data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گزشتہ روز اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے وزرائے خارجہ کونسل کے 51 ویں اجلاس کا انعقاد ترکیہ کے شہر استنبول میں ہوا، جس میں رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور اعلیٰ سطحی وفود نے شرکت کی۔ اجلاس کے اختتام پر ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں خطے کی خطرناک صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی ہے، مشترکہ اعلامیے میں اسرائیلی حملوں کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دو روزہ منعقدہ اس اجلاس کے اعلامیے میں ایران پر ہونے والے امریکی حملوں کا ذکر تک نہیں۔ 1969ء میں مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے کے بعد مسلم امہ کے مشترکہ مفادات کے تحفظ اور اتحاد و یکجہتی کے فروغ کے لیے57 اسلامی ممالک پر مشتمل تشکیل دیا جانے والا یہ ادارہ اپنے قیام سے اب تک مسلمانوں کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کراسکا، اس ادارے کے عمل کے دفتر میں سوائے قراردادیں منظور کرنے، مذمتی بیانات جاری کرنے، کمیٹیاں بنانے اور رپورٹس تیار کرنے کے کچھ نہیں۔ فلسطین میں آج بھی اسرائیلی مظالم جاری ہیں، شام، لیبیا، افغانستان، عراق اور دیگر اسلامی ممالک کی آزادی اور خودمختاری آن کی آن میں پامال کردی گئی اور یہ منہ دیکھتے رہ گئے، حد تو یہ ہے کہ یہ ادارہ عملی اقدامات اٹھانا تو دور کی بات ہے جارح ممالک پر سفارتی دباؤ تک ڈالنے میں ناکام رہا، کئی اہم ملی نوعیت کے مسائل پر یہ ادارہ اجلاس تک نہیں بلا پاتا اور جب کبھی اجلاس منعقد بھی ہو تو وہ نشستند، گفتند، برخواستند ثابت ہوتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اجلاس میں بلند و بانگ دعوؤں اور عزائم کا اظہار کیا جاتا ہے اور دھواں دھار تقریریں کی جاتی ہیں، ایسی ہی ایک تقریرحالیہ اجلاس میں ترک صدر رجب طیب اردوگان نے کی ہے، اپنے خطاب میں انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے پرامن حل کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں پیدا کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کی مخالفت کرے اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل کی حمایت کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ استنبول کی تقدیر دمشق کی تقدیر سے الگ نہیں ہے، مکہ و مدینہ، اسلام آباد، تہران، قاہرہ، صنعا، بغداد، کابل، طرابلس اور یقینا بیت المقدس اور غزہ کی قسمت ایک دوسرے سے جڑی ہے۔ متحد رہنا ہم سب پر فرض ہے۔ ایک عام مسلمان جب ان رہنماؤں کی تقریریں سنتا ہے تو عش عش کر اٹھتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے مسلم حکمران زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر عملی طور پر کچھ کرنے سے یکسر قاصر ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی حملے آج تک جاری ہیں، 55 ہزار سے زاید مسلمان بے دردی سے شہید کردیے گئے مگر کسی ایک مسلم ملک کو اسرائیل سے کم از کم سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی، حتیٰ کہ اردوگان کے اسرائیل کے خلاف مذمتی بیانات کے باوجود باہمی تجارت جاری رہی۔ مسلم حکمران او آئی سی کے پلیٹ فارم سے کچھ اور نہ سہی کم از کم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ وہ مسلم امہ کے مسائل پر مشترکہ موقف اختیار کریں، اقوامِ متحدہ، انٹر نیشنل کریمنل کورٹ اور دیگر عالمی فورموں پر سفارتی اقدامات کے ذریعے اسرائیل مظالم کو بند کروائیں اور اسرائیل سے مکمل طور پر سفارتی تعلقات منقطع کریں، ان عملی اقدامات کے بجائے محض خالی خولی زبانی جمع خرچ سے امت ِ مسلمہ کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یہ ہے کہ
پڑھیں:
غزہ میں اسرائیلی بمباری سے مزید 59 فلسطینی شہید، یورپی ممالک اور کینیڈا کا طبی راہداری کھولنے کا مطالبہ
غزہ ایک بار پھر اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن گیا، جہاں آج کے روز مزید 59 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج جان بوجھ کر عام شہریوں پر دہشت مسلط کر رہی ہے، اور ہزاروں افراد کو اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
قطری نیوز چینل الجزیرہ کے مطابق صرف آج صبح کے وقت 51 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں سے 36 غزہ شہر میں جان کی بازی ہار گئے۔ جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں ایک امدادی مرکز کے باہر 8 شہریوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ کھانے کے انتظار میں قطار میں کھڑے تھے۔
غزہ شہر اس وقت مکمل محاصرے میں ہے، جہاں اسرائیلی فوج کی پیش قدمی اور شدید بمباری جاری ہے۔ یہ کارروائی ایک ایسے علاقے میں کی جا رہی ہے جو پہلے ہی انسانی بحران کا شکار ہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری جنگ میں اب تک 65 ہزار 382 فلسطینی شہید اور 166 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ ہزاروں اب بھی ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
یہ ہسپتال نہیں، ذبح خانہ ہے” — ڈاکٹر ندا ابو العرب
آسٹریلوی ڈاکٹر ندا ابو العرب، جو اس وقت غزہ شہر کے الشفا اسپتال میں رضاکارانہ خدمات انجام دے رہی ہیں، نے الجزیرہ سے گفتگو میں دل دہلا دینے والے مناظر بیان کیے۔
انہوں نے کہا آپ سمجھ نہیں پاتے کہ یہ ہاتھ کس کا ہے، یہ ٹانگ کس کی ہے۔ لاشیں اس حالت میں آتی ہیں کہ پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ منظر کسی ہولناک فلم جیسا ہے۔ اسپتال، اسپتال نہیں بلکہ ذبح خانہ یا قبرستان بن چکا ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ بمباری مسلسل جاری ہے، اور ایسا لگتا ہے جیسے ہر ممکن ہتھیار آزمائے جا رہے ہوں۔ یہ قتل عام ہے — ہر سمت سے، ہر لمحے۔ بچوں کی حالت ناقابلِ بیان ہے، ان کے جسم چیتھڑوں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ سب ناقابلِ قبول اور ناقابلِ فہم ہے۔”
ڈاکٹر ندا ابو العرب نے عالمی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ کیسے جاری رہنے دیا جا رہا ہے؟ کیوں کوئی حکومت یا عالمی طاقت اسے روکنے کی ہمت نہیں کر رہی؟ ہر لمحہ قیمتی ہے، ہر لمحہ کسی پورے خاندان کو بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں ہر شخص صرف اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔
عالمی برادری کا دباؤ
غزہ میں انسانی بحران کو دیکھتے ہوئے 25 یورپی ممالک اور کینیڈا نے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ سے زخمیوں کے طبی انخلا کے لیے راہداری کھولے اور مغربی کنارے و مشرقی یروشلم تک رسائی ممکن بنائے۔
بیان میں کہا گیا کہ زخمیوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے اور ان ممالک نے مالی معاونت، طبی عملہ اور مطلوبہ سامان فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔
اس اتحاد نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ادویات اور طبی سامان کی ترسیل پر تمام پابندیاں ختم کرے، اقوامِ متحدہ کو انسانی ہمدردی کا کام بلا رکاوٹ جاری رکھنے دے اور طبی عملے کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق مکمل تحفظ فراہم کرے۔