نیتن یاہو اسرائیل کے لیے ایران سے بڑا خطرہ، رجیم چینج کا نعرہ مہنگا پڑگیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کا محاذ خود اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے لیے ہزیمت کا باعث بن رہی ہے کیونکہ ان کی حکومت کی جارحانہ حکمت عملی نے ملکی دفاعی نظام کی افادیت پر سوالیہ نشان لگادیے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ بندی کے دعوے کے بعد مجموعی طور پر 17 سال اسرائیلی وزیراعظم رہنے والے نیتن یاہو سے استعفے کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے، اسرائیلی شہری پہلے ہی ان کیخلاف کرپشن کے الزامات اور ان کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف 2019 میں دائر کیے گئے 3 علیحدہ کرپشن کیسز میں رشوت، دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کے الزامات شامل ہیں, نیتن یاہو نے ان الزامات کو جعلی قرار دیتے ہوئے کسی بھی قسم کے غلط عمل سے انکار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران اسرائیل جنگ بندی، امریکی صدر ٹرمپ نے اچانک یہ اعلان کیوں کیا؟
وزیر اعظم نیتن یاہو کا مقدمہ 24 مئی 2020 کو شروع ہوا اور وہ اسرائیل کی تاریخ میں پہلے برسرِ اقتدار وزیرِ اعظم ہیں جنہوں نے بطور فوجداری ملزم عدالت میں پیش ہو کر گواہی دی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق تل ابیب کی ضلعی عدالت نے 11 جون کو نیتن یاہو کے خلاف جاری کرپشن مقدمے کی سماعت ان کی صحت کی خرابی کے باعث منسوخ کر دی، جو بظاہر ایک بہانہ نظر آتا ہے کیونکہ وہ ایران کے خلاف ہر دم دستیاب سربراہ مملکت کے طور پر نظر آتے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیلی قانون کے تحت، جب تک سپریم کورٹ انہیں مجرم قرار نہ دے، نیتن یاہو کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی ضرورت نہیں۔ تاہم، یہ قانونی عمل کئی مہینے جاری رہ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: ایران اسرائیل جنگ کے حوالے سے چند اہم حقائق
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نے ہمیشہ تنازعات کے پیچھے اپنا سیاسی کیریئر بچانے کی کوشش کی ہے جس میں وہ غزہ پر حملے کے بعد فلسطینیوں پر یکطرفہ مکمل جنگ مسلط کرنے کے بعد ایران پر حملہ آور ہوئے اور ایرانی رد عمل میں اسرائیل کا تاریخ میں پہلی مرتبہ اچھا خاصا نقصان کروابیٹھے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کو اسرائیل میں ایران سے بڑا خطرہ تصور کیا جارہا ہے، گزشتہ برس نومبر میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی جانب سے غزہ میں روا رکھے گئے جنگی جرائم پر نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآف گیلنٹ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جاچکے ہیں۔
عالمی میڈیا کے مطابق یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ایران پر اسرائیلی حملوں کے پس پردہ عوامل میں ایک ایران میں رجیم چینج کا ہدف بھی تھا، جسے بظاہر مسترد کیا جاتا رہا لیکن اندرون خانہ اس ایجنڈے پر عالمی طاقتیں عمل پیرا رہیں۔
مزید پڑھیں: ایران اسرائیل تنازع: پاکستان، چین اور روس کی سلامتی کونسل میں مشترکہ قرارداد، فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ
ایران اور اسرائیل کے مابین حالیہ جنگ بندی کے امریکی اعلان کے تناظر میں پتا چلا ہے کہ جنگ بندی کی درخواست ایران کی جانب سے نہیں بلکہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے کی گئی ہے اور اس ضمن میں امیر قطر کو ثالثی کا کردار سونپا گیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کی جانب سے وزیر اعظم نیتن یاہو سے استعفے کا مطالبہ شدت اختیار کررہا ہے کیونکہ انہوں نے اسرائیلی دفاع کو نقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اس ضمن میں کہا جاتا ہے کہ ایران نے اپنی مزاحمت سے آئرن ڈوم سمیت اسرائیلی کے سہ لہری فضائی دفاعی نظام کو آئینہ دکھادیا ہے۔
اس وقت دلچسپ صورتحال یہ کہ ہے کہ ایران میں شہری اپنے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے سڑکوں پر فتح کا جشن مناتے ہوئے نظر آرہے ہیں جبکہ اسرائیل میں عوامی اکثریت وزیر اعظم نیتن یاہو سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل انٹرنیشنل کرمنل کورٹ ایران بینجمن نیتن یاہو تل ابیب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل انٹرنیشنل کرمنل کورٹ ایران بینجمن نیتن یاہو تل ابیب اعظم نیتن یاہو اسرائیلی وزیر کی جانب سے کا مطالبہ کے مطابق
پڑھیں:
برطانیہ ،آسٹریلیا،کینیڈا نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا،کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی،نیتن یاہو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن/غزہ/میڈرڈ/ایتھنز(مانیٹرنگ ڈیسک) برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے ریاست فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے ایک وڈیو بیان میں کہا کہ آج، امن اور دو ریاستی حل کی ا±مید کو زندہ کرنے کے لیے میں بطور وزیراعظم برطانیہ اعلان کرتا ہوں کہ برطانیہ باضابطہ طور پر ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی ہولناکی کے سامنے ہم اس
بات کے لیے قدم ا±ٹھا رہے ہیں کہ امن اور دو ریاستی حل کے امکان کو زندہ رکھا جا سکے، اس کا مطلب ہے ایک محفوظ اور پ±رامن اسرائیل کے ساتھ ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست اور فی الحال ہمارے پاس دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔برطانیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کے دوران وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ غزہ میں انسان کا پیدا کردہ بحران نئی گہرائیوں تک پہنچ چکا ہے، ’ بھوک اور تباہی بالکل ناقابلِ برداشت ہیں۔انہوں نے کہا کہ دسیوں ہزار افراد شہید کیے جا چکے ہیں، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کھانا اور پانی لینے کے لیے گئے تھے، ’یہ موت اور تباہی ہم سب کے لیے ہولناک ہے۔ان کا کہنا تھاکہ کچھ بیمار اور زخمی بچوں کو نکالا گیا ہے اور ہم نے انسانی ہمدردی کی امداد میں اضافہ کیا ہے لیکن ابھی بھی کافی امداد نہیں پہنچ رہی۔کیئراسٹارمر نے کہا کہ ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سرحد پر عائد پابندیاں ختم کرے، ظالمانہ طریقوں کو بند کرے اور امداد کو اندر جانے دے۔قبل ازیں وزیرراعظم آسٹریلیا انتھونی البانیز اور آسٹریلوی سینیٹ میں قائد ایوان و وزیرخارجہ پینی وونگ کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ اتوار 21 ستمبر 2025ءسے مو¿ثر، دولتِ مشترکہ آسٹریلیا باضابطہ طور پر آزاد اور خودمختار ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے۔اس اقدام کے ذریعے آسٹریلیا فلسطینی عوام کی اپنی ریاست کے قیام کی جائز اور دیرینہ خواہشات کو تسلیم کرتا ہے۔فلسطین کو تسلیم کرنا، کینیڈا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر، ایک مربوط بین الاقوامی کوشش کا حصہ ہے تاکہ دو ریاستی حل کے لیے ایک نیا محرک پیدا کیا جا سکے، جس کا آغاز غزہ میں جنگ بندی اور 7 اکتوبر 2023 ءکے مظالم میں لیے گئے یرغمالیوں کی رہائی سے ہو۔بیان میں کہا گیا کہ آج کا یہ قدم آسٹریلیا کے دو ریاستی حل کے طویل المدت عزم کی عکاسی کرتا ہے، جو ہمیشہ اسرائیلی اور فلسطینی عوام کے لیے پائیدار امن اور سلامتی کی واحد راہ رہی ہے۔بین الاقوامی برادری نے فلسطینی اتھارٹی کے لیے واضح تقاضے طے کیے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم کرنے کے عزم کو دہرایا ہے اور آسٹریلیا کو براہِ راست یقین دہانیاں کرائی ہیں، جن میں جمہوری انتخابات کرانے اور مالیات، طرزِ حکمرانی اور تعلیم کے شعبوں میں نمایاں اصلاحات کرنے کے وعدے شامل ہیں۔ بی بی سی کے مطابق کینیڈا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والا پہلا جی 7 ملک بن گیا۔ وزیرِ اعظم مارک کارنی نے کہا ہے کہ آج سے کینیڈا ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے۔اپنے ایکس اکاو¿نٹ پر جاری کردہ بیان میں مارک کارنی نے کہاکہ کینیڈا ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے اور ریاستِ فلسطین اور ریاست اسرائیل دونوں کے لیے پ±رامن مستقبل کے وعدے کی تعمیر میں اپنی شراکت پیش کرتا ہے۔ادھر حماس نے مغربی ممالک کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے اعلان کو خوش آئند قرار دیا ہے تاہم کہا کہ اسے ’ عملی اقدامات’ کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ غزہ میں جنگ ختم ہو اور اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے سے روکا جا سکے۔ حماس نے کہا کہ مغربی ممالک کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنا ایک اہم قدم ہے، خودمختار فلسطینی ریاست ہماری عوام کے حقِ ملکیت کی توثیق ہے۔ اپنے بیان میں حماس ترجمان نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت القدس ہوگا۔ برطانوی خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ آج برطانیہ نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن کی امید دوبارہ اجاگرکرتے ہوئے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانیہ کا اقدام دیگر 140 سے زائد ممالک سے مطابقت رکھتا ہے لیکن اسرائیل اور اس کے کلیدی اتحادی امریکا کے لیے ناراضی کا باعث ہوگا۔ اس کے علاوہ کینیڈا اور آسٹریلیا نے بھی فلسطین کو ریاست تسلیم کرلیا اور نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران مزید ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کیے جانے کا امکان ہے۔دوسری جانب اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے اتوار کو برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی جانب سے فلسطینی ریاست کو یکطرفہ تسلیم کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی، مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کے اقدامات جاری رکھیں گے۔نیتن یاہو نے کہا کہ ان کی امریکا سے واپسی پر اسرائیل کی جانب سے ردعمل دیا جائے گا۔اسرائیلی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل برطانیہ اور کچھ دیگر ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کے یکطرفہ اعلان کو قطعی طور پر مسترد کرتا ہے۔ یہ اعلان امن قائم کرنے کے بجائے خطے کو مزید غیر مستحکم کرتا ہے اور مستقبل میں پرامن حل کے امکانات کو نقصان پہنچائے گا۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ یہ اقدام مذاکرات اور دونوں فریقوں کے درمیان کسی مفاہمت کے تمام اصولوں کے منافی ہے اور مطلوبہ امن کے امکانات کو مزید کم کردے گا۔بیان کے آخر میں کہا گیا اسرائیل کسی بھی ایسے بے بنیاد اور خیالی متن کو قبول نہیں کرے گا جو اسے ناقابلِ دفاع سرحدوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کرے۔قبل ازیں اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں حملوں میں تیزی آگئی، مزید 91 فلسطینی شہید ہوگئے۔قطری میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں بے گھر فلسطینیوں کے خیموں پر بم باری کی جس میں بچوں سمیت متعدد فلسطینی شہید ہوئے، غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں صبح سے اب تک شہدا کی تعداد 91 سے زائد ہوگئی۔رپورٹ کے مطابق چند روز میں غزہ شہر سے ساڑھے 4 لاکھ فلسطینی جبری بے دخل کر دیے گئے۔دوسری جانب حماس نے باقی رہ جانے والے 48 یرغمالیوں کی الوداعی تصویر کے نام سے گروپ فوٹو جاری کر دیا، اسرائیل کے فوجی آپریشن کی توسیع پر حماس نے یرغمالیوں کی جانیں خطرے میں ہونے سے خبردار کر دیا تھا۔امریکی میڈیا کا کہنا ہے ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کو 6 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہتھیار فروخت کرنے کے لیے کانگریس کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ان کا ملک فلسطینی عوام کی مشکلات کے خاتمے اوروہاں جاری پرتشدد چکر کو روکنے کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔ پاکستانی سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزیرخارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطین کا مسئلہ سعودی عرب کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور ہر بین الاقوامی فورم پر مملکت اس پر اپنا مو¿قف بھرپور انداز میں پیش کرتی ہے۔شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ سعودی عرب مسئلہ فسلطین کے منصفانہ حل کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لائے گا، جس کا آغاز آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے ہوگا اور جس کا مقصد خطے میں جامع اور پائیدار امن قائم کرنا ہے۔سعودی پریس ایجنسی واس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سال سعودی عرب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں امن اور انصاف کا پیغام لے کر شریک ہو رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مملکت نے اپنے بانی شاہ عبدالعزیز کے دور سے لے کر آج تک اور موجودہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں ہمیشہ امن کے قیام، مکالمے کو فروغ دینے اور پرامن حل تلاش کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ سعودی عرب بدستور خطے اور دنیا میں منصفانہ امن کے قیام کے لیے ہر ممکن جدوجہد کر رہا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ سعودی عرب اقوام متحدہ کے بانی ارکان میں سے ایک ہے اور اسے 1945 میں تنظیم کے پہلے اجلاس میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔ سعودی عرب تنازعات کے حل اور امن کے قیام کی بھرپور تاریخ رکھتا ہے جو اس کی متوازن خارجہ پالیسی اور وسیع تعلقات کی بدولت ممکن ہوا۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سعودی عرب نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے منشور کو عملی شکل دینے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی قوانین کے احترام کو فروغ دینا ، دنیا میں سکیورٹی اور امن قائم کرنا اور کثیرالجہتی تعاون کے تمام مواقع کو تقویت دینا ہے۔مزید برآں غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں فلسطین حمایت مارچ کا اہتمام کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق فلسطین حمایت مارچ میں شریک سیکڑوں مظاہرین نے یونانی حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا۔ادھر اسپین میں ہیلتھ ورکرز نے ہاتھوں پر سرخ رنگ لگا کر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل ک±شی روکنے کا مطالبہ کیا جبکہ جاپان میں بھی فلسطیی پرچم لہراتے سماجی کارکن نے ٹوکیو کی سڑکوں پر احتجاج کیا۔اسرائیل میں بھی نیتن یاہو حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، تل ابیب میں جمع ہزاروں اسرائیلیوں نے غزہ جنگ بندی معاہدہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
غزہ