Jasarat News:
2025-11-12@13:28:15 GMT

حکومت سندھ کا عبدالستار ایدھی پر فلم بنانے کا اعلان

اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(اسٹاف رپورٹر)حکومت سندھ نے تصدیق کی ہے کہ وہ فلم سازوں کے ساتھ مل کر معروف مرحوم سماجی رہنما عبد الستار ایدھی کی زندگی پر فلم بنانے پر کام کر رہی ہے۔سندھ کے سینئر صوبائی وزیر اور وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کراچی میں ہونے والے ایک فلم فیسٹیول میں خطاب کے دوران عبد الستار ایدھی کی زندگی پر فلم بنانے کی تصدیق کی۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہ ملکی ہیروز اور مختلف شعبہ جات میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والی شخصیات پر فلمیں بنانا ہماری ذمے داری ہے۔صوبائی وزیر نے کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات سندھ فلم ساز ستیش آنند کے ساتھ مل کر معروف سماجی رہنما عبد الستار ایدھی کی زندگی پر فلم بنا رہا ہے۔تاہم انہوں نے اس ضمن میں مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کی۔واضح رہے کہ عبدالستار ایدھی جولائی 2019ء میں انتقال کر گئے تھے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پر فلم

پڑھیں:

دو مئیر؛ دو کہانیاں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-03-8

 

میر بابر مشتاق

دنیا کے ہر بڑے شہر کی پہچان وہاں کا مئیر ہوتا ہے۔ مئیر دراصل اس شہر کی انتظامی روح، شہری خوابوں کا نگہبان اور عوامی خدمت کا علامتی چہرہ سمجھا جاتا ہے۔ نیویارک، لندن، پیرس، استنبول یا ٹوکیو — ہر شہر کی ترقی کا مرکز اس کا بااختیار بلدیاتی نظام اور عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ لیکن جب بات کراچی کی ہو تو یہاں مئیر کا ذکر ہوتے ہی عوام کے چہروں پر طنز بھری مسکراہٹ آجاتی ہے۔ کیونکہ یہاں مئیر کے پاس خواب تو ہوتے ہیں مگر اختیارات نہیں، وعدے تو ہوتے ہیں مگر وسائل نہیں۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق جو نیویارک اور کراچی جیسے دو بڑے شہروں کے درمیان حائل ہے۔ نیویارک کی آبادی تقریباً 85 لاکھ ہے، مگر وہاں کا مئیر اتنا بااختیار ہے کہ شہر کے ہر بڑے فیصلے میں اس کی رائے حتمی ہوتی ہے۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر رہائش، تعلیم سے لے کر امن و امان تک، ہر دائرے میں میونسپل حکومت کو فیصلہ سازی کا حق حاصل ہے۔ اسی لیے وہاں کے لوگ اپنے مئیر کو ایک leadership icon سمجھتے ہیں۔

مگر کراچی… ساڑھے تین کروڑ کی آبادی رکھنے والا پاکستان کا معاشی دل، وہ شہر جو پورے ملک کو چلاتا ہے، مگر خود اپاہج انتظامی ڈھانچے میں سسک رہا ہے۔ یہاں کا مئیر بااختیار نہیں، کاغذی نمائندہ ہے۔ سندھ کی وڈیرہ حکومت کے سامنے ایک سیاسی تماشا۔ عوام کے لیے مئیر ایک نزاکت ہے، اور حکمرانوں کے لیے ایک کھلونا۔ سندھ کی سیاست دراصل طاقت کے اس کھیل کا نام ہے جہاں اختیارات کی مرکزیت کو ہی اقتدار کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ اندرون سندھ کے وڈیرے، جو صدیوں پرانی جاگیردارانہ سوچ کے امین ہیں، آج بھی عوام کو ’’پانچ ہزار سالہ تاریخ‘‘ کا چورن بیچ کر حال کے دکھ بھلا دیتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو جمہوریت کے نام پر فرعونیت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ وہ خود اقتدار میں آ کر عوام پر خدائی دعویٰ کرتے ہیں، اور جب کوئی شہری نمائندہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے تو اس کا انجام سیاسی تنہائی، مالی مشکلات اور قانونی جکڑ بندیوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

کراچی کے لوگ جب ووٹ دیتے ہیں تو ان کے سامنے خواب ہوتا ہے؛ ایک صاف ستھرا، منظم، اور ترقی یافتہ شہر۔ مگر انتخاب کے بعد وہی خواب تلخ حقیقت بن جاتا ہے۔ کیونکہ سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کو اختیار دینے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے۔ آئینی طور پر بلدیاتی ادارے تیسری سطح کی حکومت سمجھے جاتے ہیں، مگر سندھ میں انہیں چوتھی، پانچویں یا شاید غیر موجود سطح پر دھکیل دیا گیا ہے۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں مئیر شہر کی صفائی کے لیے بھی حکومت ِ سندھ سے اجازت مانگتا ہے، سڑک پر لائٹ لگانے کے لیے نوٹیفکیشن درکار ہوتا ہے، اور پانی کی لائن بچھانے کے لیے کئی محکموں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے سندھ کے حکمرانوں کے نزدیک بلدیاتی ادارے کوئی جمہوری ضرورت نہیں بلکہ سیاسی خطرہ ہیں۔ کیونکہ اگر کراچی کا مئیر بااختیار ہوگیا تو عوام کا اعتماد کسی اور طرف منتقل ہو جائے گا، اور وڈیروں کی قائم کردہ طاقت کی بنیادیں ہل جائیں گی۔

نیویارک کا مئیر زہران ممدانی اس وقت دنیا بھر میں گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔ ایک مسلمان، افریقی نژاد، محنت کش گھرانے سے تعلق رکھنے والا نوجوان، جس نے نیویارک جیسے شہر کی میئر شپ جیت کر تاریخ رقم کی۔ اس نے شہریوں سے کہا کہ ’’مایوس نہ ہو، ہم خواب دیکھیں گے اور انہیں سچ کریں گے‘‘۔ دوسری طرف کراچی ہے، جہاں مئیر حافظ نعیم الرحمن کو عوام کا بے پناہ اعتماد حاصل ہے، مگر سندھ حکومت کے سامنے وہ مسلسل دیوار سے سر ٹکرا رہے ہیں۔ عجیب تضاد ہے! نیویارک کا مئیر اپنے شہریوں کو خواب دیتا ہے، کراچی کا مئیر اختیارات مانگتا ہے۔

دنیا کے مہذب معاشروں میں بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی بنیاد کہا جاتا ہے۔ مگر سندھ میں یہ بنیاد ہی کھوکھلی کر دی گئی ہے۔ یہاں اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کا مطلب ہے۔ ’’وڈیرہ سیاست کے زوال کا آغاز‘‘۔ اس لیے ہر حکومت، چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو یا کوئی اور، بلدیاتی اداروں کو صرف نمائشی حیثیت میں رکھتی ہے۔ کراچی کے مئیر کو اگر صفائی کا اختیار دے دیا جائے تو شاید شہر کا کچرا صاف ہو جائے، مگر تب سندھ حکومت کے کئی محکموں کی ’’آمدنی‘‘ رک جائے گی۔ اگر پانی، سیوریج اور ٹرانسپورٹ کے ادارے شہر کے منتخب نمائندوں کو دے دیے جائیں تو اربوں روپے کے ٹھیکوں پر کنٹرول ختم ہو جائے گا۔ اور یہ بات وڈیرہ ذہنیت کو کسی طور قبول نہیں۔ کراچی کے عوام کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ وہ ایک ایسے سیاسی نظام میں پھنسے ہوئے ہیں جس میں صوبائی حکومت کو تو مکمل اختیار ہے، مگر وفاق یا شہر کے نمائندے بے اختیار ہیں۔ کراچی کی سڑکیں ٹوٹی ہیں، نالے اُبل رہے ہیں، بجلی اور پانی کا بحران مستقل ہے، مگر سندھ حکومت کو صرف ایک چیز کی فکر ہے۔ ’’اختیار کسی اور کو نہ ملے‘‘۔ یہی وہ نظام ہے جس نے کراچی کو مافیا کے حوالے کیا۔ کبھی ڈمپر مافیا، کبھی ٹرانسپورٹ مافیا، کبھی واٹر ٹینکر مافیا؛ سب طاقتور، مگر مئیر بے بس۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ آخر ہمارا ووٹ کس کام کا، جب ہمارا منتخب نمائندہ کچھ کر ہی نہیں سکتا؟ یہ طنز نہیں حقیقت ہے کہ نیویارک کا مئیر 85 لاکھ شہریوں کے لیے پالیسی میکر ہے، جبکہ کراچی کا مئیر ساڑھے تین کروڑ لوگوں کے لیے بس سوشل میڈیا کا کردار بن گیا ہے۔ ایک طرف دنیا کی جدید جمہوریت ہے جہاں مئیر کی آواز ایوانوں تک پہنچتی ہے، دوسری طرف سندھ کی جاگیردارانہ جمہوریت ہے جہاں مئیر کی فائلیں محکموں کی درازوں میں سڑ جاتی ہیں۔

کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے، قومی آمدنی کا 60 فی صد اور ریونیو کا 70 فی صد یہی شہر دیتا ہے۔ لیکن جب بھی ترقیاتی بجٹ بنتا ہے، کراچی کو محض دکھاوے کے منصوبے دیے جاتے ہیں۔ سڑکیں، سیوریج، کچرا، پانی، ٹرانسپورٹ۔ سب مسائل ایک ہی بنیادی نکتے پر جا کر ٹھیرتے ہیں: اختیار کا فقدان۔ اگر نیویارک کے مئیر کے پاس اتھارٹی ہے تو وہ جواب دہ بھی ہے۔ کراچی کے مئیر کے پاس اختیار نہیں، اس لیے جواب دہی بھی بے معنی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ مئیر کون ہے، سوال یہ ہے کہ مئیر کو اختیار کب ملے گا؟ یہ سوال کراچی کے ہر شہری کے ذہن میں ہے، مگر سندھ حکومت کے کانوں میں پڑے روئی کے گالے اس آواز کو دبا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کا نوجوان ہجرت پر سوچتا ہے، سرمایہ دار بیرون ملک منتقل ہوتا ہے، اور عام آدمی اپنے ہی شہر میں اجنبی محسوس کرتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس فرسودہ نظام کو بدلا جائے۔ کراچی کے عوام کا مینڈیٹ صرف نمائندگی نہیں، خدمت کا حق بھی ہے۔ اگر ملک کے معاشی دل کو ہی بے اختیار رکھا گیا تو پاکستان کے جسم میں جان کیسے رہے گی؟ سندھ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ اختیار بانٹنے سے اقتدار کم نہیں ہوتا بلکہ مضبوط ہوتا ہے۔ مگر شاید وہ دن ابھی دور ہے۔ جب کراچی کا مئیر واقعی ’’شہر کا سربراہ‘‘ ہوگا، نہ کہ ’’وڈیروں کی مرضی کا مہرہ‘‘۔ نیویارک کا مئیر خواب دکھا رہا ہے، امید جگا رہا ہے۔ کراچی کا مئیر حقیقت بتا رہا ہے، اختیار مانگ رہا ہے۔ فرق صرف نظام کا نہیں، نیت کا ہے۔

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • کراچی: منوڑہ کے قریب کشتی الٹنے سے 3 افراد جاں بحق
  • دو مئیر؛ دو کہانیاں
  • وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کا وانا کیڈٹ کالج میں دہشتگرد حملہ ناکام بنانے پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
  • 3 لاپتا افراد کیس: سندھ حکومت، ڈی جی رینجرز سے جواب طلب
  • عوامی نیشنل پارٹی کا صوبائی حکومت کے امن جرگے میں شرکت کا اعلان
  • ای چالان کیخلاف کیس پرفریقین کونوٹس جاری کردیے گئے
  • محمد آصف عالمی اسنوکر چیمپئن شپ کے ناک آؤٹ مرحلے میں جگہ بنانے میں کامیاب
  • سندھ حکومت نے نیا سندھ واٹرلا متعارف کرانے کی تیاریاں شروع کردی
  • سابق صوبائی وزیر سردارخان محمد ڈاہری سے اظہار تعزیت
  • اجتماع عام استحصالی نظام سے بغاوت کا اعلان ہے، کاشف سعید