نیپرا کا متنازعہ فیصلہ: جماعت اسلامی نے 50 ارب کی منظوری پر سوالات اٹھا دیے
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کراچی کے شہریوں پر ڈالے گئے 50 ارب روپے سے زائد کے اضافی مالی بوجھ کے خلاف نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں باقاعدہ ریویو موشن دائر کردیا ہے، یہ فیصلہ نیپرا کی جانب سے 5 جون 2025 کو جاری کیا گیا تھا جس میں کے الیکٹرک کے متنازعہ رائٹ آف کلیمز کو منظور کیا گیا تھا۔
منعم ظفر خان نے دائر کردہ درخواست میں نیپرا کے فیصلے کو کراچی کے عوام کے ساتھ کھلی زیادتی اور مالی استحصال قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے، کے الیکٹرک کے کلیمز میں بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کے نقصانات شامل کیے گئے تھے لیکن ان کلیمز کی نہ تو آزادانہ تصدیق ہوئی اور نہ ہی کسی قسم کا فرانزک آڈٹ کیا گیا۔
جماعت اسلامی کی جانب سے نیپرا سماعت کے دوران ناظم آباد آئی بی سی سے جاری کردہ 19 جعلی بلوں کے دستاویزی ثبوت پیش کیے گئے جن کی مالیت 71 کروڑ 60 لاکھ روپے سے زائد تھی، لیکن ان ناقابلِ تردید شواہد کے باوجود نیپرا نے نہ صرف ان کو نظر انداز کیا بلکہ اس بوجھ کو باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے دیگر صارفین پر منتقل کر دیا۔
منعم ظفر خان نے کہا کہ اگر صرف ایک آئی بی سی میں جعلی کلیمز کا یہ عالم ہے تو پورے شہر میں کے الیکٹرک کے کلیمز کی صداقت پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے؟
انہوں نے 76 ارب روپے کے مجموعی کلیمز کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کراچی کے شہریوں کے ساتھ معاشی ظلم کے مترادف ہے۔
درخواست میں نیپرا سے درج ذیل اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے،5 جون 2025 کا فیصلہ فوری طور پر معطل کیا جائے،تمام کلیمز پر آزاد فرانزک آڈٹ کروایا جائے، بل ادا کرنے والے صارفین کو اضافی مالی بوجھ سے بچایا جائے،کے الیکٹرک کے خلاف باقاعدہ ریگولیٹری انکوائری کی جائے،تمام اسٹیک ہولڈرز کی موجودگی میں دوبارہ شفاف سماعت کی جائے۔
منعم ظفر خان نے نشاندہی کی کہ نیپرا کا فیصلہ ٹیرف قواعد 1998 کے سیکشن 23 کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت کلیمز کی منظوری صرف تصدیق شدہ، آڈٹ شدہ اور شفاف ڈیٹا کی بنیاد پر دی جا سکتی ہے، مگر یہاں محض کے الیکٹرک کے یکطرفہ دعووں کو بنیاد بنا کر فیصلہ جاری کر دیا گیا۔
درخواست میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کراچی چیمبر آف کامرس، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن، اوورسیز انویسٹرز چیمبر سمیت درجنوں تجارتی و صنعتی اداروں، سول سوسائٹی اور جماعت اسلامی کی جانب سے دیے گئے تحریری اعتراضات، دلائل اور شواہد کو مکمل طور پر نظرانداز کر کے فیصلہ عجلت میں عید تعطیلات سے ایک روز قبل جاری کیا گیا تاکہ عوامی ردعمل سے بچا جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے الیکٹرک کے جماعت اسلامی کیا گیا
پڑھیں:
کراچی، وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ ہوگیا
کراچی:وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ ہوگیا ہے اجلاس کل 17 ستمبر کو ہونا ہے۔
اطلاع یے کہ اجلاس کے انعقاد سے اختلاف کرتے ہوئے وفاقی وزارت تعلیم نے ایوان صدر چانسلر سیکریٹریٹ سے گزارش کی ہے کہ انتظامی نظم و نسق کے معاملے پر یونیورسٹی کے خلاف جاری تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ مرتب ہونے تک یہ اجلاس موخر کردیا جائے۔
بتایا جارہا ہے کہ اس حوالے سے ایک خط وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے ایوان صدر کو تحریر کیا گیا ہے جس میں اس بات کی اطلاع دی گئی یے کہ گورننس اور ایڈمنسٹریٹوو معاملات کی شکایات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی ایچ ای سی میں بنائی گئی ہے جس کی تحقیقات جاری ہیں
ادھر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وائس چانسلر نے اجلاس کے انعقاد کے لیے قائم مقام ایک رکن سینٹ کو خصوصی ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ اراکین سینیٹ سے رابطے کرکے انہیں اجلاس میں شرکت پر آمادہ کریں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل یہ اجلاس کورم پورا نہ ہونے کے سبب 3 ستمبر کو عین انعقاد کے وقت ملتوی ہوگیا تھا۔
واضح رہے کہ موجودہ وائس چانسلر کے ڈیڑھ سالہ دور میں اساتذہ و ملازمین شدید مالی مشکلات کا شکار رہے ہیں تنخواہوں کی ادائیگی میں 2 ماہ کی تاخیر ہو رہی ہے، ہاؤس سیلنگ الاؤنس 12 ماہ سے بند ہے اور کم و بیش 4 ماہ سے پینشن ادا نہیں ہوئی۔
جبکہ ٹریژرار کے دفتری زرائع کا کہنا ہے کہ 2019 کے بعد سے ریٹائرمنٹ کے بقایاجات بھی ادا نہیں کیے گئے اس کے برعکس، وائس چانسلر نے اپنی تنخواہ ایچ ای سی کے طے شدہ پیمانے سے زیادہ مقرر ہے جس کی صدرِ پاکستان سے منظوری نہیں لی گئی۔
وائس چانسلر تحقیقات سے قبل اپنی تنخواہ کی منظوری سینٹ سے حاصل کرنا چاہتے ہیں جس پر قانونی پہلوئوں سے سوالات اٹھ رہے ہیں ۔