Express News:
2025-06-14@12:42:52 GMT

جیوڈیشل کمیشن کے ارکان اور پرائیویٹ پریکٹس

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

26ویں آئینی ترمیم کے بعد ایک نیا جیوڈیشل کمیشن معرض وجود میں آچکا ہے۔ اس جیوڈیشل کمیشن کے عدلیہ کے سینئر ججز کے ساتھ ارکان پارلیمنٹ بھی ممبر ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے وکلا ارکان پارلیمنٹ کو اپنی اپنی طرف سے جیوڈیشل کمیشن کا ممبر نامزد کیا ہے۔

یہ شاید اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ انھیں آئین وقانون کی بہتر سمجھ ہوتی ہے۔ اس لیے وہ جیوڈیشل کمیشن میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف نے بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر کو جیوڈیشل کمیشن کا ممبر نامزد کیا ہوا ہے۔ جب کہ پیپلزپارٹی نے ماہر قانون فاروق ایچ نائیک کو ممبر نامزد کیا ہوا ہے۔ پاکستان بار کونسل نے سینئیر وکیل احسن بھون کو اس کا ممبر نامزد کیا ہوا ہے۔

میں ذاتی طور پر جیوڈیشل کمیشن کے خلاف نہیں ہوں نہ ہی میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف ہوں۔ میں ججز کی تعیناتی اور ان کے احتساب میں پارلیمان کے کردار کا حامی ہوں۔ میں پارلیمان کی بالادستی پر مکمل یقین رکھتا ہوں اور پارلیمان کو ایک بالا دست ادارہ سمجھتا ہوں۔ میں جیوڈیشل ایکٹوزم کے خلاف آواز بلند کرتا رہا ہوں۔

میں عدلیہ کے سیاسی کردار کے خلاف ہوں۔ کیونکہ عدلیہ اپنے سیاسی کردار کو اپنے فیصلوں سے آئینی تحفظ دینے کی کوشش کرتی ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔ میں سیاسی ججز کے خلاف ہوں۔ میں عدالتی آمریت کے بھی خلاف ہوں۔ ہماری عدلیہ میں 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے چیف جسٹس کے پاس زیادہ اختیارات تھے۔ پھر عدلیہ کو حکومتیں گرانے اور بنانے کا بھی شوق پڑ گیا تھا۔ اس لیے میں جیوڈیشل کمیشن اور 26ویں آئینی ترمیم دونوں کے حق میں ہوں۔ اتنی لمبی تمہید اس لیے باندھی ہے کیونکہ اب میں جو بات لکھنے جا رہا ہوں وہ جیوڈیشل کمیشن کے ممبران کے بارے میں ہے۔

اس لیے میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں جیوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور اس کی حیثیت کے خلاف نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں جیوڈیشل کمیشن کو ججز کے احتساب کے نظام کو بہتر کرنا چاہیے، انھیں ججز کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے، نالائق ججز کو نکالنا چاہیے، چیف جسٹس لگانے چاہیے، ججزکے کوڈ آف کنڈکٹ پر کام کرنا چاہیے۔ لیکن کیا جیوڈیشل کمیشن کے اپنے ارکان کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو ادارہ عدلیہ کو چلانے کا ذمے دار ہو اس کا اپنا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہ ہو۔ جس سے ہم عدلیہ کے احتساب کی توقع رکھتے ہیں اس کے اپنے احتساب کا کوئی طریقہ کار موجود نہ ہو۔

ہمیں یہ بات ماننی چاہیے کہ جیوڈیشل کمیشن اس وقت عدلیہ کو ریگولیٹ کرنے کا ایک موثر ادارہ بن گیا ہے۔ اس لیے اس کے ممبران کی ذمے داری بھی زیادہ ہے۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جیوڈیشل کمیشن کے وکلا ممبران جیوڈیشل کمیشن کا ممبر بننے کے بعد اپنی ذاتی وکالت کی پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس ضمن میں ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ جن ججز کی تعیناتی کا معاملہ جیوڈشل کمیشن میں زیر غور ہے جب ان ججز کے سامنے جیوڈیشل کمیشن کا کوئی ممبر پیش ہوتا ہے تو جج صاحب ریلیف دیتے ہیں۔ کیونکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ جج صاحب اپنے لیے جیوڈیشل کمیشن کا ایک ووٹ پکا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جیوڈیشل کمیشن کے ممبر کو ناراض نہیں کرنا چاہتے، اس لیے ریلیف دے دیتے ہیں ۔ اس طرح ممبر بھی خوش جج بھی خوش ۔ میں کسی خاص واقعہ کو اس وقت تحریر نہیں کرنا چاہتا لیکن ایسے خاص واقعات سامنے آئے ہیں۔

جیوڈیشل کمیشن کے ممبران کے لیے ایک کوڈ آف کنڈکٹ ہونا چاہیے۔ انھیں شتر بے مہار نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ سب کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ بنائیں اور ان کے لیے کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہ ہو۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں جیوڈیشل کمیشن کو یہ طے کرنا چاہیے کہ جب تک اس کے وکیل ممبران جیوڈیشل کمیشن کے ممبر ہیں وہ اپنی ذاتی پریکٹس نہیں کر سکتے۔ وہ ججز کے سامنے پیش نہیں ہو سکتے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو ان کی روزی روٹی ہے۔ اگر روزی روٹی ہے تو پھر جیوڈیشل کمیشن کے ممبر نہ بنیں۔ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف اپنے وکیل ارکان پارلیمنٹ کو ہی جیوڈیشل کمیشن کا ممبر نامزد کریں گی۔ اگر کوئی ممبر اپنی ذاتی پریکٹس جاری رکھنا چاہتا ہے تو جیوڈیشل کمیشن کا ممبر نہ بنے، اگر ذاتی پریکٹس کی قربانی دے سکتا ہے تو ممبر بن جائے۔ اب سیاسی جماعتوں کے ممبران پر تو یہ کوڈ آف کنڈکٹ نافذ ہو بھی جائے تو پاکستان بار کونسل کے ممبر تو اپنی ذاتی پریکٹس جاری رکھیں گے۔ وہ تو ممبر ہی وکیل ہونے کی وجہ سے بنے ہیں۔

ہم نے دیکھا ہے کہ جیوڈیشل کمیشن کے گزشتہ اجلاسوں میں کئی تعیناتیاں صرف ایک ووٹ سے ممکن ہو گئی ہیں اور کئی صرف ایک ووٹ سے مسترد ہو گئی ہیں۔ اس لیے ایک ایک ووٹ اہم ہے۔ایک ووٹ کسی کو چیف جسٹس بنا بھی سکتا ہے اور کسی کو بننے سے روک بھی سکتا ہے۔

جب کوئی ممبر بھی کسی ایسے جج کے سامنے پیش ہونگے جس کا معاملہ جیوڈشل کمیشن میں زیر غور ہوگا تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ آپ کہیں گے ایسے تو اٹارنی جنرل بھی جیوڈیشل کمیشن کے ممبر ہیں۔ وہ تو حکومت کے وکیل ہیں۔ کیا وہ بھی جیوڈیشل کمیشن کے ممبر ہونے کی وجہ سے پیش نہ ہوں۔ نہیں میں نہیں سمجھتا کہ ان پر یہ قدغن لگائی جا سکتی ہے۔ یہ پرائیوٹ پریکٹس پر ہونی چاہیے۔ جہاں آجکل یہ رحجان دیکھنے میں آرہا ہے کہ کلائنٹس اس لیے بھی جیوڈیشل کمیشن کے ممبر کو وکیل کر رہے ہیں کہ اس کو آسانی سے ریلیف مل جائے گا۔ جج اس کی بات زیادہ سنیں گے۔ یہ جج کو دباؤ میں لا سکتا ہے۔

اس لیے میری رائے میں جیوڈیشل کمیشن کے ارکان کا بھی کوڈ آف کنڈکٹ ہونا چاہیے۔ ان پر بھاری ذمے داری ہے۔ وہ ملک کی عدلیہ کے فیصلے کرنے کے مجاز ہیں۔ جنھوں نے پوری قوم کا فیصلہ کرنا ہے۔ ان ممبران نے ان کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس لیے ان ممبران کو کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔

انھیں قواعد اور قاعدے کا پابند بنانا ہوگا۔ مجھے علم ہے کہ میں ایک مشکل بات کر رہا ہوں۔ سادہ جواب یہی ہوگاکہ یہ کیسے ممکن ہے۔ لیکن اس کو ممکن بنانا ہوگا۔ ایسے ہی جیسے چیف جسٹس کا بیٹا جج صاحب کے سامنے بطور وکیل پیش ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس کا بیٹا ہونے کی وجہ سے انھیں غیر معمولی ریلیف ملے گا۔ ہم نے دیکھا ججز کے بیٹوںکی پریکٹس والد کی وجہ سے کیسے چلی ہے۔ اس لیے اس معاملہ کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: 26ویں ا ئینی ترمیم ممبر نامزد کیا کا ممبر نامزد کوڈ ا ف کنڈکٹ ذاتی پریکٹس کے ممبران اپنی ذاتی کی وجہ سے چیف جسٹس عدلیہ کے خلاف ہوں کے سامنے ایک ووٹ سکتا ہے کے خلاف ممبر ہی نہیں ہو ا ہے کہ ججز کے اس لیے

پڑھیں:

پنجاب اسمبلی: ’میرے ساتھ نہ بگاڑیں‘، اسپیکر ملک احمد کی اپوزیشن کو وارننگ

پنجاب اسمبلی—فائل فوٹو

پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج 1 گھنٹہ 55 منٹ کی تاخیر سے لاہور میں شروع ہوا۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے اجلاس کی صدارت کی، اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کے سامنے نعرے لگائے۔

حکومتی رکن راجہ شوکت عزیز بھٹی نے راولپنڈی میں شہید پولیس اہلکاروں کے لیے دعائے مغفرت کی درخواست کی، راجہ شوکت عزیز بھٹی نے کہا کہ اپوزیشں ارکان کے نعروں کے بعد دعائے مغفرت کروائی جائے۔ 

اس موقع پر اسپیکر نے  اپوزیشن ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا میرے ساتھ نہ بگاڑیں میرے ساتھ اچھے رہیں، کسی کو میرے متعلق پتہ ہو یا نہ ہو سردار محمد علی کو پتہ ہے۔ 

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد بھچر نے بعدازاں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم 16 جون کو ان کے بجٹ کا جواب دیں گے، ہمیں اپنے جائز حقوق کے لیے بھی احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ کل ایک قرار داد کو پڑھے بغیر ہی منظور کرا لیا گیا، ستھرا پنجاب خوش آمدی قرار داد کو لایا گیا۔

ملک احمد بھچر نے کہا کہ ہم نے احتجاج کیا، اسپیکر مجبور تھے، اسی حکومت کا حصہ ہیں، اسپیکر نے ن لیگ کے ارکان کو بلایا اور کوآپریٹو کا بل بھی پاس کروایا۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کی لیکن اسپیکر نے ایک نہ سنی، ستھرا پنجاب میں 30 ارب روپے کرپشن کی گئی، ٹھیکیداروں کو نوازا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب اسمبلی: ’میرے ساتھ نہ بگاڑیں‘، اسپیکر ملک احمد کی اپوزیشن کو وارننگ
  • سرکاری ملازین کی ریٹائرمنٹ کی عمر ، نئی تجویز سامنے آگئی
  • صدرزرداری سے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی ارکان کی ملاقات
  • پیمرا نے میسرز ایم ٹیل کمیونیکیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ لاہور کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا
  • پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج طلب 
  • جوڈیشل کمیشن کا اہم اجلاس 19 جون کو طلب
  • جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 19 جون کو طلب
  • جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اہم اجلاس 19 جون کو طلب
  • جوڈیشل کمیشن کا اہم اجلاس 19 جون کو طلب، نوٹیفکیشن جاری