1000 روپے کا نوٹ سوشل میڈیا پر وائرل، سٹیٹ بینک نے بیان جاری کردیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک)سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز اور تصاویر میں ایک نیا ایک ہزار روپے کا کرنسی نوٹ دکھایا جا رہا ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ تاہم سٹیٹ بینک نے اس دعوے کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دے دیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل کے مطابق مذکورہ ”نئے“ نوٹ کی ویڈیوز گزشتہ 24 گھنٹوں میں پاکستان میں 1 کروڑ سے زائد مرتبہ دیکھی جا چکی ہیں، خصوصاً ٹک ٹاک اور دیگر پلیٹ فارمز پر لوگ اسے بڑے پیمانے پر شیئر کر رہے ہیں۔
دوسری جانب ایک سوشل میڈیا صارف نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس نے یہ نوٹ 2024 میں خود ڈیزائن کیا تھا، جس سے اس کی اصلیت پر مزید سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے واضح بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا نوٹ جعلی ہے اور بینک کی جانب سے ایسا کوئی کرنسی نوٹ جاری نہیں کیا گیا۔
مرکزی بینک کے مطابق، اگر کوئی نیا کرنسی نوٹ جاری کیا جائے تو اس کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے، جس کی اطلاع اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ، سوشل میڈیا چینلز اور میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائی جاتی ہے۔
سٹیٹ بینک نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر گمراہ کن اور غیر مصدقہ مواد سے محتاط رہیں اور تصدیق شدہ ذرائع سے ہی معلومات حاصل کریں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر سٹیٹ بینک
پڑھیں:
ایف بی آر نے مالدار شخصیات کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نظر جمالی
انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر پرتعیش تقاریب کی پوسٹوں کا ٹیکس گوشواروں سے موازنہ کیا جائے گا
انسٹاگرام اکاؤنٹس خود عوامی اعلان ہیں،ٹیکس چوری کے کیس چند گھنٹوں میں کھولے جا سکتے ہیں، سینئر اہلکار
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ٹیکس چوری پکڑنے کے لیے مالدار لوگوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال شروع کردی، نئے قائم کردہ مانیٹرنگ سیل کے ذریعے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر پرتعیش تقاریب کی پوسٹس کا ٹیکس گوشواروں سے موازنہ کیا جائے گا۔عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس حکام ایک نئے ’ لائف اسٹائل مانیٹرنگ سیل’ کے تحت سوشل میڈیا پر فضول خرچی کرنے والوں کی نگرانی کر رہے ہیں، اور ان کے مطابق ہیروں کے زیورات اور ڈرون شو بھی ثبوت کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی 40 رکنی ٹیم نے اس ہفتے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پوسٹس کی جانچ شروع کر دی ہے تاکہ انفلوئنسرز، مشہور شخصیات، ریٔل اسٹیٹ ایجنٹس اور بزنس مینوں کے طرز زندگی کو ان کے ٹیکس گوشواروں کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے کہ آیا ان کے اخراجات ان کی آمدنی سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ایک سینئر ایف بی آر اہلکار نے بتایا کہ’ یہ اوپن سورس ہے، ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹس خود عوامی اعلان ہیں،’ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس چوری کے کیس چند گھنٹوں میں کھولے جا سکتے ہیں۔ایف بی آر نے رائٹرز کی تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔یہ مانیٹرنگ سیل ملک کے دیرینہ ریونیو اہداف پورے نہ کرنے کے مسئلے کو حل کرنے اور آئی ایم ایف کی حمایت سے بنائیگئے رواں سال کے بجٹ میں سخت اہداف حاصل کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔پاکستان ایشیا میں سب سے کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب رکھنے والے ممالک میں شامل ہے، جو ملک کی ایک دائمی کمزوری ہے، جس کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف کے تقریباً دو درجن پروگراموں میں پھنس گیا۔ دو فیصد سے بھی کم آبادی انکم ٹیکس ادا کرتی ہے۔رائٹرز کو موصولہ ایک اندرونی دستاویز کے مطابق، اس یونٹ کو اس ماہ باضابطہ طور پر قائم کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ اس کا مینڈیٹ ’ باقاعدگی سے بڑی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ڈیٹا مانیٹر، جمع اور تجزیہ کرنا’ اور ان لوگوں کی نشاندہی کرنا ہے جو دولت کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن یا تو ٹیکس کے لیے رجسٹر نہیں ہیں یا اپنی آمدنی کو ایسے ظاہر کرتے ہیں جو ان کے اخراجات اور اثاثوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔دستاویز کے مطابق، یہ سیل مشتبہ افراد کے ڈیجیٹل پروفائلز بنائے گا، ان کے لائف اسٹائل کے پس پردہ رقم کا اندازہ لگائے گا اور ایسی رپورٹس تیار کرے گا جنہیں ٹیکس یا منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں استعمال کیا جا سکے گا۔یہ اسکرین شاٹس اور ٹائم اسٹیمپس سمیت ثبوتوں کا ایک مرکزی ڈیٹا بیس بھی رکھے گا۔