مودی کا دورہ کینیڈا، سکھ سراپا احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
بھارتی وزیراعظم کے دورہ کے موقع پر کیلگری میں کشمیریوں نے مظاہرہ کیا جبکہ البرٹا کے مختلف شہروں میں سکھ کمیونٹی بھی سراپہ احتجاج ہے جس کے اہم رکن ہردیپ سنگھ نجر کو خفیہ تنظیم را کے ایجنٹوں نے قتل کردیا تھا۔ہردیپ سنگھ نجر کے دوست مونندر سنگھ کا کہنا ہے کہ لوگ مشتعل ہیں کہ آخر مارک کارنی نے مودی کو کینیڈا بلایا کیوں؟مارک کارنی کے برعکس کینیڈا کے سابق وزیراعظم جسٹن ٹروڈ نے بھارتی وزیراعظم کیخلاف انتہائی سخت رویہ اپنائے رکھا تھا۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں واضح کیا تھا کہ کینیڈا کے پاس ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ بھارتی سرکار ہی خالصتان تحریک کے کینیڈین سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہے۔
پاکستان سے شکست کی ہزیمت سے داخلی محاذ پر دوچار بھارت کے وزیراعظم کا کینیڈا میں سکھوں اور کشمیریوں نے مظاہروں سے استقبال کرکے نریندر مودی کو عالمی رہنماؤں کے سامنے رْسوا کردیا۔ کینیڈا میں منعقد ہونے والے جی 7 اجلاس سے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف سکھ برادری کی جانب سے شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا۔ "سکھ فار جسٹس” اور خالصتان تحریک سے وابستہ ہزاروں افراد نے البرٹا کی کناناسکی ہائی وے پر احتجاجی ریلی نکالی، جسے انہوں نے "احتجاجی استقبالیہ” کا نام دیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مودی کی یہ خام خیالی تھی کہ وہ عالمی اسٹیج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بچ نکلیں گے۔
امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی،جاپان اور یورپی یونین پر مشتمل اقتصادی لحاظ سے اہم معیشتوں کا یہ اجلاس پندرہ سے سترہ جون تک کینیڈا کے صوبہ البرٹا میں منعقد ہوا۔ بھارت اس تنظیم کا رکن تو نہیں تاہم بھارتی وزیراعظم بطور مہمان مدعو تھے۔ دیگر مہمانوں میں یوکرین کے صدر زیلنسکی، البانیہ، برازیل، میکسیکو، جنوبی افریقا اور جنوبی کوریا کے رہنما بھی شامل تھے۔نریندر مودی قبرص کے راستے البرٹا سولہ جون کی شام پہنچے تو اجلاس کے روح رواں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل ایران جنگ کے سبب دورہ مختصر کرکے واشنگٹن واپسی کی تیاری کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سربراہ اجلاس کے دوران عالمی رہنماؤں کے آگے پیچھے کھڑے ہونے کی مودی جی کی حسرت دل ہی میں دبی رہ گئی۔
ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے علاقے سررے میں واقع گرو نانک گوردوارے کی پارکنگ لاٹ میں سرعام قتل کردیا گیا تھا۔ 18 جون 2023کو اس قتل کے بعد سے کینیڈا اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے ہیں۔اس قتل کے بعد یہ حقیقت بھی کھل کرسامنے آئی تھی کہ بھارتی حکومت خالصتان تحریک سے وابستہ افراد کی آواز کینیڈا میں دبانے کیلیے کئی دیگر اہم شخصیات کو بھی دھمکیاں دینے اور انکی نگرانی میں ملوث ہے۔جسٹن ٹروڈو نے اسی وجہ سے بھارت کے چھ سفارتکاروں کو کینیڈا سے نکال باہر کیا تھا۔اب مارک کارنی نے نریندر مودی کو دعوت دی تو کینیڈا کی اہم سیاسی جماعت این ڈی پی کے رہنما جگمیت سنگھ بھی ان سے نالاں ہوگئے ہیں۔
جگمیت سنگھ نے کینیڈین وزیراعظم سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ نریندر مودی کو دورہ کی دعوت نہ دیں کیونکہ خود جگمیت سنگھ کی مبینہ طور پر را کے ایجنٹ نے نگرانی کی تھی جس پر انہیں سن دوہزار تئیس میں پولیس کا تحفظ حاصل کرنا پڑا تھا۔سکھ رہنماؤں نے کینیڈین حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایک ایسی حکومت کے سربراہ کو دعوت دینا جو اپنے ملک میں اقلیتوں پر ظلم ڈھاتی ہے، عالمی اقدار کے منافی ہے۔ کینیڈا کی حکومت پہلے ہی نجر کے قتل کا الزام بھارت کی خفیہ ایجنسی "را” پر عائد کرچکی ہے۔سکھ کمیونٹی نے مطالبہ کیا کہ مودی کو انسانی حقوق کی پامالی پر عالمی کٹہرے میں لایا جائے۔
کینیڈا میں آباد کینیڈین انڈینز کی تعداد تقریباً اٹھارہ لاکھ ہے جن میں سے تقریباً آٹھ لاکھ سکھ ہیں جبکہ دس لاکھ بھارتی مختلف حیثیت میں نان ریزیڈنٹس کے طور پربھی موجود ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد نے حالیہ ریفرنڈم میں خالصتان کی آزادی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم کیخلاف مظاہروں میں بھی سکھوں کی بڑی تعداد شریک ہورہی ہے۔اس صورتحال میں ایک عشرے بعد نریندر مودی کینیڈا آتو گئے ہیں تاہم کینیڈین سرزمین پر بھارتی سرکار کے مبینہ جرائم کے سبب مارک کارنی نے تصدیق کی ہے کہ نریندر مودی سے بات چیت میں لاانفورسمنٹ یعنی قانون کے نفاذ پر عمل کی بات بھی ہوگی۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گلوبل سپلائی چین میں بھارت کے کردار کی وجہ سے مارک کارنی کو مودی کو بلانا پڑا۔ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بھارت اور کینیڈا کے درمیان سن دوہزار چوبیس میں تجارت کا حجم آٹھ اعشاریہ چھ ارب ڈالر رہا تھا اور امریکا سے تعلقات کشیدہ ہونے کا خطرہ موجود ہونے کے سبب کینیڈا چاہتا ہے کہ بھارت سے معاشی تعلقات مضبوط ہوں۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کینیڈا بھارت اقتصادی تعلق اپنی جگہ، نریندر مودی کو سفارتی محاذ پر شکست اس لیے ہوئی کیونکہ وہ جب دو طرفہ بات چیت کریں گے تو بھارتی حکومت کے کینیڈا میں جرائم پر بھی بات ہوگی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی کیلیے تاخیر سے البرٹا پہنچنا اس لیے بہتر ثابت ہوا کہ اگر امریکی صدر سے آمنا سامنا ہوجاتا اور جنگ بندی میں امریکا کے کردار سے وہ کنی کترانے کی کوشش کرتے تو ان کے ساتھ بھی کہیں وہی نہ ہوجاتا جو یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ہوا تھا۔ کانگریس رہنما راہول گاندھی کے یہ الفاظ بھارتی وزیراعظم کے کانوں میں گونج رہے تھے کہ ٹرمپ نے انہیں کہا تھا کہ نریندر سرینڈر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: بھارتی وزیراعظم ہردیپ سنگھ نجر نریندر مودی کو مارک کارنی کینیڈا میں کینیڈا کے بھارت کے کہ بھارت تھا کہ
پڑھیں:
منی پور فسادات، مودی سرکار کی غفلت اور سکیورٹی کی ناکامی ثابت
بھارتی ریاست منی پور طویل عرصے سے مودی سرکار کی سیاسی نااہلی، سماجی غیر ذمہ داری اور سکیورٹی غفلت کا شکار ہے۔
مئی 2023 سے منی پور میں شروع ہونے والی خونی جھڑپیں اب تک متعدد جانیں لے چکی ہیں، جس سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ مودی سرکار اپنی ریاستی رِٹ مکمل طور پر کھو چکی ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق’’بھارتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) نیشی کانتا سنگھ نے منی پور بحران کو محض فرقہ وارانہ نہیں بلکہ منظم سیکیورٹی ناکامی کا نتیجہ قرار دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ منی پور تصادم دو مرحلوں پر مشتمل تھا، پہلا مرحلہ 3 سے 10 مئی تک جاری رہا، جوکہ چھوٹے پیمانے کی جھڑپوں پر مبنی تھا، دوسرا مرحلہ 27 اور 28 مئی کو منظم حملوں کی صورت میں شروع ہوا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) نیشی کانتا سنگھ نے کہا کہ وادی امفال کو چاروں اطراف سے گھیر کر بھارتی سکیورٹی فورسز کو مکمل طور پر بے بس کر دیا گیا، منی پور کے پولیس اسٹیشنوں سے چار ہزار سے زائد ہتھیار بھی چوری ہوئے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق منی پور میں خواتین سے زیادتی، گھروں کی تباہی اور معصوم عوام کے قتل پر مودی سرکار کی مجرمانہ خاموشی ریاستی بے حسی کی واضح مثال ہے، اس تمام صورتحال کے باوجود، حکومت کی جانب سے نہ کوئی واضح پالیسی سامنے آئی اور نہ ہی کوئی ہنگامی سیکیورٹی پلان نافذ کیا گیا۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سیکیورٹی ناکامی چھپانے کے لیے ریاست بھر میں انٹرنیٹ کی بندش اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے داخلے پر مکمل پابندی عائد ہے، منی پور کے پچاس ہزار سے زائد شہری اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ سرکاری اداروں کی غفلت کے نتیجے میں 180 سے زائد افراد ہلاک جبکہ سیکڑوں دیہات مکمل طور پر خاکستر ہو چکے ہیں۔
منی پور ایک ایسی ریاست بن چکی ہے جہاں حکومتی ادارے محض علامتی حیثیت رکھتے ہیں، یہ سارا منظرنامہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ آیا بھارت واقعی ایک متحد اور محفوظ ریاست ہے؟، منی پور جیسے علاقے بھارتی نظام کی کھلی دراڑوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔