وہ حسب خواہش تعداد میں بچے پیدا نہیں کر سکتے۔
19 فیصد لوگوں نے موسمیاتی تبدیلی سے لے کر جنگوں تک اور 21 فیصد نے روزگار سے متعلق عدم تحفظ کو اس کی بڑی وجہ بتایا۔
13 فیصد خواتین اور آٹھ فیصد مردوں کا کہنا تھا کہ گھریلو کام کی غیرمساوی تقسیم کے باعث وہ حسب خواہش تعداد میں بچے پیدا نہیں کر سکتے۔
جائزے سے یہ بھی سامنے آیا کہ ایک تہائی بالغ افراد کو ان چاہے حمل کا تجربہ ہو چکا ہے جبکہ ایک چوتھائی کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے وقت پر بچہ پیدا نہیں کر سکے۔
20 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ بچے نہیں چاہتے تھے لیکن کئی طرح کے دباؤ نے انہیں والدین بننے پر مجبور کیا۔باروری کے بحران کا حلرپورٹ میں گرتی شرح تولید کو روکنے کے لیے بچوں کی پیدائش پر بونس دینے یا آبادی میں اضافے کے حوالے سے اہداف مقرر کرنے جیسے طریقوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوے کہا ہے کہ یہ اکثر غیرموثر ہوتے ہیں اور ان سے انسانی حقوق پامال ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔
'یو این ایف پی اے' نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنے لوگوں کی ترجیحات اور ضروریات کو مدنظر رکھیں اور ایسی پالیسیاں اختیار کریں جن کی بدولت بالخصوص نوجوانوں کے لیے والدین بننا آسان ہو سکے۔
اس ضمن میں ادارے نے رہائش اور اچھے روزگار پر سرمایہ کاری، بچوں کی پیداش پر والدین کو کام سے بامعاوضہ چھٹیاں دینے اور تولیدی صحت کی جامع خدمات تک رسائی بہتر بنانے کی سفارش کی ہے۔
مہاجرت کے فوائد'یو این ایف پی اے' نے حکومتوں سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مہاجرت کو افرادی قوت کی کمی کے مسئلے کا حل اور کم ہوتی آبادی کے تناظر میں پیداواری صلاحیت برقرار رکھنے کا ذریعہ سمجھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ والد کی حیثیت سے بچوں کی نگہداشت سے متعلق سماجی بدنامی، ماؤں کو افرادی قوت سے باہر رکھنے کے رواج، تولیدی حقوق پر قدغن اور صنفی ذمہ داریوں اور تعلقات سے متعلق نوجوانوں کی سوچ پر توجہ دینے کی ضرورت بھی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں میں شادی نہ کرنے یا تاخیر سے کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا تھا کہ بچے پیدا بچوں کی
پڑھیں:
آبادی کنٹرول کرنے پر کوئی پیسہ نہیں لگایا جاتا، مفتاح اسماعیل
— فائل فوٹوسابق وفاقی وزیر خزانہ اور عوام پاکستان پارٹی کے رہنما مفتاح اسماعیل نےکہا ہے کہ آبادی کنٹرول کرنے پر کوئی پیسہ نہیں لگایا جاتا۔
اپنے ایک بیان میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہم اپنے خطے میں پیچھے ہوگئے ہیں، پاکستانیوں کی قوت خرید کم ہوگئی ہے، ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں جس سے ملک کی گروتھ ہو۔
مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ملک میں بے روزگاری عروج پر ہے، پاکستان میں ترقی کا ماحول نہیں، ورلڈ بینک کے مطابق 45 فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔
اگلے مالی سال کے لیے تقریباً 17 ہزار 600 ارب روپے کا بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم نے کوئی بنیادی اصلاحات نہیں کیں، بجٹ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوگی، معیشت میں اصلاحات کی ضرورت ہے جو ہم نہیں کر پائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ معیشت میں استحکام ہے، کوئی ڈیفالٹ کی بات نہیں کر رہا، ملک میں میکرو اکنامک استحکام آگیا ہے۔