عالمی ادارہ صحت، پاکستان میں غذائی قلت کے شکار 80 ہزار بچوں کو علاج میں مدد دیگا
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اعلان کیا ہے کہ وہ رواں سال پاکستان میں 5 سال سے کم عمر کے انتہائی شدید غذائی قلت کے شکار 80 ہزار بچوں کے علاج میں مدد فراہم کرے گا، جبکہ ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد ماؤں اور آیاؤں کو بچوں کی صحت سے متعلق مشاورت فراہم کی جائے گی۔
یہ اقدامات بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے اشتراک سے کیے جا رہے ہیں۔ ادارے کے تعاون سے 2 سال سے کم عمر کے 43 ہزار بچوں کو ملک بھر میں قائم 169 غذائیت مراکز میں علاج کی سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔ دونوں اداروں نے حالیہ ملاقات میں ان خدمات کو مزید وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد اور پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندہ ڈاکٹر ڈاپنگ لو کی ملاقات اسلام آباد کے گورنمنٹ پولی کلینک میں ہوئی، جہاں انہوں نے مستقبل کے لائحہ عمل پر بات کی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان دوران زچگی خواتین کے انتقال کی شرح سب زیادہ، 30 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار
سینیٹر روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے غذائیت کی فراہمی کے پروگرام کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے عوامی آگاہی کی مہمات چلائی جائیں گی اور بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے مشاورتی نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔
98 فیصد بچوں کا کامیاب علاج، عالمی معیار سے بہترڈبلیو ایچ او کے مطابق، 2022 سے اب تک 46 ہزار بچوں کا کامیاب علاج کیا گیا، جبکہ 64 ہزار ماؤں اور آیاؤں کو تربیت اور مشاورت فراہم کی گئی۔ غذائیت کے مراکز پر 98 فیصد بچوں کا علاج کامیاب رہا، جو عالمی معیار یعنی 75 فیصد سے کہیں بہتر شرح ہے۔
ڈاکٹر ڈا پنگ لو کے مطابق یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں غذائی مداخلتیں مؤثر ثابت ہو رہی ہیں، لیکن ایک بھی زندگی غذائی قلت کی وجہ سے ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ڈبلیو ایچ او، بی آئی ایس پی کے ساتھ شراکت داری کو مزید وسعت دینے کا خواہاں ہے تاکہ ہر متاثرہ بچے تک رسائی حاصل کی جا سکے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے غذائی مسائل مزید گمبھیر ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: گوادر میں حالات کشیدہ، کاروباری مراکز بند ہونے سے غذائی قلت کا سامنا
غذائیت کی کمی: قومی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصانڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان 10 بدترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں 5 سال سے کم عمر نصف سے زائد بچے یا تو بڑھوتری میں رکاوٹ کا شکار ہیں یا کم وزن رکھتے ہیں۔ اس وقت ملک میں اس عمر کے بچوں میں عدم بڑھوتری کی شرح 40 فیصد جبکہ کم وزنی یا کمزوری کی شرح 17.
ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس مسئلے پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو پاکستان کو نہ صرف 2030 کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں مشکلات پیش آئیں گی بلکہ ہر سال 17 ارب ڈالر کا معاشی نقصان بھی ہوگا، جو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 6.4 فیصد بنتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او، یونیسف اور عالمی ادارہ خوراک (WFP) کے ساتھ مل کر بچوں میں غذائی کمی کی بروقت نشاندہی، روک تھام اور علاج پر کام کر رہا ہے، تاکہ مستقبل کی نسل کو محفوظ اور صحتمند بنایا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈبلیو ایچ او کے پاکستان میں غذائی قلت ہزار بچوں
پڑھیں:
پاکستانیوں کی قوت خریداری میں 58 فیصد کمی ہونے کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) 3 سالوں میں 50 ہزار روپے کی موجودہ وقعت صرف 20 ہزار 833 روپے رہ گئی، پاکستانیوں کی قوتِ خریداری میں 58 فیصد کمی ہونے کا انکشاف۔ تفصیلات کے مطابق معروف ماہر معیشت کی جانب سے 3 سالوں میں پاکستانی روپے کی بے قدری اور پاکستانیوں کی قوت خرید میں تشویش ناک حد تک کمی ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ماہر معیشت ثاقب شیرانی کی جانب سے تحریر کیے گئے کالم میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2022 سے اب تک پاکستانیوں کی قوتِ خریداری میں 58 فیصد کمی آئی، مارچ 2022 میں کمائے گئے 50 ہزار روپے کی موجودہ وقعت صرف 20 ہزار 833 روپے رہ گئی ہے۔اس حوالے سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کی جانب سے بھی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس رجیم نے پاکستان کی معیشت کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ 12 کروڑ لوگ یعنی تقریباً 45 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے، بے روزگاری کی شرح 22 فیصد سے زیادہ ہے۔ تقریبا دو کروڑ لوگ بے روزگار ہیں، قوت خرید 58 فیصد کم ہوئی ہے، جو شخص تحریک انصاف کے دور حکومت میں ایک لاکھ کما رہا تھا اس کی آج کی ویلیو 45 ہزار بن رہی ہے۔