Juraat:
2025-09-18@17:29:10 GMT

ڈاکٹر نذیر احمد کا یوم شہادت

اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT

ڈاکٹر نذیر احمد کا یوم شہادت

ریاض احمدچودھری

راہ عزیمت کا عظیم مسافر مرددرویش، مرد مجاہد ڈاکٹر نذیر احمد ایم این اے جنہیں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی ہدایت پر8 جون کو ڈیرہ غازی خان میں مسلح افراد نے شہید کر دیا تھا۔ ڈاکٹر نذیر احمد جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما تھے جنہوں نے صوبہ بہار کے آفت زدہ علاقوں میں 1946 میں دن رات امدادی کام کیا تھا اور جب مقبوضہ کشمیر میں کشمیری ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف جہاد میں مصروف تھے تو انہوں نے جہاد میں حصہ لیا تھا۔ ڈاکٹرنذیر احمد نے 1970 کے انتخابات میں علاقے کے بڑے جاگیردار محمد خان لغاری کو بھار ی اکثریت سے شکست دی ۔ اس وقت ضلع ڈیرہ غازی خان میں قومی اسمبلی کے دو حلقے تھے۔ تحصیل ڈیرہ غازیخان میں ڈاکٹرنذیر احمد الیکشن لڑ رہے تھے تو تحصیل راجن پور کے حلقے میں سردار شیر باز خان مزاری کو انتخاب لڑنے پر آمادہ کیا ۔ ڈاکٹرنذیر احمد نے پورے ضلع میں دن رات انتخابی مہم چلائی اور سردار شیر باز خان مزاری بھی پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ حالانکہ ڈاکٹرنذیر احمد کے مقابلے میں سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کے والد محمد خان لغاری امیدوار تھے۔ وہ علاقے کے ایک بہت بڑے جاگیردار تھے اور یہ علاقہ لغاری خاندان کا مخصوص حلقہ تھا۔ اس حلقے میں 1946 میں سردار جمال خان لغاری پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اس کے بعد اس حلقے سے محمد خان لغاری بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے۔
ڈاکٹرنذیر احمد لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے ڈیرہ غازیخان میں ہر گاؤں، قصبے اور ہر علاقے میں برسوں دن رات کام کیا تھا اور وہ اپنے علاقے کے مقبول ترین سیاسی رہنما تھے جنہوں نے بھاری اکثریت سے محمد خان لغاری کو شکست دی۔ راقم الحروف کو قومی اسمبلی کے اجلاس کا وہ دن بخوبی یاد ہے جب بھٹو صاحب مرحوم نے اسمبلی میں اپنی قمیض اتار کر کمر دکھاتے ہوئے کہا کہ ہم نے جمہوریت کیلئے بڑی ماریں کھائی ہیں۔ اس ایوان میں جماعت اسلامی کے رکن ڈاکٹرنذیر احمد بھی موجود تھے انہوں نے بھٹو صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم صاحب کمر پر چوٹیں بھاگنے والوں کو لگتی ہیں۔ اگر زخم سینے پر کھایا ہے تو دکھائیں۔ بھٹو صاحب خاموش ہوگئے اور چند روز بعد بھٹوصاحب کی ہدایت پر ڈاکٹرنذیر احمد کو شہید کر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس مرد درویش کی لاج رکھ لی۔ دو گولیاں ان کے سینے پر اور ایک گولی پیشانی پر لگی۔
شہید تیرے لہو کی خوشبو فلک کے دامن سے آرہی ہے
شہادت سے چند روز قبل مجھے پختہ یقین تھا کہ وزیر اعظم بھٹو ڈاکٹرنذیر احمد کو چند روز میں شہید کرادیں گے۔ ڈاکٹرنذیر احمد ملتان آئے ہوئے تھے ۔ میری ان سے ملاقات ہوئی اور میں نے ان کو تنہائی میں ملاقات پر آمادہ کیا۔ ہم شیر شاہ روڈ پر واقع گلڈ ہوٹل میں بیٹھے۔ میں نے اشاروں کنایوں میں تمہید باندھ کر ڈاکٹرنذیر احمد سے کہا کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ بھٹو صاحب آپ کو قتل کرانا چاہتے ہیں اور مصطفی کھر کو یہ مشن سونپا گیا ہے۔ انہوں نے ڈیرہ غازی خان کے چند بدنام بدمعاشوں کو آپ پر حملہ کرنے کیلئے تیار کر لیا ہے۔ میںنے ڈاکٹرنذیر احمد سے کہا کہ آپ احتیاط سے کام لیں اور ڈیرہ غازیخان زیادہ وقت گزارنے کی بجائے حفظ ماتقدم کے طور پر لاہور، ملتان یا کسی دوسرے علاقے میں جماعت کے کام میں مصروف رہیں تو بہتر ہوگا۔ ڈاکٹرنذیر احمد صاحب میری طویل گفتگو سن کر کہنے لگے کہ ریاض صاحب جو رات قبر میں آنی ہے وہ آکر ہی رہے گی۔ میں موت کے خوف سے ڈیرہ غازیخان نہیں چھوڑ سکتا۔ بھٹو صاحب کی ہدایت پر 8 جون 1972 کو علاقے کے بدمعاشوں نے فائرنگ کر کے ڈاکٹر صاحب کو شہید کر دیا۔ڈاکٹرنذیر احمد کی شہادت کی خبر جب ڈیرہ غازیخان، راجن پور، تونسہ شریف، جام پور، روجھان کے تمام قصبات و چھوٹے چھوٹے دیہاتوں تک پہنچی تو ان کی شہادت پر صف ماتم بچھ گئی۔ اس روز میڈیکل سٹور، فروٹ و سبزی کی دکانیں، حتیٰ کہ حجام، ترکھان، لوہار اور چھوٹے موٹے ہوٹل بھی بند ہوگئے۔ میںنے اپنی زندگی میں ڈیرہ غازیخان کے علاقے میں اتنا بڑا سوگ کسی بڑے سے بڑے قومی رہنما کی رحلت پر نہیں دیکھا۔
ڈاکٹرنذیر احمد ڈیرہ غازیخان کے مقبول ترین رہنما تھے انہوں نے اپنی بیٹیوں کے نکاح کیلئے جو جہیز تیار کیے تھے وہ بھی غریبوں کی بیٹیوں کی شادیوں میں بطور تحفہ دے دئے۔1965 کی جنگ کے دوران ڈی سی نے مالی امداددینے کیلئے علاقے کے لوگوں کا اجلاس منعقد کیا تو ڈاکٹرنذیر احمد نے اپنا سارا گھر بار بطور امداد پیش کر دیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ملتان کے اخبارات ، روزنامہ امروز، کوہستان اور روزنامہ نوائے وقت میں شہ سرخیاں لگی تھیں۔
صدیق کیلئے ہے خدا کا رسولۖ بس
1970 کے انتخابات سے پہلے جنرل یحییٰ خان نے 1969 میں مارشل لاء نافذ کر کے اقتدا ر سنبھال لیا تھا اور 70 کے انتخابات سے قبل ڈاکٹرنذیر احمد نے ڈیرہ غازیخان میں جمعہ کا خطبہ دیا تو ڈیرہ غازیخان کے قادیانی اے ڈی ایم اسلم ورک نے مارشل لاء کے ضابطہ نمبر5 کے تحت ڈاکٹرنذیر احمد کو گرفتار کر لیا۔ ان پر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر پر تنقید کا الزام عائد کیا تھا اور اس الزام کی سزا موت تھی۔ راقم الحروف روزنامہ جسارت ملتان کا ایڈیٹر تھا۔ ڈاکٹرنذیر احمد صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی میاں محمد رمضان ایڈووکیٹ کو میرے پاس بھیجا جنہوں نے مجھے ڈاکٹر صاحب کی گرفتاری کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے ہدایت کی ہے کہ میں صرف آپ سے رجوع کروں اور آپ جیسا مناسب سمجھیں ، حکام سے رجوع کریں۔ راقم الحروف نے اسی وقت ملتان کے فرسٹ آرمرڈ ویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا کو فون کیا۔ انہوں نے مجھے فوراً اپنے دفتر میں بلا لیا۔ میںنے جنرل صاحب کو ڈاکٹرنذیر احمد کی جھوٹے الزام میں ناجائز گرفتاری کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اسلم ورک بہت بدنام قادیانی ہے جو اکثر اسلام کے منافی حرکات و سکنات میں مصروف رہتا ہے۔ میں نے جنرل صاحب کو یہ بھی بتایا کہ لاہور کے گالف روڈ پر واقع ڈپٹی کمشنر حفیظ اللہ اسحاق کے ساتھ ملتا رہتا ہے اور دونوں ناؤ و نوش کی محفلیں بھی سجاتے رہتے ہیں۔ میری لاہور میں حفیظ اللہ سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ لاہور کے ڈی سی ہاؤس میں میرا ایک دن جانا ہوا تو وہاں اسلم ورک اور ٹکا اقبال خان (عارف والا) بھی موجود تھے اور ناؤ و نوش میں مشغول تھے۔
میں نے جنرل مٹھا سے بات کی تو انہوں نے اپنے سٹاف آفیسر کرنل ضیاء الحق کو طلب کر کے ہدایت کی کہ ڈیرہ غازیخان کے ڈپٹی کمشنر کو بذریعہ ٹیلی گرام اطلاع کریں کہ ڈاکٹرنذیر احمد کو رہا کر کے ان کے خلاف مقدمے کی ایف آئی آر دوسرے روز صبح 8 بجے ہر صورت پہنچ جانی چاہیے۔ ان دنوں ڈیرہ غازیخان وائر لیس کے ذریعے بات ہوتی تھی۔ شام کو کرنل ضیاء الحق کا فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب کو رہا کردیا گیا ہے اور جنرل صاحب نے کہا کہ آپ صبح بروقت ان کے دفتر میں پہنچ جائیں۔ میں اگلی صبح ان کے دفتر پہنچا تو انہوں نے ایف آئی آر منسوخ کر کے میز کے ایک جانب رکھ چھوڑی تھی۔ میں چائے پی کر نکلا تو کرنل ضیاء الحق مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا آپ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کو جانتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ ڈاکٹر صاحب بڑے اچھے دوست ہیں۔ تو کرنل صاحب نے کہا کہ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ آپ میری ان سے ملاقات کر وادیں۔ میںنے ملاقات کی ہامی بھر لی اور ملاقات کروا دی۔
یہاں میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کے والد کا خاندان قیام پاکستان سے بہت پہلے ڈی جی خان میںمنتقل ہوگیا تھا۔ کرنل ضیاء الحق کا تعلق بھی جالندھر کے آرائیں خاندان سے تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب کے سماجی خدمات سے بخوبی آگاہ تھے اسی لئے وہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے متمنی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ڈاکٹرنذیر احمد نے ڈاکٹرنذیر احمد کو ڈیرہ غازیخان کے ڈاکٹر نذیر احمد کرنل ضیاء الحق ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب بھٹو صاحب سے ملاقات اسمبلی کے کہ ڈاکٹر علاقے کے انہوں نے صاحب کو تھا اور شہید کر خان کے کر دیا

پڑھیں:

چوتھی نصاب تعلیم کانفرنس ڈیرہ مراد جمالی میں منعقد ہوگی، علامہ مقصود ڈومکی

ڈیرہ اللہ یار میں اساتذہ سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ کوئٹہ، لاہور اور جیکب آباد میں کامیاب کانفرنسز منعقد ہوچکی ہیں جبکہ چوتھی نصاب تعلیم کانفرنس ڈیرہ مراد جمالی میں 28 ستمبر 2025 کو منعقد ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی، صوبائی آرگنائزر علامہ سید ظفر عباس شمسی اور علامہ سہیل اکبر شیرازی و دیگر رہنماؤں نے ڈیرہ اللہ یار میں تعمیرِ ملت پبلک اسکول کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اسکول کے پرنسپل اور ایم ڈبلیو ایم کے سابقہ ضلعی سیکرٹری جنرل ظفر علی حیدری، سید شبیر علی شاہ، نظیر حسین ڈومکی سمیت دیگر شخصیات سے ملاقات کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ نصیر آباد ڈویژن کے اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم سے مشاورت کا عمل جاری ہے، کیونکہ 28 ستمبر بروز اتوار ڈیرہ مراد جمالی میں نصابِ تعلیم کانفرنس منعقد کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی نصاب تعلیم کونسل ملک بھر میں نصاب تعلیم پر کانفرنسز کا سلسلہ شروع کر چکی ہے۔ اس سلسلے میں کوئٹہ، لاہور اور جیکب آباد میں کامیاب کانفرنسز منعقد ہوچکی ہیں جبکہ چوتھی نصاب تعلیم کانفرنس ڈیرہ مراد جمالی میں 28 ستمبر 2025 کو منعقد ہوگی جس میں اساتذہ، ماہرینِ تعلیم، علمائے کرام، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات شریک ہوں گی۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے مزید کہا کہ نصاب تعلیم کی اصلاح کے لیے اساتذہ، ماہرین تعلیم اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے مسلسل مشاورت کا عمل جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کانفرنسز کا مقصد اساتذہ اور ماہرین تعلیم کو اس اہم مسئلے کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ نصاب تعلیم سے متنازعہ مواد کا اخراج وقت کا تقاضا ہے اور نصاب کی اصلاح ناگزیر ہو چکی ہے۔ حکومت، وزارت تعلیم اور نصاب تعلیم کونسل کو چاہیے کہ وہ موجودہ نصاب کے متنازعہ نکات کی اصلاح کا عمل فی الفور شروع کریں اور ایسا نصاب ترتیب دیں جو تمام مکاتب فکر کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہو۔ قبل ازیں علامہ مقصود علی ڈومکی نے المصطفیٰ پبلک اسکول کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے پرائیوٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے صدر سکندر حسین مہر اور اسکول اساتذہ سے ملاقات کی اور تعلیم و نصاب تعلیم سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔

متعلقہ مضامین

  • ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگ کے دھماکوں میں ماں بیٹی سمیت 3 افراد جاں بحق
  • ڈیرہ اسماعیل خان: جانور دھوپ میں کیوں باندھے؟ بھائی نے کلہاڑی سے بہن کو قتل کر دیا
  • ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگ کے 2 دھماکے، 3 افراد جاں بحق
  • سیلاب سے متاثرہ دربار صاحب کرتار پور کو صفائی کے بعد سکھ یاتریوں کے لیے کھول دیا گیا
  • چوتھی نصاب تعلیم کانفرنس ڈیرہ مراد جمالی میں منعقد ہوگی، علامہ مقصود ڈومکی
  • وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا ضلع کیچ میں جام شہادت نوش کرنے والے کیپٹن وقار احمد اور جوانوں کو خراج عقیدت
  • محسن نقوی کا جام شہادت نوش کرنے والے کیپٹن وقار اور 4 جوانوں کو خراج عقیدت
  • سید علی گیلانیؒ… سچے اور کھرے پاکستانی
  • مولانا ثناء اللہ جماعت اسلامی ضلع سائٹ غربی حاجی بشیر احمد کے بھائی ڈاکٹر عبدالرشید کے انتقال پرتعزیت کررہے ہیں
  • جماعتِ اسلامی کی ٹیم اختیار سے بڑھ کر کام کررہی ہے‘فرحان بیگ