کانگو وائرس نے خطرے کی گھنٹی بجا دیطبی ماہرین نے خبردار کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
کراچی (نیوز ڈیسک)عید قرباں کے بعد کراچی میں کانگو وائرس کے کیسز بڑھنے کا خدشہ سامنے آگیا۔ محکمہ صحت سندھ نے کانگو وائرس سے حالیہ دنوں میں دو اموات کی تصدیق کر دی ہے، جس سے شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق 42 سالہ ملیر کا رہائشی شخص 16 جون کو کانگو وائرس کا شکار پایا گیا جس کی رپورٹ مثبت آنے کے اگلے ہی روز یعنی 17 جون کو اس کا انتقال ہوگیا۔ دوسرا کیس ابراہیم حیدری کے 26 سالہ نوجوان کا ہے جو مہلک وائرس کے سبب جان کی بازی ہار گیا۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس جانوروں سے انسان اور انسان سے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ وائرس جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے اور اس کی علامات میں تیز بخار، پلیٹلیٹس میں کمی، جگر کا متاثر ہونا اور جسم سے خون کا اخراج شامل ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق کانگو وائرس کی علامات ڈینگی سے ملتی جلتی ہوتی ہیں۔
کانگو وائرس کی شدت میں اس وقت اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے جب عید قربان کے بعد شہر میں جانوروں کی آلائشیں، گندگی اور صفائی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہی عوامل نہ صرف کانگو بلکہ ڈینگی وائرس کو بھی بڑھاوا دے سکتے ہیں۔
طبی حکام اور ماہرین نے شہریوں کو مویشی منڈیوں، جانوروں کی دیکھ بھال، اور ذبح کے دوران حفاظتی لباس پہننے، دستانے استعمال کرنے اور صفائی کا خاص خیال رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف احتیاطی تدابیر اپنا کر ہی اس مہلک وائرس سے بچاؤ ممکن ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کانگو وائرس
پڑھیں:
کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
کیا آنے والا وقت انسانی کال سینٹر ایجنٹس کے خاتمے کا وقت ہے اور اگر یہ سوال آپ خود آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سے پوچھیں تو شاید وہ گول مول جواب دے۔
یہ بھی پڑھیں: ’اب ہم جیسوں کا کیا بنے گا‘، معروف یوٹیوبر مسٹر بیسٹ اے آئی سے خوفزدہ
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہی سوال ٹیک کمپنی اوپن اے آئی کے ماڈل یا اسسٹنٹ جی پی ٹی سے پوچھیں تو وہ ایک محتاط جواب دے گا کہ انسان اور اے آئی ساتھ ساتھ کام کریں گے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ماہرین اور صنعت کے رہنما اس بارے میں اتنے پر امید نہیں۔
’جلد ہی کال سینٹرز کی ضرورت نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی‘بھارتی ٹیکنالوجی کمپنی ٹاٹا کنسلٹنسی سروسزکے چیف ایگزیکٹو کے کرتھی وسن نے گزشتہ سال فائنینشل ٹائمز سے گفتگو میں کہا تھا کہ مصنوعی ذہانت کے بڑھتے استعمال کے بعد ایشیا میں کال سینٹرز کی ضرورت بہت کم رہ جائے گی۔
اسی طرح، تحقیقاتی ادارہ گارٹنر نے پیش گوئی کی ہے کہ سنہ 2029 تک اے آئی خودکار طور پر 80 فیصد کسٹمر سروس کے عام مسائل حل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
اے آئی ایجنٹس کا بڑھتا رجحانآج کل سب سے زیادہ بات جس اصطلاح پر ہو رہی ہے وہ ہے اے آئی ایجنٹس یعنی وہ خودکار نظام جو انسانوں کی مداخلت کے بغیر فیصلے کر سکتے ہیں اور بات چیت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ موجودہ ’رول بیسڈ چیٹ بوٹس‘ سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوں گے جو صرف پہلے سے طے شدہ سوالات کے جواب دے سکتے ہیں۔
ایک حالیہ مثال کے طور پر برطانوی پارسل کمپنی کے چیٹ بوٹ نے ایک صارف کی شکایت کو حل کرنے کی کوشش کی۔
لیکن جب صارف نے پارسل کی شکایت درج کرائی تو بوٹ نے بتایا کہ پارسل ڈیلیور ہو چکا ہے اور جب ثبوت مانگا گیا تو تصویر کسی اور کے دروازے کی تھی
مزید پڑھیے: لوگ رشتے بنانے اور بگاڑنے کے لیے اے آئی سے مشورے کیوں لے رہے ہیں؟
گفتگو اس مقام پر ختم ہو گئی کیونکہ بوٹ کے پاس اس کے بعد کوئی جواب نہیں تھا۔
کمپنی کے مطابق وہ اپنی سروس کو بہتر بنانے کے لیے 57 ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
جب چیٹ بوٹ نے کمپنی کو ہی برا بھلا کہادلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری پارسل کمپنی ڈی پی ڈی کو اپنا اے آئی چیٹ بوٹ بند کرنا پڑا جب اس نے صارفین سے بدتمیزی کی اور خود اپنی کمپنی پر تنقید شروع کر دی۔
یہ واقعہ اس بات کی مثال ہے کہ اے آئی کو برانڈ کے مطابق رکھنا اور صارف کی مدد کرنا بیک وقت کتنا مشکل کام ہے۔
صرف 20 فیصد AI پراجیکٹس توقعات پر پورےگارٹنر کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق 85 فیصد کسٹمر سروس لیڈرز اے آئی چیٹ بوٹس کو آزما رہے ہیں یا استعمال کر رہے ہیں لیکن ان میں سے صرف 20 فیصد منصوبے توقعات پر پورے اترے ہیں۔
مزید پڑھیں: لاکھوں ملازمتیں مصنوعی ذہانت کے نشانے پر، کون بچ پائے گا؟
گارٹنر کی ماہر ایملی پوٹوسکی کہتی ہیں کہ اے آئی سے بات چیت زیادہ قدرت لگ سکتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ بعض اوقات غلط معلومات دے سکتا ہے یا بالکل بے ربط جواب دیتا ہے۔
ان کے مطابق، پارسل ڈیلیوری جیسے مخصوص معاملات میں رول بیسڈ بوٹس زیادہ موزوں ہیں کیونکہ ان میں سوالات کی اقسام محدود ہوتی ہیں۔
’اے آئی ہمیشہ سستا نہیں ہوتا‘اگرچہ کئی کمپنیاں اے آئی کے ذریعے انسانی عملے کو کم کرنے پر غور کر رہی ہیں، مگر پوٹوسکی کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ اے آئی ہمیشہ سستا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت مہنگی ٹیکنالوجی ہے اور اسے کارآمد بنانے کے لیے بہت بڑا تربیتی ڈیٹا درکار ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ نالج مینجمنٹ یعنی کمپنی کے ڈیٹا کو منظم کرنا اے آئی کے لیے پہلے سے بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔
انسانوں سے سیکھنے والے اے آئیسیلز فورس کے چیف ڈیجیٹل آفیسر جو انزیریلو کے مطابق کال سینٹرز دراصل اے آئی کے لیے بہترین تربیتی میدان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان سینٹرز میں پہلے سے موجود تربیت، دستاویزات اور گاہکوں کے ڈیٹا سے اے آئی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت اور ملازمتوں کا مستقبل: خطرہ، تبدیلی یا موقع؟
ان کی کمپنی کا اے آئی پلیٹ فارم پہلے ہی مختلف اداروں جیسے فارمولا 1، پروڈینشیئل، اوپن ٹیبل اور ریڈٹ وغیرہ میں استعمال ہو رہا ہے۔
ابتدائی تجربات میں کمپنی نے یہ جانا کہ اے آئی کو زیادہ انسانی لہجہ دینا ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب ایک انسان کہتا ہے ’مجھے افسوس ہے آپ کو یہ مسئلہ پیش آیا‘ تو اے آئی صرف ایک ٹکٹ بنا دیتا تھا لیکن اب ہم نے اسے ہمدردی دکھانے کی تربیت دی ہے۔
کیا انسانوں کی جگہ ممکن ہے؟اگرچہ سیلز فورس کے مطابق 94 فیصد صارفین اے آئی ایجنٹس سے مطمئن ہیں لیکن کمپنی کی جانب سے 100 ملین ڈالر کی لاگت میں کمی کے باوجود زیادہ تر ملازمین کو دوسرے شعبوں میں منتقل کیا گیا، برخلاف ان خبروں کے کہ 4 ہزار ملازمین کی نوکریاں ختم ہو گئیں۔
دوسری طرف جو کمپنی کیو اسٹوری چلانے والی فیونا کولمین کہتی ہیں کہ اے آئی انسانوں کو مکمل طور پر بدل نہیں سکتی۔
انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی میں صرف ایک انسان سے بات کرنا چاہتی ہوں خاص طور پر حساس معاملات جیسے قرض یا گھر کے قرض کے بارے میں۔
انسان سے بات کرنے کا حقامریکا میں ایک مجوزہ قانون کے تحت کمپنیاں صارفین کو یہ حق دینے کی پابند ہوں گی کہ اگر وہ چاہیں تو اے آئی کی بجائے انسان سے بات کر سکیں۔
اسی طرح گارٹنر کی پیش گوئی ہے کہ سنہ 2028 تک یورپی یونین بھی اپنے صارفین کو ’انسان سے بات کرنے کا حق‘ قانونی طور پر فراہم کر سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے
الغرض سنہ 2029 تک AI80 فیصد کسٹمر سروس خود بخود انجام دے سکتا ہے۔ کچھ کمپنیاں انسانی ایجنٹس کی جگہ اے آئی چیٹ بوٹس لا رہی ہیں مگر نتائج ملے جلے ہیں۔ اے آئی کے لیے درست تربیت، ڈیٹا اور اخلاقی حدود اب بھی سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ اور کم از کم پیچیدہ مسائل میں صارف شاید اب بھی انسانی رابطہ چاہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی اور کال سینٹرز اے اور انسانی نوکریاں کال سینٹرز