Express News:
2025-08-02@09:17:16 GMT

کلامِ اقبال: ماضی، حال اور مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

اقبال، شاعرِامروز و فردا بھی ہیں اور نقوشِ حیات میں تغیر و تبدل کے لیے ماضی سے رجوع کے قائل بھی___کلامِ اقبال میں مثبت ماضی پسندی کا اظہار ملتا ہے اور اقبال ماضی کو استقبال کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ ایک انقلابی شاعر ہونے کے ناتے وہ عملی زندگی میں فرد کے کردار کی اہمیت سے آگاہ تھے۔ چناں چہ اس کے جذبات و احساسات کی دنیا کے ہنگامے ان کی نظر سے پنہاں نہ تھے۔

یہ حقیقت ہے کہ عہدِ اقبال میں اردو شاعری نے جن مضامین کو تخصیصی طور پر اپنایا، ان میں فرد بطور موضوع نہایت اہم ٹھہرا۔ بالخصوص زمانی تثلیث کو مدنظر رکھتے ہوئے اس موضوع پر متنوع اسالیب میں اظہارِ خیال کیا گیا۔ اقبال نے بھی اپنے انقلابی رنگ و آہنگ کی ترسیل کے لیے مرکزی موضوع کے طور پر فرد ہی کا انتخاب کیا اور سلسلۂ روز و شب کی فلسفیانہ تعبیرات کرتے ہوئے منفرد نکات پیش کیے۔اقبال، تعیینِ ذات ، تلقین عمل اور تحریکِ حیات کے پیام بر ہیں۔ وہ نہ صرف لمحہ موجود کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور جا ری زمانے میں ہر آن تحرک و حرارت کے داعی ہیں بل کہ دوش کے آئینے میں فردا کے نقوش دیکھتے ہیں، اقبال کے الفاظ میں:

سامنے رکھتا ہوں اُس دورِ نشاط افزا کو مَیں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میَں
_____
یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اِکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے

ماضی سے رجوع کے سلسلے میں اقبال کے ہاں اوّلین صورت یہ ہے کہ انھوں نے قرآن میں مذکور اشخاص و واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حال کے ماضی سے اتصال کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص انبیائے کرام کی زندگی کی روشن جھلکیاں دکھا کر عہدِ حاضر کے مسائل سے نبردآزما ہونے اور اس کے نتیجے میں مستقبل کو تابناکی سے ہمکنار کرنے کی آرزوئیں کلام اقبال میں جا بجا ملتی ہیں۔ معجزاتِ انبیا سر تا سر خیر کے علائم ہیںجو فرعون، سامری، قارون اور نمرود جیسی شر کی قوتوں سے برسرِ پیکار ہیں۔

اقبال انھیں تاریخی کرداروں سے عہدِ موجود میں حق و باطل کی آویزش میں رہ نمائی لینے پر اُکساتے ہیں۔ یہاں ماضی سے مربوط یہ اشخاص اور قصّے محض تاریخی بیانات نہیں بل کہ زمانۂ حال کی اصلاح و فلاح کے لیے رمزی معنویت رکھتے ہیں۔ اسی ذیل میں قرآنی آیات، سورتوں کے اسمائے مبارکہ یا قرآنی تصورات پر مبنی تمام تر لفظیاتی سرمایہ یوں نمود کرتا ہے کہ ہر دور میں اس سے فیض یابی کی صورت ابھرتی ہے۔ کیا اقبال کے ایسے اشعار عہدِ موجود میں ہماری رہ نمائی نہیں کرتے جب وہ بلند بانگ لہجے میں گویا ہوتے ہیں:
نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں
وہ شبانی کہ ہے تمہیدِ کلیم اللّٰہی!
_____
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی، میَں شعلۂ سینائی!
_____
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا
_____
صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا اِلٰہ میں ہے
_____
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات و منات
_____
مشکلیں اُمّتِ مرحوم کی آساں کر دے
مُورِ بے مایہ کو ہمدوشِ ثرّیا کر دے
کلامِ اقبال میں ماضی سے رجوع کی ایک صورت تاریخ مسلم و غیر مسلم کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے علامتی و رمزی اسلوب میں اصلاحِ احوال سے عبارت ہے۔ اس سلسلے میں علامہ کا انتخاب دیدنی ہے۔ وہ صرف ایسی ہستیوں کا ذکر کرتے ہیں جن کے ہاں حرکی و عملی نظریات ملتے ہیں اور جن کی حیات حرارتِ زیست سے مملو رہی۔ جو مخالف قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے اور خودی و خودشناسی کا سبق دے کر تاریخ میں امر ہو گئے۔ اقبال کا تاریخ مسلم سے وابستہ تمام تر شعری سرمایہ اسلام کی اکملیت و حقانیت کا عکاس ہے اور عہدِ حاضر کے دینی و اخلاقی، سیاسی و سماجی اور اقتصادی و معاشی مسائل کی گرہ کشائی میں معاون ٹھہرتا ہے۔ اقبال اس تناظرمیں ملتِ اسلامیہ کے روشن مستقبل کی صورت گری یوں کر دیتے ہیں:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
_____
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیّری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
_____
قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دِجلہ و فرات
_____
کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات
اقبال کا کلیدی موضوع چوں کہ اثبات خودی ہے لہٰذا تاریخِ غیر مسلم میں بھی وہ جہاں کہیں حرکی و عملی پہلو دیکھتے ہیں، انھیں کمال خوبی سے شعری قالب عطا کر دیتے ہیں۔ ایرانی و رومی اکا سرہ و قیاصرہ کی قوت و شوکت ہو یا چینی و ترکستانی خطوں سے متعلق فغفور و خاقان کی جاہ و حشمت اقبال انھیں اس طرح اپنے نقطۂ نظر کے تابع کر لیتے ہیں کہ یہ تاریخی حوالے استعماریت و ملوکیت کی رمزوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ اقبال عہدِ حاضرکے فرد کو ان کے خلاف کھڑے ہونے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہتے ہیں:
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
_____
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
نَے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں
_____
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
یہی نہیں اقبالِ باکمال کا قلم ماضی کی نقش گری کرتے ہوئے نیم تاریخی ادبی روایات میں بھی نئے رنگ بھر دیتا ہے، جو سر تا سر اخلاص اور عمل سے عبارت ہیں۔ مثلاً عہدِ حاضر کی تہذیب و اصلاح کے لیے ان شعری روایات میں تازگی پیدا کرتے ہوئے کہتے ہیں:
گرچہ اسکندر رہا محرومِ آبِ زندگی
فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ نائو نوش
_____
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو تو پھر کیا
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
_____
ترا اے قیس کیونکر ہو گیا سوزِ دروں ٹھنڈا
کہ لیلیٰ میں تو ہیں اب تک وہی انداز لیلائی!
یاد رہے کہ اصلاحِ احوال کی خاطر اقبال محض ماضی بعید کے قصّے نہیں سناتے بل کہ عصری تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ چناں چہ اس ضمن میں وہ ایسے منفرد شعر کہہ گئے ہیں جو آج بھی مسلم دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جیسے:
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
_____
ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
_____
طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرئہ ارض کی تقدیر بدل جائے
_____
سُنا ہے میں نے سخن رس ہے ترکِ عثمانی
سنائے کون اسے اقبال کا یہ شعرِ غریب
سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا
ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب

آج کل چند ’’اقبال شناسوں‘‘ کی طرف سے ’پورا اقبال‘ پڑھنے اور پڑھانے کی طرف تواتر سے توجہ دلائی جا رہی ہے اور موقف یہ اختیار کیا جاتاہے کہ آخر اقبال کو محض ’کاخِ امرا کے درودیوار ہٹا دو‘ یا ’’جھپٹنا، پلٹنا،پلٹ کر جھپٹنا‘‘ کا پیغام بر شاعر ہی کیوں سمجھا جاتا ہے۔ اس کے کلام میں بہت سے ایسے عناصر ہیں جو پیغام امن اور محبت سے منسلک ہیں ۔گزارش یہ ہے کہ اقبال ہنگامی حالات کا شاعر ہے ایسے میں جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہوا کرتی ہے۔

ملت اسلامیہ کے لیے یہ گھڑی محشر کی ہے اور ہم عرصۂ محشر میں ہیں۔ یہی وہ پیغام ہے جو علامہ 1908ء سے 1938ء تک تواتر اور تسلسل سے دیتے رہے۔ یہ حرکت، عمل اور انقلاب کا پیغام ہے۔ جب گردوپیش میں علی الاعلان ناانصافی، عدم مساوات، ظلم و تشدد، حق تلفی اور بدعنوانی کا راج ہو اور میرٹ کا قتلِ عام ہونے لگے تو ایسے حالات میں بلند آہنگی کمزوری کہلاتی ہے۔ یہی دورِ حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ ہے، یہی ضربِ کلیمی ہے اور یہی اقبال کا وہ انقلابی آہنگ ہے جو ادبیاتِ شرق و غرب میں اس کی پہچان ٹھہرا۔ بالخصوص مسلم دنیا نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور مصر، ایران، ترکی، انڈونیشیا، تیونس اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں اقبال دوستی اور اقبال فہمی کی مستحکم روایات قائم ہوئیں۔

اربابِ علم کی نگاہوں سے ڈاکٹر عبدالوہاب عزام، ڈاکٹر طہٰ حسین، محمد عاکف، ڈاکٹر علی نہاد تارلان، سید محیط طباطبائی، علی خامنہ ای، ڈاکٹر غلام حسین یوسفی، ڈاکٹر حسین خطیبی، ڈاکٹر علی شریعتی، ڈاکٹر بہادر جوہان اور ڈاکٹر احمد خالد جیسے ادبا و شعرا اور مترجمین کی کاوشیں پنہاں نہیں ہیں۔ یہ سبھی ’اقبال پسند‘ اس شاعرِ انقلاب کے اخلاص، درد مندی اور دل سوزی سے متاثر ہوئے اور بخوبی ادراک رکھتے تھے کہ اقبال ہی ایک ایسا شاعر ہے جو ملتِ اسلامیہ کے ماضی، حال اور استقبال پر ایسی گہری نظر رکھتا ہے کہ ہر دورِ ابتر میں اس کے کلام سے رہ نمائی لی جا سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نظر رکھتے اقبال میں اقبال کا ہیں اور ہے اور

پڑھیں:

صلیبی جنگوںکا تسلسل

آواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی

غزہ میں تو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ظلم ہورہاہے جہاں یہودی خوراک کو جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کررہے ہیں یہ وہ خطہ ہے، جہاں فضائی حملوںمیں شہری آبادیوںکو نشانہ بناکر ایک لاکھ بچوںکو بے دردی سے شہید کردیا گیا زخمیوںکوجب علاج کے لئے ہسپتالو ں میں لایا گیا تو وہاں بھی بمباری کرکے ان کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دئیے گئے اور خوراک کے منتظر بھوک پیاس سے بلکتے بچوں، بے بس ناتواںبوڑھوں اور پھٹے پرانے کپڑوںمیں ملبوس خواتین پر گولیاں برسا کر قتل کردیا گیا۔ بلاشبہ یہ قتل ِ عام اس صدی کی سب سے بڑی نسل کشی تھی جب ایک پوری قوم کے لاکھوں بے گھر افراد بھوک سے بِلک رہے ہوں تو سمجھ لیا جائے یہ کیسی آسمانی آزمائش ہے یاپھر امریکہ نے کیمیائی ہتھیار برآمد کرنے کی آڑ میںعراق کو کھنڈر بناڈالا، لاکھوں افرادکو بے گھر کرڈالا، معیشت کا ستیا ناس کردیا عراق کو تباہ و برباد کرنے کی وجہ اس کی ایٹمی صلاحیت کا خاتمہ تھا۔ عالمی طاقتیں اپنے مقصدمیں کامیاب ہوگئیں یہی حشر لیبیا کا ہوا۔ صدر کرنل معمرقدافی، صدر صدام حسین کو عبرت کا نشان بنادیا ۔مقبوضہ کشمیر ہویا افغانستان یہ سب کے سب مسلم ممالک ہیں یہاںپر ہونے والی عالمی طاقتوںکی مداخلت، مسلمانوں پر ظلم وبربریت کی خوفناک داستانیں کیا یہ ان کا مقدرتھا؟ کیا یہ سب آسمانی فیصلے ہیں یاپھر غیرت اور ایمان کا امتحان ہے ؟ یہ سوال ذہنوںمیں کلبلاتے ہیں تو احساس ہوتاہے، دل کا فوری ردِ عمل ظاہرکرتاہے یہ فضول کی باتیں چھوڑو ،مسلمانوں پر ظلم وبربریت اسلام دشمن طاقتوں کے پیدا کردہ ظالمانہ فیصلوں کا نتیجہ ہے! یقینا یہ حق و باطل کی لڑائی ہے ،اسے صلیبی جنگوںکا تسلسل بھی کہاجاسکتاہے ۔جولوگ یہ کہتے ہیں یہ سب آزمائش ہے ۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ نہتے فلسطینیوں کو محصور کر کے بھوکا پیاسا مار ڈالناکہاںکی انسانیت ہے اورہم مسلمان ہونے کے دعوے دار منافقوں اور بے غیرتوں کی طرح خاموش تماشائی بنے ،تماشا دیکھ رہے ہیں۔جیسے ہمارے کرتوت ہے ،یہ بات طے ہے کہ کوئی غیبی مدد نہیں آئے گی ۔کیونکہ یہ تو صرف ایمان والوںکو حقیقت دکھانے کا موقع ہے کہ وہ اپنے اندر موجود منافقین اور منکرین حق کی پہچان کرسکیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے مذہبی رہنمائوںکی اکثریت اسلام کے علمبردار علماء مشائخ اور مبلغین اسلام کہلانے والے لوگ بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ویسے ساری دنیا میں دین اسلام کی تعلیمات کا تقریروں اور تحریروں میں پرچار کرتے پھرتے ہیں ۔ہم بظاہر تو مسلمان کہلاتے ہیں لیکن حقیقت میں دنیا پرستی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ صرف مسلمان ہونے کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں لیکن کیا یہ منافقت نہیں ہے کہ مظلوموںکے حق میں آواز بلندکرنے سے بھی ڈرتے ہیں اگر اب بھی مسلمان نہیں سمجھے تو کب سمجھیں گے۔ یہ سوچ سوچ کر عام مسلمان اپنے حکمرانوںسے مایوس ہوتے جارہے ہیں ۔اللہ نے جن کو اختیاردیا ہے وہ عقل و شعور اور بصیرت سے حالات کا جائزہ لیں ،نئی حکمت ِ عملی ترتیب دیں اور دور ِ حاضرکے چیلنجزکا مقابلہ کرنے کے لئے تمام تروسائل بروئے کار لائیں۔ ان کے لئے
بہترین وقت ہے کہ وہ امت مسلمہ کو متحدکریں۔ہر مصلحت ہر حکمت اللہ جانتاہے جو نیتوںکوبھی بھانپ لیتاہے ۔مسلمان حکمرانوںکی ہر ہر حرکت کو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔ یاد رکھنا جو ظالموں کا دست بازو بنے ہوئے ہیں ،ان کے آلہ ٔ کار ہیں ، ایک دن وہ سورج ضرور طلوع ہوگا جب ان کا حشرنشرہوجائے گا ۔ ویسے یہ عجیب نہیں لگتا کہ جو بڑے بڑے مبلغ دین اسلام کی تعلیمات دیتے ہوئے پندو نصیحت کے انبارلگادیتے تھے وہ بھاری بھرکم واعظ اور تقریروں اور تحریروں سے ماحول گرما دینے والے وہ سب کے سب اس آزمائش کے وقت خاموش تماشائی بن جاتے ہیں جیسے ان کے منہ میں زباں ہی نہیں ہے یعنی جہاد فی سبیل اللہ کے داعی سب گونگے ہو گئے ہیں ۔
عام مسلمان تو بے بس، لاچار اور بے اختیار ہیں، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کا سرمایہ ٔ حیات ہے۔ وہ دعاگو ہیں کہ اے ہمارے پیارے اللہ پاک میرے پیارے فلسطینی بھائی اور بچوں اور ماؤں اور بہنوں کی غیبی مددفرما اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو نیست و نابود فرما (آمین) ۔ سوشل میڈیا پر ایک فلسطینی بہن کو دیکھا خوراک کی کمی، حالات کے زیرو زبر سے ہڈیوںکا ڈھانچہ بنی ہوتی تھی ،اس کا کہنا تھا میرا پیٹ خالی ہے، میں تھوڑا سا چلتی ہوں تو مجھے چکر آنے لگتے ہیں، اس بے گھرفلسطینی خاتون کی فریاد نے پوری دنیا کے سوشل میڈیا صارفین کو ہلا کر رکھ دیا۔یہ وہ امت تھی جس کا شعار یہ تھا کہ ”پہاڑوں کی چوٹیوں پر گندم چھڑک دو تاکہ مسلمانوں کی سرزمین میں پرندہ بھوکا نہ ر ہے”۔ آج اسی امت کا ایک حصہ بھوک سے مر رہا ہے یااللہ ہم بے بس ہیں ،ہم فلسطین کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ غزہ کی حالت دیکھ کے دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن میرے مالک آپ تو قادر ہیں قدرت رکھتے ہیں مظلوموںکی مدد فرما ۔ یاباری تعالیٰ مسلم حکمرانوںکو بھی ا س بات کا ادراک فرما کہ دنیا بھر میں مسلمانوںکے ساتھ جو ظلم ہورہاہے قتل و غارت سے معیشت کی تباہی تک جو کچھ ہورہاہے ،یہ صلیبی جنگوںکا تسلسل ہے لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہتے ان حال مست ،مال مست حکمرانوںکو فہم و شعور اور آگہی عطا فرما تاکہ قوم ِ رسول ِ ہاشمیۖ کا ہر لحاظ سے تحفظ ہو سکے۔
غزہ میں تو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ظلم دیکھ کردل سے ہوک اٹھتی ہے۔ مسلم حکمران خواب غفلت سے کب جاگیں گے؟اسرائیل نے سارے عرب و عجم اور اسلامی ملکوں کے ایمان اور غیرت سے لیکر امریکہ، یورپ، اقوام متحدہ اور مہذب دنیا کے سارے قوانین، انسانی حقوق، تہذیب، اخلاقیات، انسانیت سب کے سب غزہ کے ملبوں تلے دبا دئیے ہیں۔ آج فلسطین کی مٹی خون سے لال ہے، بچوں کی چیخیں فضا میں گونج رہی ہیں، اور ہمارے دلوں میں بس ایک ہی سوال اٹھتا ہے کہ ہم کب جاگیں گے؟ کیا 56 اسلامی ممالک کی دفاعی صلاحیت اور ٹیکنالوجی کو محض میں کھلونے سمجھ چکا ہوں۔ اس ٹیکنا لوجی کا کوئی فائدہ ہی نہیں جب یہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے کام نہ آئے۔یہ تمام ٹرک سیکڑوں ٹن امدادی سامان سے لدے ہوئے رفع باڈر کے پاس کھڑے ہیں لیکن اسے سرزمین انبیاء میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ اے خدا اب صرف تم ہی آخری آسر ا ہو یا اللہ تیرے خزانے میں کوئی کمی نہیں تو ہر چیز پر قادر ہے میرے رحمن رب اپنے پیارے حبیب کے صدقے غزہ کے مظلوموں کے صدقے دنیا بھر کے بے بس مسلمانوں کی غیبی مدد فرما ۔آمین یارب العالمین

متعلقہ مضامین

  • صلیبی جنگوںکا تسلسل
  • سینئر وکیل شمس الاسلام کے قاتل نے اقبال جرم کرلیا
  • قاتل مسیحائوں کی قتل گاہ
  • مستقبل کے معماروں کو سلام: ہیروزِ پاکستان کو قوم کا خراجِ تحسین
  • چین کی معیشت کا مستقبل روشن ہے ، نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن 
  • ڈھائی ہزار سال پرانی ’آئس ممی‘ کا ٹیٹو سنگھار، ماہر آرٹسٹ بھی ایسی تخلیق سے قاصر
  • پاکستانی ڈرامے نیٹ فلکس اور ایمازون پر، احسن اقبال کے بیان پر پاکستانی کیا کہتے ہیں؟
  • ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ لانچ: احسن اقبال کی قوم کو مبارکباد
  • ذوالفقار جونیئر کا سیاسی مستقبل
  • فوجی آپریشن سے امن قائم نہیں ہوگا، فیصلہ ساز قوتیں ماضی سے سبق سیکھیں