پنجاب اسمبلی: ’میرے ساتھ نہ بگاڑیں‘، اسپیکر ملک احمد کی اپوزیشن کو وارننگ
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
پنجاب اسمبلی—فائل فوٹو
پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج 1 گھنٹہ 55 منٹ کی تاخیر سے لاہور میں شروع ہوا۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے اجلاس کی صدارت کی، اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کے سامنے نعرے لگائے۔
حکومتی رکن راجہ شوکت عزیز بھٹی نے راولپنڈی میں شہید پولیس اہلکاروں کے لیے دعائے مغفرت کی درخواست کی، راجہ شوکت عزیز بھٹی نے کہا کہ اپوزیشں ارکان کے نعروں کے بعد دعائے مغفرت کروائی جائے۔
اس موقع پر اسپیکر نے اپوزیشن ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا میرے ساتھ نہ بگاڑیں میرے ساتھ اچھے رہیں، کسی کو میرے متعلق پتہ ہو یا نہ ہو سردار محمد علی کو پتہ ہے۔
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد بھچر نے بعدازاں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم 16 جون کو ان کے بجٹ کا جواب دیں گے، ہمیں اپنے جائز حقوق کے لیے بھی احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کل ایک قرار داد کو پڑھے بغیر ہی منظور کرا لیا گیا، ستھرا پنجاب خوش آمدی قرار داد کو لایا گیا۔
ملک احمد بھچر نے کہا کہ ہم نے احتجاج کیا، اسپیکر مجبور تھے، اسی حکومت کا حصہ ہیں، اسپیکر نے ن لیگ کے ارکان کو بلایا اور کوآپریٹو کا بل بھی پاس کروایا۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کی لیکن اسپیکر نے ایک نہ سنی، ستھرا پنجاب میں 30 ارب روپے کرپشن کی گئی، ٹھیکیداروں کو نوازا گیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پنجاب اسمبلی کہا کہ
پڑھیں:
اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ، 27 ویں ترمیم کی حمایت کردی
اسپیکرپنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کردیا اور کہتے ہیں اگر اس سلسلہ میں 27 ویں آئینی ترمیم بھی منظور کی جاتی ہے تو اس کی حمایت کریں گے۔
پنجاب اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہاکہ پنجاب سے ضلعی حکومت کی مدت کے تحفظ کےلیے منظورکی جانے والی قرارداد نئی آئینی ترمیم کی سفارش کرتی ہے جس کے لیے قومی اسمبلی و سینیٹ کواپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ آئینی تحفظ کے لیے اگر 27 ویں آئینی ترمیم بھی کرنا پڑی تو اس کی حمایت کریں گے، اسپیکر ملک محمد احمد خان نے کہاکہ ملک میں گزشتہ 50 سال کے دوران مقامی حکومتوں کا وجود نہیں رہا، توقع کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتیں اس ترمیم کی حمایت کریں گی۔
ان کاکہنا تھاکہ ضلعی حکومتوں کی عدم موجودگی میں ریاست کا عمرانی معاہدہ کمزور ہوا ہے، ضلعی حکومت کےحوالے سے موثر قانون کی عدم موجودگی کے باعث ماضی میں صوبائی حکومتیں لوکل گورنمنٹس کو توڑتی رہی ہیں۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے مدارس اور علمائے کرام کے حوالے سے حکومت کے کئے جانے والے اقدام کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں اپنے اقدامات کے ساتھ ساتھ سعودی عرب ایران سمیت دیگراسلامی ممالک میں علمائے کرام کےلیے بنائے جانے والے ماڈل کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ مذہبی جماعت کے خلاف ہونے والے آپریشن کے بارے میں اسپیکر کاکہنا تھاکہ امن و امان بحال رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے جسے ریاست نے ہر صورت پورا کرنا ہے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے منگل 21 اکتوبر کو پنجاب میں طویل عرصے سے التوا کا شکار بلدیاتی انتخابات کے لیے جاری کردہ حلقہ بندی کے شیڈول کو واپس لے لیا تھا، جو 2022 کے مقامی حکومت کے قانون کے تحت جاری کیا گیا تھا۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت کو 4 ہفتوں کی مہلت دی ہے تاکہ وہ رواں ماہ کے آغاز میں نافذ ہونے والے نئے قانون کی روشنی میں حلقہ بندی اور حد بندی کے قواعد کو حتمی شکل دے۔
8 اکتوبر کو ای سی پی نے دسمبر میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا اور پنجاب حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ فوراً حلقہ بندی کا عمل شروع کرے اور دو ماہ کے اندر اسے مکمل کرے۔
یاد رہے کہ 2019 میں اُس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے پنجاب میں بلدیاتی ادارے تحلیل کر دیے تھے، جنہیں بعد میں سپریم کورٹ نے بحال کیا، اور ان کی مدت 31 دسمبر 2021 کو مکمل ہوئی تھی۔
اس کے مطابق انتخابات اپریل 2022 کے اختتام تک کرائے جانے تھے، آئین کے آرٹیکل 140-اے اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 219(4) کے تحت، الیکشن کمیشن پر لازم ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے 120 دن کے اندر انتخابات کرائے۔