Express News:
2025-06-12@09:16:45 GMT

پی آئی اے کے بعد پولیس اکیڈیمی (چوتھی قسط)

اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT

(بیتے دنوں کی یادیں)

اخبار بیچنے والے پاکستانی نوجوان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’بی بی سی وغیرہ سے اتنا پتہ چلا ہے کہ آج شام فوج نے ٹی وی اسٹیشن اور پرائم منسٹر ہاؤس پر قبضہ کرلیا ہے، اس کے بعد ابھی تک کوئی خبر نہیں آرہی۔ پاکستان ٹی وی اس معاملے میں خاموش ہے‘‘۔ یہ سن کر دل کو دھچکا سا لگا کہ ہمارے ملک میں کچھ عرصے کے لیے جمہوری نظام چلنے لگتا ہے تو پھر غیر جمہوری قوّتیں شب خون مارتی ہیں اور ہم پھر واپس زیرو پوائنٹ پر آجاتے ہیں۔

ہم باتیں کررہے تھے کہ فاروق چوہدری بھی پہنچ گئے۔ ایک اجنبی ملک میں فاروق جیسے ہمدم دِیرینہ کا ملنا میرے لیے ملاقاتِ مسیحا وخضر سے زیادہ خوشی اور اطمینان کا باعث تھا۔ میں اُن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر ان کے گھر چلاگیا۔ رات گئے تک ہم ملک کی صورتِ حال کے بارے میں باتیں کرتے اور تشویش کا اظہار کرتے رہے۔ میری ویانا سے زیورچ کی فلائٹ بوقتِ سحر تھی لہٰذا میں سحری کے وقت بیدار ہوگیا۔

فاروق نے مجھے جلدی سے ناشتہ کراکے گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی ائیرپورٹ کی جانب دوڑادی۔ راستے میں میں نے فرمائش کردی کہ چوہدری صاحب ویانا آکر بھی میں شاہی محلّات کے پرشکوہ لان اور سبزہ زار دیکھے بغیر چلاجاؤں تو ہمیشہ افسوس رہے گا۔ یہ سنتے ہی چوہدری فاروق نے گاڑی موڑ دی اور مجھے میری منزل پر لے گیا، وسیع وعریض سبزہ زار اور انتہائی سلیقے سے کٹی ہوئی hedges نے مبہوت کردیا۔

جلدی جلدی چند تصویریں بنائیں اور پھر فاروق نے گاڑی ائیرپورٹ کی جانب موڑدی۔ اُس روز فاروق چوہدری نے وقت پر ائیرپورٹ پہنچنے اور فلائیٹ پکڑنے کا Mission impossible جس طرح مکمّل کیا وہ ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ زیورچ پہنچ کرگزشتہ روز معلوم ہوگیا کہ جنرل مشرّف کے دو تین وفادار جرنیلوں نے پرائم منسٹر کو گرفتار کرکے حکومت پر قبضہ کرلیا ہے، اور آئین اور پارلیمنٹ کو برخاست کردیا ہے۔

میں نے دو دن بے دلی سے کانفرنس میں شرکت کی اور 15 اکتوبر کو پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے اسلام آباد پہنچ گیا، اسلام آباد پہنچ کر گزشتہ روز کراچی جانے کا ارادہ کیا تو گھر والوں نے جانے سے منع کیا کہ ’’اب حالات ٹھیک نہیں کراچی نہ جائیں‘‘ مگر میں نے ایک بار واپس اپنے دفتر جانا ضروری سمجھا۔ کراچی پہنچ کر دیکھا تو ہر چیز بدلی ہوئی تھی۔

ہوٹل پر تعیّنات فوجیوں سے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ پتہ کریں میرے لیے کیا ہدایات ہیں؟ اس دوران میں باہر کار میں بیٹھا رہا۔ جونئیر فوجی اہلکار ادھر ادھر سے پوچھتے رہے پھر انھوں نے آکر کہا کہ ’’آپ اپنے کمرے میں جاکر رہ سکتے ہیں مگر آپ کو کوئی مل نہیں سکتا‘‘ اپنی رہائش گاہ یعنی چوتھے فلور پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ چیئرمین شاہد خاقان صاحب کو یہیں نظر بند کیا ہوا ہے۔ اس فلور کے انچارج کرنل سے ملا اور کہا کہ ’’میں چیئرمین پی آئی اے شاہد خاقان عباسی صاحب سے ملنا چاہتا ہوں، مگر اس نے اجازت نہ دی۔ میں وہاں دو دن رہا اور ویٹروں کے ذریعے شاہد خاقان صاحب کو سلام دعا بھیجتا رہا اور ان کی خیریّت پوچھتا رہا ۔

دو روز کے بعد میں نئے ایم ڈی عارف عباسی سے ملا ، میں نے اسے کہا کہ مجھے واپس اپنے محکمے میں بھیج دیں۔ چنانچہ ایک دو روز بعد میری واپسی کے احکامات جاری ہوگئے اور میں چند روز کے بعد اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری سے ملنے ان کے دفتر پہنچ گیا۔ اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری طارق سعید ہارون میرے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے تھے۔

مجھے ملتے ہی کہنے لگے کہ ’’آپ تو فیلڈ کے افسر ہیں، میں آئی جی پنجاب سے بات کرتا ہوں کہ آپ کو فیلڈ میں تعیّنات کرے‘‘۔ میں نے کہا ’’سر! میں پنجاب کے بجائے پولیس اکیڈیمی میں جانا چاہتا ہوں تاکہ نوجوان افسروں کی تربیّت میں کچھ حصّہ ڈال سکوں‘‘ انھوں نے کہا کہ سوچ لیں۔ پنجاب یا پولیس اکیڈیمی؟ میں نے پر زور انداز میں کہا ’’سر! صرف پولیس اکیڈیمی‘‘ چنانچہ انھوں نے انٹر کام پر جوائنٹ سیکریٹری کو ہدایات دے دیں اور اُسی شام کو میری نیشنل پولیس اکیڈیمی میں تعیّناتی کا نوٹیفیکیشن جاری ہوگیا۔

اُن دنوں نیشنل پولیس اکیڈیمی کی وفاقی دارالحکومت میں کوئی بلڈنگ نہیں تھی، کسی زمانے میں کہوٹہ روڈ پر سواں کیمپ کے مقام پر ایک پہاڑی پر پی آئی ڈی سی کا ریسٹ ہاؤس ہوتا تھا۔ ملک میں امن وامان بہتر کرنے کے خواہشمند حکمرانوں کو پولیس کی آیندہ لیڈرشپ کے لیے کوئی اور جگہ نہ ملی تو اسی ریسٹ ہاؤس کو نیشنل پولیس اکیڈیمی قرار دے دیا گیا اور کئی سالوں تک زیرِ تربیّت اے ایس پیز کی ٹریننگ وہیں ہوتی رہی۔ جب ہم یہاں زیرِ تربیّت تھے تو اُس وقت وسائل کی کم یابی کا یہ عالم تھا کہ اکیڈیمی کے کمانڈنٹ صاحبزادہ رؤف علی خان (جو پنجاب کے آئی جی بھی رہ چکے تھے) سوزوکی کار میں آیا کرتے اور اس عمارت کے ایک کونے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں (جو ان کا دفتر تھا) بیٹھا کرتے تھے۔

رہائشی کمروں، کلاس روم یا میس میں ائیر کنڈیشنر کا کوئی تصور نہیں تھا۔ میں جب پولیس اکیڈیمی میں تعینات ہوا اُس وقت افضل شگری صاحب کمانڈنٹ تھے اور صفوت غیور (شہید) اے ایس پیز کے کورس کمانڈر تھے۔ میری تعیناتی کے ایک مہینے بعد صفوت غیور کی پشاور ٹرانسفر ہوگئی اور شگری صاحب نے مجھے اے ایس پیز کی ٹریننگ کا انچارج (کورس کمانڈر) مقرر کردیا۔

کئی سالوں بعد سواں کیمپ جاکر دیکھا تو اس کی ویرانی اور بے سروسامانی دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ ٹریننگ بھی بڑی فرسودہ اور روایتی قسم کی ہورہی تھی۔ پولیس کے چند ریٹائرڈ ایس پی اور ڈی ایس پی مستقبل کے پولیس لیڈرز کو قوانین کی دفعات پڑھا کر چلے جاتے تھے۔ ہم نے فوری طور پر دو تین کام کیے۔ کیمپس کے حسن اور دلکشی میں اضافے کے لیے نئی کیاریاں بنا کر وہاں رنگا رنگ کے پھولوں کے پودے لگائے دو ڈھائی مہینوں بعد جب پودے پھولوں سے بھر گئے تو پورے کیمپس کا حسن نکھر آیا۔ تمام رہائشی کمروں کے ساتھ باتھ روموں میں نئی ٹائلیں لگوائیں۔ جس کے بعد نئے رنگ وروغن سے اکیڈیمی کی پوری عمارت میں نکھار آگیا۔

بہتر انسٹرکٹرز کا انتخاب کیا اور سب سے اہم یہ کہ ملک کی اہم ترین شخصیات کو ’’گیسٹ اسپیکر‘‘ کے طور پر مدعو کرنا شروع کیا۔ جب اپنے اپنے فیلڈ کے ماہرین نے آکر اپنے تجربات اور علم نوجوان افسروں کے ساتھ شیئر کرنا شروع کیا تو ٹریننگ کا معیار صحیح معنوں میں بہت بلند ہوا۔ گیسٹ اسپیکرز میں ایس ایم ظفر اور اعتزاز احسن جیسے معروف قانون دان بھی آئے، اعلیٰ عدالتوں کے سرونگ اور ریٹائرڈ جج صاحبان بھی آنے لگے اور ارشاد احمد حقانی (مرحوم) اور ایاز امیر جیسے سینئر کالم نگار بھی آکر زیرِ تربیّت پولیس افسروں سے مکالمہ کرتے رہے۔

آئین پر گفتگو کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہم نے 1973کے آئین سازی کے سب سے اہم کردار یعنی اس دور کے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کو ڈھونڈ لیا۔ اور انھیں بھی پولیس اکیڈیمی لے کر آیا۔ وہ دو گھنٹے تک بولتے رہے اور جب انھوں نے تقریر ختم کی تو شرکاء کا متفقہ فیصلہ تھا کہ آج 1973 کے آئین ساز کو سننا ہماری زندگی کا سب سے خوشگوار اور مفید تجربہ تھا۔ سابق سفیروں میں ریاض کھوکھر صاحب کا خطاب بہت جاندار تھا۔

صاحبزادہ یعقوب علی خان کو مدعو کرنے میں ان کے گھر پر ملا تو انھوں نے صاف انکار کردیا کہ ایک جگہ جاؤں گا تو دوسرے اداروں کو انکار کیسے کروں گا۔ مگر میں نے بہت ضد کی تو مان گئے اور پھر وہ پولیس اکیڈیمی کے مستقل گیسٹ اسپیکر بن گئے۔ اعتزاز احسن کو جب بلایا گیا اُس وقت وہ اپوزیشن کے سرگرم رکن تھے اس لیے وزارتِ داخلہ کو ان کا بلانا پسند نہ آیا، اسی طرح میں نے ایک بار عمران خان کو (جو اس وقت ابھی اتنے مقبول نہیں ہوئے تھے) مدعو کیا۔ پوچھ گچھ ہوئی کہ ایک اپوزیشن کے سیاستدان کو کیوں بلایا ہے؟ تو ہم نے اس طرح راستہ نکالا کہ اس روز اسپورٹس ٹورنامنٹ رکھ لیا اور پھر جواب یہ دیا کہ عمران خان کو اسپورٹس ہیرو کے طور پر بلایا گیا ہے۔ خیر وہ بھی سواں کیمپ پہنچ گئے اور انھوں نے تقریر بھی کی۔

ایک بار میں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی پولیس اکیڈیمی آکر زیرِتربیّت افسروں سے خطاب کرنے پر تیار کرلیا۔ چند اے ایس پیز کو بریف کردیا گیا کہ وہ اگر سوال وجواب کے دوران چیف جسٹس صاحب سے یہ پوچھنا چاہیں کہ سپریم کورٹ آئین توڑنے والے ڈکٹیٹروں کو تحفّظ کیوں فراہم کرتی ہے؟ تو پوچھ سکتے ہیں۔ اگر چہ ڈپٹی کمانڈنٹ نے چیف جسٹس کے آنے سے چند منٹ پہلے آکر کہہ دیا کہ معزز مہمان سے کوئی سوال نہیں ہوگا۔ مگر میں نے کورس کمانڈر کے طور پر انھیں اس کی اجازت دے دی چنانچہ نوجوان افسروں نے عدلیہ کے conduct کے بارے میں سوال کیے جس پر چیف جسٹس صاحب پسینے پونچھتے رہے۔   (باقی آیندہ)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اے ایس پیز انھوں نے چیف جسٹس پی ا ئی اور ان کہا کہ کے بعد

پڑھیں:

گوجرانوالہ: تیل ایجنسی میں آگ لگ گئی، 11 افراد جھلس گئے

پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کے نواحی گاوں وائیں والا میں تیل ایجنسی میں آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں پاس کھڑے 11 لوگ جھلس گئے۔

رپورٹ کے مطابق گوجرانوالہ پولیس نے کہا کہ واقعہ تھانہ علی پورچٹھہ  کی حدو میں پیش آیا،  آگ لگنے پر ریسکیو ٹیموں کواطلاع کی گئی، ریسکیو ٹیموں نے آگ پر قابو پالیا۔

گوجرانوالہ پولیس  نے بتایا کہ خود آگ بجھانے کی کوشش میں 11 لوگ جھلس گئے، زخمیوں میں سے  2 کی حالت تشویشناک ہے، زخمیوں کوڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کیا گیا  جہاں سے انہیں لاہور ریفر کردیا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گوجرانوالہ، تیل ایجنسی میں آگ لگ گئی، 11 افراد جھلس گئے
  • 26ویں ترمیم سے عدلیہ پر مارشل لا لگا دیا گیا، علی امین گنڈاپور
  • ہنگو: تلخ کلامی پر فائرنگ، 2 افراد جاں بحق
  • خان صاحب کی رہائی اب اگلی عید تک چلی گئی ہے؟ بیرسٹر گوہر سے سوال
  • گوجرانوالہ: تیل ایجنسی میں آگ لگ گئی، 11 افراد جھلس گئے
  • ڈاکٹر نذیر احمد کا یوم شہادت
  • عمران خان نے جیل میں چوتھی عید منائی، اس مرتبہ بھی نماز عید ادا نہ کرسکے
  • محرابپور،نہر سے مسح شدہ نعش برآمد
  • کوئٹہ، پولیس اہلکار کی ٹریفک پولیس اہلکار پر تشدد