چینی ٹی وی کے ایک عوامی پول میں شرکاء کی ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کی سخت مذمت
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
چینی ٹی وی کے ایک عوامی پول میں شرکاء کی ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کی سخت مذمت WhatsAppFacebookTwitter 0 24 June, 2025 سب نیوز
بیجنگ :سی جی ٹی این کی جانب سے کیے گئے ایک عوامی پول کے مطابق، شرکاء نے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی فوج کے حملے کی سخت مذمت کی اور “امریکن فرسٹ” کی خارجہ پالیسی پر تنقید کی جس نے مشرق وسطیٰ کو سنگین تباہی سے دوچار کیا ہے۔پول میں 91 فیصد شرکاء نے کہا کہ عالمی برادری کی ایران۔اسرائیل تنازع میں “تناؤ کم کرنے” کی عمومی خواہش کے تناظر میں، امریکی اقدامات جلتی آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہیں جو ایران۔ اسرائیل صورتحال کو مزید بے قابو بنا رہے ہیں؛ 90 فیصد شرکاء نے کہا کہ امریکہ کا ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ اقوام متحدہ کے منشور کے مقاصد اور اصولوں اور بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے،
جس سے ایران کی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت متاثر ہوئی ہے؛ 90 فیصد شرکاء نے اسرائیل کے فوجی اقدامات کی مذمت کی جس کے نتیجے میں علاقے میں کشیدگی تیزی سے بڑھی ہے؛ 84 فیصد شرکاء نے کہا کہ اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں انسانی بحران کو مزید ابتری سے دوچار کیا ہے۔مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام سے عالمی سطح پر بھی امن کا حصول مشکل ہے۔ مسائل کے حل کے لیے باہمی گفتگو اور مذاکرات کی جانب واپسی عالمی برادری کی عمومی توقع ہے۔
پول نتائج کے مطابق، 85 فیصد شرکاء نے کہا کہ جنگ بندی اور امن کو فروغ دینا فوری طور پر ضروری ہے؛ 77 فیصد شرکاء نے کہا کہ سیاسی ذرائع سے مسائل کا حل تلاش کرنا اور مذاکرات کا آغاز ہی اصل راستہ ہے؛ 91 فیصد شرکاء نے کہا کہ بااثر بڑی طاقتوں کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے۔یہ پول سی جی ٹی این کے انگریزی، ہسپانوی، فرانسیسی، عربی اور روسی زبانوں کے پانچ مختلف پلیٹ فارمز پر شائع ہوا اور 12 گھنٹوں کے اندر 10472 افراد نے اپنی آراء کا اظہار کیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچائنا میڈیا گروپ اور بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کا اسپورٹس پروگراموں کی جدید نشریات کو فروغ دینے پر اتفاق امریکی درخواست پر قطر کی ثالثی: ایران اور اسرائیل میں جنگ بندی کا آغاز اسرائیلی وزیراعظم نے ایران کے ساتھ جنگ بندی کی تصدیق کردی، عملدرآمد شروع جنگ بندی سے پہلے ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ، 4 اسرائیلی ہلاک، متعدد زخمی ایران، اسرائیل جنگ بندی پر راضی: ٹرمپ، تہران کی تصدیق، نیتن یاہو خاموش قطر ہمارا بھائی،یہ حملہ قطر پر نہیں امریکی فوجی اڈوں پر کیا گیا ، ایرانی سپریم کونسل متحدہ عرب امارات کی ائیر سپیس خالی ہونا شروع، درجنوں پروازیں متبادل روٹس پر منتقلCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ایران کی جوہری تنصیبات پر
پڑھیں:
امریکہ پر انحصار کی قیمت
اسلام ٹائمز: اگر ایران اس طرح کے چند اور بڑے میزائیلوں کے حملے کرتا ہے تو اسرائیل اپنے جدید میزائیلوں کے ذخیرے کو ختم کر دے گا۔ ”جنسا“ کی رپورٹ کے نتائج کے مطابق ایسے میں جب کہ ایرانی میزائیلوں کو روکنے والے ساٹھ فیصد انٹر سیپٹر میزائیل THAAD تھے، ایرانی میزائیلوں کے ”ہٹ ریٹ“ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات تھاڈ کے خلاف ایرانی نظام کے فعال ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
بعض اطلاعات کے مطابق اسرائیل ایران سے کسی نئے معرکے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسرائیل جس نے اب تک امریکہ پر مکمل انحصار کیا ہے، کیا وہ وعدہء صادق ٣ کے تجربے کے بعد امریکی دفاعی نظام پر اعتماد کرکے ایران سے خلاف پھر کوئی محاذ آرائی شروع کر سکتا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ ایران نے جس طرح گزشتہ جنگ میں امریکہ کے افسانوی طرز کے دفاعی سسٹم ”THAAD“ کے پرخچے اڑائے ہیں، اس کا نظارہ اسے تمام دنیا نے اپنی آنکھوں سے براہ راست دیکھا ہے۔ اسرائیلی اخبار HARRETZ ہاریٹز کے ایک تجزیے کے مطابق حالیہ جنگ میں تقریباً 100 تھاڈ میزائیل استعمال کیے گئے تھے۔ لیکن امریکی میڈیا جیسے CNN کی بعد میں آنے والی رپورٹس کے مطابق ان کی تعداد کم سے کم 150 بتائی گئی ہے جو اس پروڈیکٹ کی تیاری کے آغاز سے لے کر اب تک امریکہ کے تیار کردہ میزائیلوں کا چوتھائی حصہ ہے۔ بارہ دنوں میں امریکی دفاعی صلاحیت میں اس قدر کمی کچھ اور ہی منظر دکھا رہی ہے۔
مذکورہ تخمینوں کے مطابق اس جنگ میں امریکہ اور اسرائیل کی مداخلت کے اخراجات کم از کم 1.5 بلین ڈالر تھے۔ البتہ یہ واضح رہے کہ امریکی اور اسرائیلی افواج کے خدشات محض مالیاتی تناظر میں نہیں تھے۔ بلکہ ان کے لیے اس پیچیدہ نظام کی شکست اور میزائیلوں کی پیداوار کی محدود شرح بھی باعث تشویش ہے۔ ”امریکی میزائیل ڈیفنس ایجنسی“ کے باضابطہ اعلان کے مطابق 2025ء میں صرف 12 تھاڈ میزائیل تیار کیے گئے اور 2026ء تک زیادہ سے زیادہ محض 37 میزائیل تیار کیے جانے کی توقع ہے۔ واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار جو صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں لیے باعث تشویش ہیں، صرف اسرائیل اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ کے شائع کردہ ہیں جو یقیناً ایک پرامید نظریہ یا امریکی حکام کی مہیا کردہ معلومات پر مبنی ہیں۔
اگر ان اعداد و شمار کو بھی حتمی سمجھ لیا جائے تب بھی زمینی حقائق یہ کہتے ہیں کہ اگر جنگ مزید ایک ہفتہ اور جاری رہتی تو اسرائیل کا دفاعی نظام مکمل طور پر بیٹھ گیا ہوتا۔ ”جیوش انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی ان امریکہ“ (JINSA) میں فارن پالیسی کے نائب صدر ”ایری سیکورل“، حالیہ جنگ کے حوالے سے انسٹیٹیوٹ کے ایک تازہ تجزیے میں لکھتے ہیں کہ امریکہ کو اب ایسے انٹرسیپٹرز کی دوبارہ فراہمی کا چیلنج درپیش ہے ، جن میں سے ہر ایک کی قیمت تقریباً 12.7 ملین ڈالر ہے۔ اندازوں کے مطابق امریکہ کو 2024ء میں صرف گیارہ تھاڈ میزائیل ملے اور سال کے آخر تک مزید 12 میزائیل ملنے کی توقع ہے۔ امید ہے کہ 2026ء کے مالی سال کے اختتام تک 25 سے 37 کے درمیان مزید میزائیلوں کی سپلائی کر دی جائے گی۔
دریں اثناء امریکی فوجی اداروں کو خبروں اور معلومات فراہم کرنے والے معروف ”سٹارز اینڈ سٹرپس میگزین“ کے مطابق، پیداوار کی اس شرح پر ، امریکی فوج کے تھاڈ کے ذخیرے کو دوبارہ بھرنے میں آٹھ سال تک لگ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے میں جب کہ امریکہ نے بعض دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تھاڈ سسٹم فراہم کرنے کے معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ جن میں سعودی عرب کو 7 تھاڈ سسٹم بھیجنے کے لئے پندرہ بلین ڈالر اور اس کے علاوہ 360 بلین ڈالر کا دفاعی معاہدہ شامل ہے۔ ”وال سٹریٹ جرنل“ کے مطابق صیہونی حکومت کی مسلط کردہ جنگ کے دوران مقبوضہ علاقوں پر ایران کے برسائے گئے میزائلوں کی لہر نے امریکہ کے انٹرسیپٹر میزائیلوں کے ذخیرے میں پیدا ہونے والے خلاء کو بے نقاب کر دیا ہے۔
اگر ایران اس طرح کے چند اور بڑے میزائیلوں کے حملے کرتا ہے تو اسرائیل اپنے جدید میزائیلوں کے ذخیرے کو ختم کر دے گا۔ ”جنسا“ کی رپورٹ کے نتائج کے مطابق ایسے میں جب کہ ایرانی میزائیلوں کو روکنے والے ساٹھ فیصد انٹر سیپٹر میزائیل THAAD تھے، ایرانی میزائیلوں کے ”ہٹ ریٹ“ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات تھاڈ کے خلاف ایرانی نظام کے فعال ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ واضح رہے کہ ایران کی مسلح افواج کے پاس صیہونی حکومت کے مختلف مراکز، حتا کہ امریکی کے بعض مراکز کو بھی تباہ کرنے کے ایسے وسائل موجود ہیں جن کی رونمائی ایران نے ابھی تک نہیں کی۔