افغانستان :کوہ ہندوکش کے قریب 4.4 شدت کا زلزلہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کابل (انٹرنیشنل ڈیسک) افغانستان میں ہندوکش کے علاقے میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے،جن کی شدت 4.4 ریکارڈ کی گئی جبکہ اس کی گہرائی زمین میں 122 کلومیٹر تھی۔ زلزلے کا مرکز افغانستان کے ہندوکش پہاڑی سلسلے میں واقع تھا۔ گہرائی زیادہ ہونے کی وجہ سے زلزلے کے اثرات سطح زمین پر محدود رہے تاہم خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں ہلکے جھٹکے محسوس کیے گئے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
القاعدہ کمزور، ٹی ٹی پی مضبوط اور داعش فوری خطرہ بن چکی ہے، یو این او
شمالی افغانستان اور پاکستان سے متصل علاقوں میں، داعش مدرسوں میں بچوں کو شدت پسند نظریات سکھا کر خودکش مشن کے لیے تیار کر رہی ہے، جن کی عمریں تقریباً 14 سال ہیں۔ اگرچہ طالبان کی کارروائیوں سے داعش کو کچھ نقصان پہنچا ہے، لیکن یہ گروہ اب بھی نسبتاً آزادی سے کام کر رہا ہے اور اس کے جنگجوؤں میں وسطی ایشیائی، خواتین اور دیگر قومیتوں کے افراد بھی شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں جاری کشیدگی دہشتگرد گروہوں کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع بن سکتی ہے، جس سے خطے کی سلامتی مزید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 22 اپریل کے حملے کے بعد خطے کی صورتحال کو نازک قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی ایک نگرانی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دہشتگرد گروہ ان کشیدہ حالات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ تجزیہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کمیٹی کو رواں ہفتے پیش کی گئی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی ٹیم کی چھتیسویں رپورٹ میں شامل ہے، جو جنوری تا جون 2025 کی مدت پر مشتمل ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دہشتگرد گروہ، خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کو استعمال کر کے نہ صرف اپنا اثر بڑھا سکتے ہیں بلکہ حملوں میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پہلگام حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد، مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مختصر مگر شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں کئی دنوں تک گولہ باری اور میزائل فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ حملے کی ابتدائی ذمے داری دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) نے قبول کی، مگر بعد میں انکار کر دیا، جس کے بعد اس گروہ کے مبینہ لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) سے روابط پر بحث چھڑ گئی۔ رپورٹ کے مطابق ایک رکن ملک نے کہا کہ یہ حملہ لشکرِ طیبہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا اور ٹی آر ایف کے ساتھ اس کے تعلقات تھے، جب کہ دوسرے ملک نے ٹی آر ایف کو لشکرِ طیبہ کا ہی دوسرا نام قرار دیا۔ تاہم، ایک اور رکن ملک نے ان خیالات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لشکرِ طیبہ اب غیر فعال ہے، اختلاف رائے رکھنے والے ملکوں کے نام رپورٹ میں شامل نہیں کیے گئے۔ افغانستان کی سپورٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان کے عبوری حکام سے بھرپور لاجسٹک اور آپریشنل مدد حاصل ہے اور اس کے داعش خراسان، القاعدہ اور بلوچ علیحدگی پسندوں سے بھی روابط ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کو افغانستان میں ایک آزاد ماحول میں کام کرنے کی اجازت حاصل ہے، جہاں وہ جدید اسلحے تک رسائی رکھتے ہیں، جس سے ان کی کارروائیوں کی تباہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے پاس تقریباً 6 ہزار جنگجو موجود ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جنوبی اور وسطی ایشیا میں مختلف گروہوں نے نیٹو معیار کے ہتھیار اور دیگر سامان سرحد پار اسمگلنگ اور بلیک مارکیٹ کے ذریعے حاصل کیے۔ رکن ممالک نے رپورٹ کیا کہ ان میں سے بعض گروہوں نے پاکستانی فوجی تنصیبات پر ڈرون حملے کیے، جن میں سبی (بلوچستان) اور ماچھی (پنجاب) شامل ہیں۔ اگرچہ افغان طالبان کی قیادت میں ٹی ٹی پی سے فاصلہ رکھنے پر داخلی بحث جاری ہے، رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کی آپریشنل صلاحیتیں اب بھی مضبوط ہیں۔ رپورٹ میں بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کو ٹی ٹی پی کی جانب سے تربیت دینے اور افغانستان کے جنوب میں مشترکہ کیمپوں کے استعمال کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، جنوری 2025 میں ٹی ٹی پی نے بلوچستان میں دہشتگردوں کو تربیت دی اور انہوں نے بی ایل اے کے ساتھ چار کیمپ شیئر کیے، جن میں والیکوٹ اور شورابک شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ان گروہوں کو القاعدہ کی طرف سے نظریاتی اور اسلحہ کی تربیت بھی دی گئی۔
تاہم کچھ رکن ممالک نے اس اتحاد کو محض ایک غیر جارحانہ معاہدہ قرار دیا، نہ کہ مکمل اتحاد۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی نے داعش خراسان سے بھی ٹیکٹیکل سطح پر روابط قائم رکھے ہیں، جو ان کی علاقائی کارروائیوں میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ رپورٹ میں ایک بار پھر افغانستان کی طالبان حکومت پر دہشتگردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت نے مختلف دہشتگرد گروہوں، بشمول القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے سازگار ماحول فراہم کر رکھا ہے، جو وسطی ایشیا اور دیگر ممالک کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ داعش بڑھتا ہوا خطرہ رپورٹ کے مطابق، جنوبی و وسطی ایشیا میں سب سے بڑا موجودہ خطرہ داعش خراسان ہے، جس کے جنگجوؤں کی تعداد تقریباً 2 ہزار ہے اور اس گروہ کی قیادت سنااللہ غفاری کر رہا ہے۔ داعش خراسان افغانستان، وسطی ایشیا اور روسی شمالی قفقاز میں سرگرم ہے اور یہ شیعہ برادری، غیر ملکیوں اور طالبان حکام کو نشانہ بناتی ہے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ داعش بچوں کو خودکش حملوں کے لیے تیار کر رہی ہے۔
شمالی افغانستان اور پاکستان سے متصل علاقوں میں، داعش مدرسوں میں بچوں کو شدت پسند نظریات سکھا کر خودکش مشن کے لیے تیار کر رہی ہے، جن کی عمریں تقریباً 14 سال ہیں۔ اگرچہ طالبان کی کارروائیوں سے داعش کو کچھ نقصان پہنچا ہے، لیکن یہ گروہ اب بھی نسبتاً آزادی سے کام کر رہا ہے اور اس کے جنگجوؤں میں وسطی ایشیائی، خواتین اور دیگر قومیتوں کے افراد بھی شامل ہیں۔ القاعدہ کی کمزور موجودگی رپورٹ کے مطابق، القاعدہ کی افغانستان میں موجودگی کافی کم ہو چکی ہے، اس کے وسائل محدود ہو گئے ہیں اور وہ صرف چھ صوبوں غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، ارزگان اور زابل تک محدود ہو گئی ہے۔ رکن ممالک نے اندازہ لگایا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ اس وقت علاقائی ممالک کے لیے کوئی فوری خطرہ نہیں ہے۔ تاہم، القاعدہ کا عالمی نیٹ ورک اب بھی فعال ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیف العادل، جو اس گروہ کا غیر اعلانیہ سربراہ مانا جاتا ہے، اس نے عراق، شام، لیبیا اور یورپ میں خفیہ سیل دوبارہ متحرک کرنے کی ہدایت دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، القاعدہ برصغیر (اے کیو آئی ایس) نے بھی 2025 میں اسامہ محمود کی قیادت میں خود کو منظم کیا ہے اور اس کی خود اعتمادی اور عزائم میں اضافہ ہوا ہے۔