اسلام ٹائمز: عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی اسرائیل کے پرزور حامی اور قدامت پسند نظریات رکھتے ہیں۔ بلومبرگ کو دیئے گئے انٹرویو میں انکا مزید کہنا تھا کہ جب تک کچھ نمایاں تبدیلیاں نہ ہوں، جو کلچر کو بدل دیں، اسوقت تک اس (فلسطینی ریاست) کی کوئی گنجائش نہیں ہے، غالباً یہ تبدیلیاں "ہماری زندگی میں نہیں ہوں گی۔" امریکی سفیر نے تجویز دی کہ فلسطینی ریاست کیلئے اسرائیل کو جگہ خالی کرنے کے بجائے کسی مسلم ملک سے زمین نکالی جا سکتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
امریکہ اسرائیل تعلقات پر غیر جانبدارانہ نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار ہمیشہ سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ اسرائیل کے ہر اقدام کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن وائٹ ہاؤس کی بعض فنکارئیوں کی بدولت بعض سادہ اندیش اس تھیوری کو تسلیم نہیں کرتے۔ طوفان الاقصیٰ کے بعد غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے باوجود امریکہ کا مجرمانہ رویہ اس بات کا عکاس ہے کہ اس نسل کشی میں امریکہ کی سفارتی، اقتصادی، فوجی اور سیاسی حمایت ببانگ دہل اسرائیل کو حاصل رہی۔ صدر ٹرمپ بھی پینترے بدل بدل کر صیہونی حکومت کی حمایت کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں، لیکن بظاہر جنگ بندی اور اس طرح کے دیگر شوشے چھوڑتے رہتے ہیں، جس سے رائے عامہ تک یہ پیغام پہنچے کہ امریکہ صیہونی جرائم میں شریک نہیں۔ البتہ امریکہ نے اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیل کو جتنا اسلحہ فراہم کیا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
در این اثناء امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر مائیک جانسن نے اعلان کیا ہے کہ وہ 22 جون کو اسرائیلی پارلیمان سے خطاب کرنے کے لیے اسرائیلی دورے پر جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی فوجی شراکت داری اور تجارتی تعلقات سے بھی بڑھ کر گہرے تعلقات رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے سلسلے میں امریکہ کا فوجی تعاون اور اسرائیل کے لیے امداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ حتیٰ کہ اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے محض چند روز پہلے امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لیے قرارداد کو 5ویں بار ویٹو کیا ہے۔
بہرحال اس مقدمہ اور اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل میں تعینات امریکہ کے سفیر کے حالیہ موقف کی طرف قارئین کی توجہ کو مبذول کرایا جائے۔ اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر مائیک ہکابی نے کہا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست اب امریکی پالیسی کا حصہ نہیں ہے اور فلسطینی ریاست کے لیے کسی مسلم ملک سے زمین نکالی جا سکتی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے "رائٹرز" کے مطابق امریکی سفیر نے کہا ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست اب امریکی خارجہ پالیسی کا ہدف ہے۔ بلو مبرگ نیوز کو دیئے گئے، ایک انٹرویو میں جب امریکی سفیر مائیک ہکابی سے سوال کیا گیا کہ کیا فلسطینی ریاست اب بھی امریکی پالیسی کا ہدف ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا "میرا نہیں خیال۔"
محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس سے جب پوچھا گیا کہ آیا ہکابی کے بیانات امریکی پالیسی میں کسی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ پالیسی سازی کا اختیار ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے پاس ہے۔ وائٹ ہاؤس سے جب امریکی سفیر کے بیان سے متعلق پوچھا گیا تو ترجمان نے رواں سال کے اوائل میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے غزہ پر امریکی کنٹرول کی تجویز دی تھی۔ تاہم، ٹرمپ کے اس بیان کی انسانی حقوق کی تنظیموں، عرب ممالک، فلسطینیوں اور اقوام متحدہ نے شدید مذمت کی تھی اور اسے "نسلی صفائی" کی تجویز قرار دیا تھا۔ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی اسرائیل کے پرزور حامی اور قدامت پسند نظریات رکھتے ہیں۔
بلومبرگ کو دیئے گئے انٹرویو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک کچھ نمایاں تبدیلیاں نہ ہوں، جو کلچر کو بدل دیں، اس وقت تک اس (فلسطینی ریاست) کی کوئی گنجائش نہیں ہے، غالباً یہ تبدیلیاں "ہماری زندگی میں نہیں ہوں گی۔" امریکی سفیر نے تجویز دی کہ فلسطینی ریاست کے لیے اسرائیل کو جگہ خالی کرنے کے بجائے کسی مسلم ملک سے زمین نکالی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ امریکی سفیر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اقوام متحدہ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کونسا اسلامی ملک فلسطینیوں کو اپنی زمین دے کر اپنے ملک میں بساتا ہے اور امریکی ایجنڈے کو عملی جامہ پہناتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست اسرائیل میں اسرائیل کے اسرائیل کو انہوں نے کے لیے اور اس
پڑھیں:
اقوام متحدہ میں عالمی کانفرنس، سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بن عبداللہ نے تصدیق کی ہے کہ سعودی عرب فرانس کے اشتراک سے اقوام متحدہ کے صدر دفتر نیویارک میں اس ہفتے منعقد ہونے والی اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس کی قیادت کرے گا، جس کا مقصد مسئلہ فلسطین کا پُرامن حل اور دو ریاستی حل کے عملی نفاذ کو ممکن بنانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فرانس کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کا سعودی عرب کی جانب سے خیرمقدم
انہوں نے سعودی پریس ایجنسی کو اپنے بیان میں بتایا کہ مملکت کی جانب سے اس کانفرنس کی قیادت مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اس کے مستقل اصولی مؤقف اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی حمایت کے تسلسل کا مظہر ہے۔
انہوں نے کہاکہ سعودی عرب 1967 کی سرحدوں پر مشتمل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور مشرقی القدس کو اس کا دارالحکومت بنانے کے اصولی مؤقف پر قائم ہے، اور اسی تناظر میں خطے میں جامع و منصفانہ امن کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔
وزیر خارجہ نے واضح کیاکہ خادمِ حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں مملکت مشرق وسطیٰ میں منصفانہ امن کے قیام کے لیے بھرپور سفارتی کردار ادا کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب انسانی ہمدردی، قیامِ امن اور خطے میں دیرینہ تنازع کے خاتمے کے لیے عالمی کوششوں میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کے ایک تہائی ارکانِ پارلیمنٹ نے اسٹارمر سے فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر دیا
شہزادہ فیصل بن فرحان نے بتایا کہ یہ کانفرنس نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے ایک اہم قدم ہے، بلکہ ستمبر 2024 میں سعودی عرب، ناروے اور یورپی یونین کی جانب سے پیش کردہ دو ریاستی حل کے لیے بنائے گئے بین الاقوامی اتحاد کی عملی تقویت بھی ہے۔ اس کے علاوہ یہ عرب و اسلامی وزارتی کمیٹی کی ان کوششوں کا تسلسل ہے جو فلسطینی عوام کو ان کے حقوق دلوانے اور خطے میں پائیدار امن واستحکام کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اقوام متحدہ دو ریاستی حل سعودی عرب سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان مسئلہ فلسطین وی نیوز