علمی اداروں کا ’خاتمہ‘: کفایت شعاری یا قومی شناخت پر حملہ؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جون 2025ء) سینیٹر عرفان صدیقی کی حالیہ پارلیمانی تقریر نے ایک اہم بحث کو جنم دیا ہے۔ کیا چند کروڑ روپے بچانے کے لیے علمی و ادبی اداروں کو بند کرنا کفایت شعاری ہے یا علم دشمنی؟ سوال یہ ہے کہ حکومت دیگر اخراجات کم کرنے کے بجائے ان اداروں کو کیوں نشانہ بنا رہی ہے؟
حکومتی سفارشات اور تنازعوفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی نے حال ہی میں پاکستان اکادمی ادبیات، اردو سائنس بورڈ، اردو لغت بورڈ اور اقبال اکادمی کو ادارہ برائے فروغ قومی زبان میں ضم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ اس نئے ادارے کو کسی یونیورسٹی کے اردو شعبے کے ماتحت کیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ان اداروں کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔(جاری ہے)
13 جون 2025 کو سینیٹ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما عرفان صدیقی نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی۔ انہوں نے کہا: ”کیا ہم دنیا کے سامنے دہشت گردی، غربت اور مہنگائی کا امیج پیش کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ادارے ہماری قومی شناخت ہیں۔
ان کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ کیا ہماری پہچان صرف دہشت گردی تک محدود رہنی چاہیے؟" بیوروکریسی کی دیرینہ خواہش؟جن اداروں کو بند یا ضم کرنے کی بات کی جا رہی ہے، ان میں اردو سائنس بورڈ بھی شامل ہے، جو 1962 میں قائم ہوا تھا۔ اس ادارے کا مقصد سائنسی علوم کو سادہ اردو میں منتقل کرنا اور سائنس کی نصابی کتب کے لیے رہنمائی فراہم کرنا ہے۔
اردو سائنس بورڈ کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور معروف نقاد ناصر عباس نیر نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ”بیوروکریسی پندرہ بیس سال سے ان اداروں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ چند سال قبل عشرت حسین، جو اس وقت مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات تھے، نے مجھ سے کہا کہ اردو سائنس بورڈ سے کون سا سائنسی انقلاب آیا ہے؟ اسے بند کر دینا چاہیے۔
میں نے انہیں بتایا کہ تعلیمی نظام اور پالیسی کے مسائل کی ذمہ داری اداروں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ پالیسی تو آپ لوگ بناتے ہیں۔"انہوں نے مزید کہا کہ بیوروکریسی اکثر ان اداروں کو مالی نفع و نقصان کے ترازو میں تولتی ہے، حالانکہ علم اور تجارت دو الگ چیزیں ہیں۔ ناصر عباس نیر کے مطابق: ”کچھ اداروں کی اہمیت روپے پیسے سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔
" وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کروڑوں روپے کی پراپرٹی پر نظریں رکھنے والے گروہ ان اداروں کو آسانی سے ختم نہیں ہونے دیں گے۔اردو اور معاشرہ - ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر
سماجی دانشور اور مصنف ڈاکٹر صلاح الدین درویش نے ڈی ڈبلیو اردو سے کہا: ''ان پانچ اداروں کا سالانہ بجٹ تقریباً 50 سے 60 کروڑ روپے ہے۔ یہ کوئی بڑی رقم نہیں۔ بیوروکریسی اور اشرافیہ اس سے زیادہ تو اپنی چائے اور بسکٹ پر خرچ کر دیتی ہے۔
اداروں میں اصلاحات کی جا سکتی ہیں، لیکن انہیں ختم کرنا احمقانہ فیصلہ ہو گا۔" یونیورسٹیوں میں ضم کرنے کا تنازعرائٹ سائزنگ کمیٹی کی تجویز میں یہ بھی شامل ہے کہ ان اداروں کو ایک ادارے میں ضم کر کے کسی یونیورسٹی کے حوالے کر دیا جائے۔ تاہم ماہرین اسے غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہیں۔
پاکستان اکادمی ادبیات کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف، جو یونیورسٹیوں میں تدریس کے تجربے کی رہنما ہیں، کہتی ہیں: ''یونیورسٹی کا دائرہ کار قومی یا بین الاقوامی اداروں جیسا نہیں ہوتا۔
اکادمی ادبیات پاکستان کا واحد وفاقی ادارہ ہے، جسے بین الاقوامی ادبی اداروں کے ساتھ معاہدوں کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ ہم نے چھ سات ممالک کے ساتھ معاہدے کیے ہیں اور مزید کئی سے بات چیت جاری ہے تاکہ پاکستانی ادب کو عالمی سطح پر متعارف کرایا جا سکے۔ یونیورسٹی میں ضم کرنے سے اس ادارے کی حیثیت اور سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی۔"ناصر عباس نیر کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں میں ضم کرنے کا مطلب ان اداروں کو مرحلہ وار ختم کرنا ہے۔
ان کے بقول، ”یونیورسٹیاں پہلے ہی مالی بحران کا شکار ہیں۔ وہ ان اداروں کو نہیں چلا سکیں گی اور اس طرح انہیں ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا راستہ صاف ہو جائے گا۔" خاتمہ نہیں، اصلاحات کی ضرورتڈاکٹر صلاح الدین درویش کہتے ہیں کہ ان اداروں میں اصلاحات کی ضرورت ہے، لیکن انہیں ختم کرنا کوئی حل نہیں۔ ان کے مطابق: ”ان اداروں کو حقیقی ادبی اور جمہوری بنانے کے لیے اہل قلم کی رکنیت پر مبنی نظام قائم کیا جائے اور چیئرمین کا انتخاب ووٹنگ سے ہو۔
بجٹ بڑھا کر انہیں خود مختار کیا جائے۔ لیکن چونکہ اصلاحات میں محنت درکار ہوتی ہے، بیوروکریسی آسان راستہ اختیار کرتے ہوئے انہیں بند کرنا چاہتی ہے۔" ناقابل تلافی نقصان کا خدشہکیا ان اداروں کے خاتمے سے علمی و ادبی نقصان ہو گا؟ ڈاکٹر نجیبہ عارف اس کا جواب اثبات میں دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”اکادمی ادبیات واحد وفاقی ادارہ ہے، جو تمام صوبوں اور علاقوں کی زبانوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔
یہ پاکستان کی تقریباً تمام زبانوں میں شائع ہونے والی کتابوں کو ایوارڈ دیتا ہے اور قومی سطح پر متعارف کرواتا ہے۔ یہ پورے ملک کی ادبی سرگرمیوں کو دستاویزی شکل دیتا ہے۔ اس کے خاتمے سے نہ صرف ادبی و ثقافتی نقصان ہوگا، بلکہ قومی یک جہتی کو بھی دھچکا لگے گا۔ کیا ہم مختلف علاقوں کے تخلیقی اور علمی رویوں سے آگاہ ہو سکیں گے؟"ادارت: امتیاز احمد
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اکادمی ادبیات ان اداروں کو کے لیے
پڑھیں:
اسرائیلی برتری کا خاتمہ، مغرب کا چہیتا ملک زوال کا شکار
اسرائیل پچھلے تقریباً 2 برس سے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مسلسل جنگ میں ہے۔ حالیہ جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے سے ہوا، جس کے جواب میں اسرائیل نے ایک بھرپور فوجی مہم شروع کی۔
یہ مہم رفتہ رفتہ پورے خطے تک پھیل گئی اور اب ایران جیسے محتاط ملک کو بھی اس جنگ میں گھسیٹ لیا گیا ہے، حالانکہ ایران طویل عرصے سے براہِ راست تصادم سے گریز کرتا رہا تھا۔
امریکا کی پشت پناہی سے یہ تصادم اب کہیں زیادہ خطرناک رخ اختیار کر چکا ہے۔ ایران ایک کٹھن دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں ہر راستہ نقصان دہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل ایران تصادم: نیتن یاہو کی ڈوبتی سیاست کو کنارہ مل گیا
تاہم یہ تحریر ایران پر نہیں بلکہ اسرائیل سے متعلق ہے۔ وہ ملک جو دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں مغربی طاقتوں کا مضبوط مورچہ رہا ہے۔ 20ویں صدی کے وسط سے اسرائیل کو ایک خاص مقام حاصل رہا ہے، ایک ایسے خطے میں مغرب کی طاقت کا نمائندہ جو خود سیاسی تنازعات کا شکار ہے۔
اسرائیل کی کامیابی 2 ستونوں پر کھڑی تھی، ایک امریکا کی غیر متزلزل حمایت، اور دوسری خود اسرائیل کی اپنی اندرونی صلاحیت، فوجی طاقت، ٹیکنالوجی، اور ایک منفرد معاشرتی ماڈل۔
مگر دوسرا ستون اب کمزور ہو چکا ہے۔ اس کی سب سے واضح علامت ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ 2024 میں تقریباً 82,700 افراد اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔ اور یہ وہ افراد نہیں جو کم تعلیم یافتہ یا غیر متحرک ہوں، بلکہ نوجوان اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں، وہی لوگ جو کسی جدید ریاست کی بنیاد ہوتے ہیں۔
اگرچہ اسرائیل کی مشکلات منفرد نہیں، لیکن دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح وہ بھی ایک بوسیدہ معاشی نظام کی بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ کورونا وبا نے اس نظام کی کمزوریاں مزید بے نقاب کیں اور اسرائیل کو ایسی حکمرانی کی طرف دھکیل دیا جس میں ہنگامی حالات اور مسلسل جنگی تیاری معمول بن چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل مخالف گروپ کا صیہونی انفراسٹرکچر پر سائبر حملوں کا اعلان
مغرب میں عمومی طور پر جنگ اور جغرافیائی کشیدگی کو اصلاحات سے بچنے کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ اسرائیل اس نئی منطق کا عملی نمونہ بن چکا ہے۔
مستقل جنگ بطور طرزِ حکمرانی۔ 2023 کے موسمِ خزاں میں اسرائیلی قیادت نے جنگ کو صرف ایک حکمت عملی نہیں بلکہ قومی یکجہتی اور سیاسی بقا کا ذریعہ بنا لیا۔ اب امن ان کا مقصد نہیں، بلکہ جنگ ان کا راستہ ہے۔ یہ وہی رجحان ہے جو روس اور چین کے خلاف مغربی پراکسی جنگوں میں بھی نظر آتا ہے۔
عالمی سطح پر ایٹمی طاقت جنگ کی حد مقرر کرتی ہے، مگر مشرق وسطیٰ میں، جہاں اسرائیل براہِ راست لڑ رہا ہے، وہ رکاوٹیں نہیں ہوتیں۔ اس لیے جنگ ایک سیاسی دباؤ کو نکالنے والا ذریعہ بن گئی ہے۔ وقتی فائدے کی چیز، خواہ وہ تباہ کن ہی کیوں نہ ہو۔
مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ جنگ معیشت کی زبوں حالی یا سماجی بے چینی کو ہمیشہ نہیں چھپا سکتی۔ اگرچہ جنگ اکثر نااہل قیادت کو بھی اقتدار میں رکھتی ہے، لیکن ساتھ ہی ریاست کی طاقت کو بھی کھوکھلا کرتی ہے۔
اسرائیل اب اپنے وسائل کا بڑا حصہ جنگی حالات کو برقرار رکھنے میں جھونک رہا ہے۔ اس کی معاشرتی یکجہتی کمزور ہو رہی ہے، اور جو ترقی و ٹیکنالوجی کا ماڈل ایک وقت میں مثالی تھا، وہ اب ماند پڑ چکا ہے۔
مغربی یروشلم میں بعض لوگ شاید یہ خواب دیکھ رہے ہوں کہ مشرق وسطیٰ کو طاقت اور خوف کے ذریعے نئی شکل دی جا سکتی ہے، اور اس سے اسرائیل کو چند دہائیوں کا سکون نصیب ہو جائے گا۔ مگر ایسا ہونا یقینی نہیں۔ کسی پڑوسی کو کچلنے سے خطرہ ختم نہیں ہوتا، وہ صرف مزید قریب آ جاتا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اسرائیل کے گہرے مسائل بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہیں، جو اس کے سیاسی اور معاشرتی نظام کی کوتاہیوں میں پوشیدہ ہیں۔
بے شک جنگ کسی ریاست کی شناخت بن سکتی ہے۔ مگر ایسی ریاستیں مثلاً اسپارٹا یا شمالی کوریا، ہمیشہ غیر معمولی ہوتی ہیں، اور ان کے لیے بھی جنگ کبھی اصل سفارتکاری، پالیسی یا ترقی کا متبادل نہیں ہو سکتی۔
سوال یہ ہے کیا اسرائیل جو ہمیشہ جنگ میں رہا، واقعی ایک ترقی یافتہ ریاست ہے؟ یا وہ صرف امریکی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ، ایک اڈا رہا ہے جو سیاسی، فوجی اور مالی امداد سے قائم رہا؟
اگر اسرائیل نے مستقل جنگ اور دائیں بازو کی قوم پرستی کی راہ اپنائی رکھی، تو وہ مغرب کے لیے ایک پُل بننے کی حیثیت کھو سکتا ہے اور ایک تنہا، عسکری قلعے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ کمزور، الگ تھلگ، اور دنیا سے کٹا ہوا۔
رشیا ٹوڈے میں شائع مضمون کے لکھاری تیموفے بورداچیف، ولادی کلب کے پروگرام ڈائریکٹر ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا رشیا ٹوڈے مشرق وسطیٰ مغرب