data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہونے کہاکہ غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی سے متعلق پیش رفت ہوئی ہے۔

تل ابیب عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ویڈیو بیان میں کہا امید ہے جلد اچھی خبر ملے گی، اسرائیل قیدیوں کو ہر صورت زندہ یا مردہ واپس لانا چاہتا ہے،حماس نے 7 اکتوبر 2023ء کو 251 اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا ہے۔

نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا کہ 55 تاحال حماس کی قید میں ہیں، جن میں 31 اسرائیلی یرغمالی ہلاک ہو چکے۔

واضح رہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے دشمن اس کا اور انسانیت کی مشترکہ تہذیب کا خاتمہ کر کے جبر و دہشت کا راج چاہتے ہیں جبکہ ان کا ملک اپنے دفاع کی جنگ لڑتا رہے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نیتن یاہو

پڑھیں:

غزہ کی آڑ میں مغربی کنارہ نگلنے کی اسرائیلی پیش قدمی

اسلام ٹائمز: اگر آج غزہ جل رہا ہے، تو ریاض، ابوظہبی، قاہرہ، عمان اور رباط قطر کیریو دمشق میں قہقہے کیوں گونج رہے ہیں؟ غزہ کے بچے روٹی مانگتے ہیں، دوائی مانگتے ہیں، پناہ مانگتے ہیں، اور عرب بادشاہ اسرائیل سے دفاعی ڈرون اور نائٹ ویژن کیمرے خرید رہے ہیں اور اس ظالمانہ منظرنامے میں اگر کوئی ایک ملک ہے جو اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسی، زبان، ہتھیار اور نظریہ واضح رکھے ہوئے ہے تو وہ ایران ہے۔ ایران کی قیادت وہ واحد آواز ہے جو بغیر کسی خوف کے کھلے عام کہتی ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، اور فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی

غزہ پر جاری ظلم و بربریت نے عالمی ضمیر کو اس قدر مفلوج کر دیا ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے کو بھی خاموشی سے نگلنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ غزہ کا سانحہ جہاں پوری انسانی آبادی کو خوراک، پانی اور دوا سے محروم نسل کشی کی نہج پر لے آیا، وہیں مغربی کنارہ اسرائیلی نقشے میں تقریباً مکمل طور پر ضم ہو چکا ہے۔ اب صرف باضابطہ اعلان کی دیر ہے۔ اس مظلوم قوم کی آہوں، لاشوں، زخمی بچوں، ماؤں کی سسکیوں، اور بے گھر خاندانوں کے سامنے پوری انسانیت کا سر شرم سے جھک جانا چاہیئے تھا، مگر اسرائیل نے اس انسانی المیے کو ایک موقع میں بدل دیا۔ اُس نے غزہ کی تباہی کو پردہ بنا کر مغربی کنارے پر قبضے کا حتمی منصوبہ بھی آگے بڑھا دیا، اور دنیا نے ایک بار پھر صرف خاموشی کی زبان بولی۔

اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے ایک علامتی قرارداد کے ذریعے مغربی کنارے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اکہتر کے مقابلے میں تیرہ ووٹوں سے منظور شدہ اس قرارداد کے پیچھے وہی پرانی صیہونی ذہنیت، ریاستی طاقت، مذہبی شدت پسندی اور نیتن یاہو کا فسطائی ایجنڈا کارفرما ہے، وہی ایجنڈا جو اسرائیل کو نیل سے فرات تک پھیلانے کا خواب دیکھتا ہے۔ اس قرارداد میں فلسطینیوں کو کسی ریاست، شناخت یا حقِ خود ارادیت کی کوئی گنجائش نہیں دی گئی۔ بلکہ یہ ایک اعلان ہے کہ اب فلسطینیوں کی زمین، تاریخ، تشخص، اور وجود، سب کچھ باقاعدہ طور پر صیہونی ریاست کے پیروں تلے روند دیا جائے گا۔

مگر اصل المیہ صرف اسرائیلی جارحیت نہیں، اصل المیہ وہ زخم ہے جو امت مسلمہ کے خنجر سے فلسطین کے جسم پر لگ رہا ہے۔ عرب حکمران، جن کے پاس تیل کی دولت ہے، افواج ہیں، اور دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں سفارت خانے ہیں۔ وہ سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کچھ تو اس خاموشی سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ معاہدے، تجارتی روابط، دفاعی تعاون، اور مشترکہ منصوبوں پر دستخط کر کے گویا فلسطینیوں کے قتل پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ کیا یہی وہ امت ہے جسے رسولِ اکرم (ص) نے ایک جسم قرار دیا تھا؟ کیا ایک حصے کے زخم پر دوسرا حصہ بے حس ہو سکتا ہے؟

اگر آج غزہ جل رہا ہے، تو ریاض، ابوظہبی، قاہرہ، عمان اور رباط قطر کیریو دمشق میں قہقہے کیوں گونج رہے ہیں؟ غزہ کے بچے روٹی مانگتے ہیں، دوائی مانگتے ہیں، پناہ مانگتے ہیں، اور عرب بادشاہ اسرائیل سے دفاعی ڈرون اور نائٹ ویژن کیمرے خرید رہے ہیں اور اس ظالمانہ منظرنامے میں اگر کوئی ایک ملک ہے جو اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسی، زبان، ہتھیار اور نظریہ واضح رکھے ہوئے ہے تو وہ ایران ہے۔ ایران کی قیادت وہ واحد آواز ہے جو بغیر کسی خوف کے کھلے عام کہتی ہے کہ ’’اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، اور فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔‘‘

ایران نے صرف بیانات ہی نہیں دیے، بلکہ مسلسل عسکری، مالی، اور نظریاتی مدد فراہم کی ہے۔ چاہے وہ حماس ہو، انصاراللہ ہو اسلامی جہاد، یا حزب اللہ۔ ایران نے اسرائیلی بمباری کے جواب میں کبھی ’’تشویش‘‘ پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مزاحمتی اتحاد کی عملی حکمت عملی تشکیل دی۔ ایران پر عالمی پابندیاں لگیں، اقتصادی جنگ مسلط ہوئی، سفارتی تنہائی پیدا کی گئی، مگر اس کے مؤقف میں ذرہ برابر بھی لرزش نہ آئی۔ ایران کی اسی مزاحمت نے مغرب کے خیمے میں تھرتھلی مچا رکھی ہے۔ اسرائیل کی ہر سازش کے پیچھے یہ خطرہ موجود ہے کہ کہیں ایران سے نیا جواب نہ آ جائے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی حالیہ قرارداد میں "ایرانی شیطانی تکون" کو مرکزی خطرہ قرار دیا گیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر عرب حکمران صرف "تشویش" کے سفیر ہیں، تو ایران اس وقت واحد ریاست ہے جو میدانِ عمل میں اسرائیل کے سامراجی منصوبے کے خلاف کھڑی ہے۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ جن کے سینوں میں رسول (ص) کا عشق ہے، وہ آج اسرائیل کے ساتھ افطار کی میز پر بیٹھتے ہیں، اور جن پر صدیوں سے کفر کا فتویٰ چسپاں ہے، وہ قبلۂ اول کی حرمت کے لیے فرنٹ لائن پر ہیں؟ تاریخ نے اُمت کو ایک آئینہ دکھا دیا ہے — اب یہ ہمارے ضمیر کا امتحان ہے کہ ہم کس طرف کھڑے ہوتے ہیں۔

کیا کوئی ایک عرب ملک ایسا ہے جو اسرائیل کو سفارتی، تجارتی یا عسکری زبان میں روک سکے؟ قطر اور ترکی کی چند علامتی کوششوں کے سوا پورے عرب ورلڈ پر موت طاری ہے۔ وہ اقوامِ متحدہ کی بے اثر قراردادوں، او آئی سی کے بے جان اجلاسوں، اور میڈیا کے خالی بیانات سے زیادہ کچھ نہیں کر رہے۔ جبکہ اسرائیل زمین ہڑپ کر رہا ہے، بستیاں بسا رہا ہے، مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال کر رہا ہے اور دنیا کی سب سے منظم نسل کشی کر رہا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ فیصلہ کرے گی کہ فلسطین کو اسرائیل نے قتل نہیں کیا بلکہ مسلم حکمرانوں کی خاموشی، بے حسی، اور منافقت نے فلسطین کو دفن کر دیا۔ آج جو یروشلم کے منبر خاموش ہیں، کل ان پر صیہونی جھنڈا لہرائے گا، آج جو غزہ کی بستیوں پر بم برس رہے ہیں، کل وہ مکہ و مدینہ کے افق پر بھی چھا سکتے ہیں، اگر یہی خاموشی برقرار رہی۔

یہ سب کچھ ہوتے ہوئے اسرائیلی نصاب میں بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے ’’خدا نے نیل سے فرات تک کی زمین بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے عطا کی ہے۔‘‘ یہ تعلیم ایک نسل کو صرف صیہونی نہیں، سامراجی، قاتل اور استعماری سوچ کا وارث بنا رہی ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کیا کرے گا، سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں گے؟ کیا ہم ماتم کرتے رہیں گے؟ کیا ہم صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کرتے رہیں گے؟ کیا ہم حکمرانوں سے رحم کی بھیک مانگتے رہیں گے؟ نہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ امت مسلمہ کا ہر فرد اپنے حصے کی مشعل جلائے۔ بائیکاٹ سے، قلم سے، احتجاج سے، دعا سے، اور اگر ممکن ہو تو میدانِ عمل سے۔ کیونکہ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی تو کل تاریخ ہمیں بھی ظالموں کے ساتھ لکھے گی۔ خدا کے حضور، تاریخ کے صفحات پر، اور مظلوم فلسطینیوں کی آنکھوں میں اب صرف ایک ہی سوال ہے۔
"جب مسجد اقصیٰ جل رہی تھی، تم کہاں تھے؟"

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی فوج غزہ میں کارروائیاں جاری رکھے گی، اپنا مقصد حاصل کرینگے، نیتن یاہو
  • اسرائیل نے ایک بار پھر ایرانی سپریم لیڈر کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی
  • غزہ کی آڑ میں مغربی کنارہ نگلنے کی اسرائیلی پیش قدمی
  • امریکا سے امداد نہیں، تجارت چاہتے ہیں: اسحاق ڈار
  • حماس رہنما جنگ بندی پر راضی نہیں، وہ مرنا چاہتے ہیں اور اسکا وقت آگیا؛ ٹرمپ کی دھمکی
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، امریکا اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بُلالیے
  • یونان میں غزہ جنگ کے خلاف مظاہرہ، اسرائیلی بحری جہاز کو واپس جانے پر مجبور کردیا، ویڈیو وائرل
  • امریکا اور اسرائیل کا غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک انخلا، حماس پر نیک نیتی کی کمی کا الزام
  • امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی مذاکرات سے ٹیمیں واپس بلائیں، حماس نے مؤقف کو ناقابل فہم قرار دیا
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، امریکا اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بلالیے