Daily Sub News:
2025-09-26@02:23:27 GMT

حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ

اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT

حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ

حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ WhatsAppFacebookTwitter 0 26 June, 2025 سب نیوز



تحریر: محمد محسن اقبال
حضرت عمر فاروقؓ، اسلام کے دوسرے خلیفہ، انسانی تاریخ کی سب سے بااثر اور قابلِ تقلید شخصیات میں سے ایک ہیں۔ آپ کی زندگی بہادری، عدل، انکساری اور اسلام کے لیے غیر متزلزل وابستگی کا ایک خوبصورت امتزاج تھی۔ حضرت عمرؓ اپنے بے خوف مزاج، تیز فہم و فراست اور احساسِ ذمہ داری کے سبب مشہور تھے، اور آپ نے نہ صرف ایک عظیم حکمران بلکہ ایک مدبر ریاست دان کے طور پر بھی مقام حاصل کیا جن کی میراث آج بھی اقتدار اور ایمان کے ایوانوں میں گونجتی ہے۔ آپ صرف خلافت کے وارث نہ تھے بلکہ ان اقدار کا مجسم پیکر تھے جن کی تعلیمات ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے دی تھیں، اور جن کی صحبت اور اعتماد آپؓ کو بے حد عزیز تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا: ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو وہ عمر ہوتا۔” (ترمذی، حدیث 3686)
یہ اس بلند مرتبے کی گواہی ہے جو حضرت عمرؓ کو ابتدائی مسلم معاشرے میں حاصل تھی۔ آپؓ ان دس جلیل القدر صحابہؓ میں بھی شامل تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی، جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ، رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابیوں میں سے تھے، جن کا اسلام قبول کرنا مکہ میں مظلوم مسلمانوں کے لیے تقویت اور حوصلے کا باعث بنا۔ آپؓ کا ایمان لانا ایک ایسا فیصلہ کن موڑ تھا کہ مسلمان پہلی بار بیت اللہ میں علانیہ نماز ادا کرنے کے قابل ہوئے۔ آپؓ کا ایمان مضبوط، غیر متزلزل اور خالص تھا—جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت پر مبنی تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ محبت اور عقیدت مزید گہری ہوتی چلی گئی، اور یہی جذبہ آپؓ کے ہر فیصلے اور ہر عمل کی رہنمائی کرتا رہا۔
خود قرآن مجید نے ایسے صحابہ کرامؓ کی راستبازی کی گواہی دی ہے:
”محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں، وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں…”
(سورۃ الفتح، 48:29)
یہ آیت حضرت عمرؓ کی صفات کی عکاسی کرتی ہے، جو باطل کے خلاف سخت گیر اور مومنوں کے لیے نہایت نرم دل تھے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وصال کے بعد خلافت کی ذمہ داری حضرت عمرؓ کے کاندھوں پر آئی۔ آپؓ کا دورِ حکومت اگرچہ عظیم فتوحات اور اسلامی سلطنت کی وسعت کے حوالے سے جانا جاتا ہے، مگر یہ محض زمینوں کی ہوس سے نہیں بلکہ عدل، مساوات اور عوامی فلاح پر مبنی تھا۔ فارس سے لے کر روم تک، آپؓ کی عسکری قیادت نے بڑے بڑے سلطنتوں کو شکست دی، لیکن آپؓ کی انفرادیت تلوار سے زیادہ اُن اصولوں میں تھی جنہیں آپؓ نے تھاما ہوا تھا۔ فتح کے بعد بھی انکساری اور اقتدار میں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کا گہرا احساس آپؓ کے کردار کا نمایاں وصف تھا۔
حضرت عمرؓ راتوں کو مدینہ کی گلیوں میں بھیس بدل کر گشت کرتے تاکہ اپنی رعایا کے حالات خود دیکھ سکیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ عدل و انصاف معاشرے کے سب سے نچلے طبقے تک پہنچے۔ آپؓ کی انتظامی بصیرت نے ایسی حکمرانی کی بنیاد رکھی جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال بن گئی۔ آپؓ نے ہجری تقویم کا آغاز کیا، دیوان (سرکاری رجسٹر) قائم کیا، پنشن کا نظام متعارف کرایا، سڑکیں اور نہریں تعمیر کروائیں، مختلف علاقوں میں قاضی مقرر کیے اور بیت المال (عوامی خزانہ) کی بنیاد رکھی۔ آپؓ نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی انصاف کا برتاؤ یقینی بنایا، انہیں تحفظ دیا اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی عطا کی۔
آپؓ کی حکمرانی اتنی مثالی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ابن ماجہ، حدیث 106”بے شک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق رکھ دیا ہے۔”
متعدد مواقع پر قرآن کی آیات حضرت عمرؓ کی رائے کے مطابق نازل ہوئیں۔ مثلاً بدر کے قیدیوں کے بارے میں، پردے کے حکم کے بارے میں، اور شراب کی حرمت کے سلسلے میں۔ ان مواقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بخاری، حدیث 402 ”اللہ اور اس کا رسول عمر سے متفق ہیں۔”
اپنے بلند مرتبے اور عظیم کارناموں کے باوجود حضرت عمر فاروقؓ نے زاہدانہ زندگی گزاری۔ آپؓ موٹے کپڑے پہنتے، سادہ کھانا کھاتے اور کبھی عام لوگوں سے فاصلے پر نہ رہے۔ ایک موقع پر جب ایک شخص نے آپؓ سے آپ کی قمیص کی لمبائی کے بارے میں سوال کیا تو آپؓ نے اس معاملے کو عوام کے سامنے کھول کر بیان کیا، جو آپؓ کی شفاف اور جوابدہ حکمرانی کا روشن ثبوت ہے۔ آپؓ صرف حکمران نہ تھے بلکہ عوام کے خادم تھے، اور ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہتے کہ کہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ یہ نہ پوچھ لے کہ تمہاری رعایا میں سے کوئی ایک شخص بھی بھوکا کیوں سویا۔
آپؓ نے قرآن مجید کی اس ہدایت کے عین مطابق حکمرانی کی:
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن کے حقداروں تک پہنچاؤ، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔
(سورۃ النساء، 4:58)
حضرت عمرؓ نے اس آیت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا، اور ایک وسیع و عریض اور متنوع سلطنت کے سچے امانت دار کی حیثیت سے زندگی گزاری۔
جب ہم تاریخ کی روشنی میں حضرت عمرؓ کی زندگی کو دیکھتے ہیں، تو آج کے مسلم دنیا کے حالات خود بخود ہمارے ذہن میں اُبھر آتے ہیں۔ اندرونی خلفشار، بیرونی دباؤ، معاشی بحرانوں اور سیاسی انتشار میں گھری ہوئی مسلم اُمت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ ایسے حالات میں اسلامی دنیا کے رہنماؤں کو حضرت عمر فاروقؓ کو صرف ایک تاریخی شخصیت نہیں بلکہ الٰہی رہنمائی پر مبنی قیادت کے نمونے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اُنہیں حضرت عمرؓ کی فراست، بصیرت، جرا?ت اور سب سے بڑھ کر اللہ پر غیر متزلزل توکل کو اپنانا چاہیے۔ یہ اوصاف محض نظریاتی تصورات نہیں، بلکہ آج کی مسلم اقوام کو تقسیم، انحصار اور شکست خوردگی کے شکنجوں سے نکالنے کے لیے ناگزیر ہتھیار ہیں۔
اگر آج کے مسلم رہنما حضرت عمرؓ کی صفات کا صرف ایک حصہ بھی اپنا لیں، تو وہ نئی طاقت اور مقصد سے سرشار ہو سکتے ہیں۔ ان کا اللہ پر توکل کوئی ساکت جذبہ نہ تھا—بلکہ متحرک، جری اور عمل، مشاورت (شوریٰ) اور عدل سے جُڑا ہوا تھا۔ ان کی جرا?ت غرور نہیں تھی—بلکہ اصولوں پر مبنی اور احتساب کے دائرے میں محدود تھی۔ ان کی دوراندیشی چالاکی نہیں تھی—بلکہ اخلاص اور ایثار پر مبنی تھی۔ صرف ایسے کردار کے ذریعے ہی آج کے رہنما اس دور کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اسلامی دنیا کی وہ عظمت دوبارہ حاصل کرنے کی امید رکھ سکتے ہیں، جو کبھی اس کا شعار تھی۔
حضرت عمرؓ کی شہادت یکم محرم کو اس وقت ہوئی جب وہ مسجدِ نبوی میں فجر کی نماز کی امامت کر رہے تھے، اور ایک فارسی غلام ابو لولوہ فیروز نے حملہ کر کے آپؓ کو زخمی کیا۔ ان آخری لمحات میں بھی آپؓ کے دل میں انتقام یا غصے کا کوئی جذبہ نہ تھا، بلکہ صرف عدل اور خلافت کی پرامن منتقلی کی فکر تھی۔ آپؓ کا مدفن رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں مسجدِ نبوی کے مقدس حجرے میں ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ آپؓ کو زندگی اور موت دونوں میں نبی کریم ﷺ سے قرب حاصل تھا۔
حضرت عمرؓ نہ صرف ایک عظیم اور عادل اسلامی ریاست کے معمار تھے، بلکہ وہ ان تمام اصولوں کا عملی پیکر تھے جنہیں اسلام نے ہمیشہ بلند مقام دیا ہے—عدل، انکساری، تقویٰ، نظم و ضبط اور خدمت خلق۔ جیسے جیسے دنیا پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے، اُن کے اصولوں کو قیادت میں یاد رکھنا اور زندہ کرنا محض تعظیم کا تقاضا نہیں بلکہ وقت کی شدید ضرورت ہے۔ ان کی زندگی اور شہادت حکمرانوں اور عوام دونوں کے لیے ایک لازوال سبق ہے کہ حقیقی طاقت زمینوں پر قبضے میں نہیں، بلکہ اللہ کی نگرانی میں انسانیت کی خدمت میں ہے۔


روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسرائیل کی غزہ میں دہشت گردی بڑھ گئی، امداد کے متلاشی 80 فلسطینی شہید ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد… دنیا کے امتحان کا نیا دور طاقت سے امن یا امن کے بغیر طاقت؟ میزانیہ اور زائچہ مصنف فرمان علی چوہدری عجمی سوشل میڈیا کا عروج اور معاشرتی زوال جھوٹے دیو قامتوں کا زوال TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: حضرت عمر فاروق

پڑھیں:

دور ہوتی خوابوں کی سرزمین

امریکا جسے برسوں سے لوگ خوابوں کی سرزمین کہتے ہیں، اس سرزمین پر ایک نیا حکم جاری ہوا ہے، ایچ ون بی ویزا جو برسوں سے لاکھوں نوجوانوں کے خوابوں کی ڈور بنا ہوا تھا، اب ایک نئی شرط کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ ہر نئی درخواست کے ساتھ کمپنیوں کو ایک لاکھ ڈالر جمع کرانا ہوگا۔

بعد میں وضاحت آئی کہ یہ صرف نئی درخواستوں پر لاگو ہوگا مگر خبرکا صدمہ اتنا بڑا تھا کہ ہزاروں گھروں میں بیٹھے طلبہ ان کے والدین اور وہ ادارے جو اس ویزے پر انحصارکرتے ہیں، سب کو ایک لمحے کے لیے لگا جیسے مستقبل تاریک ہوگیا ہو، جیسے خواب ٹوٹ گئے ہوں۔

امریکا کی طاقت اس کی فوجی برتری یا اسلحہ خانوں میں نہیں بلکہ ان یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں ہے جنھوں نے دنیا کے ذہین ترین دماغوں کو اپنی طرف کھینچا۔ ایک پاکستانی نوجوان، ایک بھارتی انجینئر، ایک ایرانی سائنسدان یا ایک افریقی ڈاکٹر یہ سب امریکا کی لیبارٹریوں اور کمپنیوں میں اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دیتے رہے۔ یہ ایک ایسی گردش تھی جسے دنیا نے برین ڈرین کہا اور امریکا نے اس ڈرین کو اپنی طاقت میں بدل لیا۔ مگر آج جب ٹرمپ جیسے حکمران امریکی نوکریاں صرف امریکیوں کے لیے کا نعرہ لگاتے ہیں تو یہ سوچنا بھول جاتے ہیں کہ ان نوکریوں کو پیدا کرنے والے دماغ کہاں سے آتے ہیں۔

یہ فیصلہ محض ایک ویزا پالیسی نہیں بلکہ ایک بڑا اور اہم سوال ہے۔ کیا امریکا اپنے گرد حصار اونچے کر کے خود کو محفوظ کر لے گا یا اپنی کھڑکیاں بند کر کے خود اپنا دم گھونٹ دے گا؟ جب عالمی طلبہ امریکا کا رُخ کم کریں گے، جب یونیورسٹیوں کی کلاسیں خالی ہونے لگیں گی اور جب ریسرچ پروجیکٹس فنڈنگ کے بوجھ تلے دبیں گے تو نقصان صرف ان نوجوانوں کو نہیں ہوگا، جو امریکا کا خواب دیکھتے ہیں بلکہ خود امریکا کے لیے یہ ایک پیچھے کی سمت کا سفر ہوگا۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکی یونیورسٹیاں صرف تعلیم کا مرکز نہیں بلکہ ایک بڑی صنعت بھی ہیں۔ نجی یونیورسٹیاں لاکھوں ڈالر کی فیسوں پر چلتی ہیں، اگر بین الاقوامی طلبہ کا رخ مڑ جائے اگر ان کے والدین یہ سوچنے لگیں کہ اتنی بھاری فیسیں دے کر بھی نوکری نہیں ملے گی تو ان اداروں کے مالی ڈھانچے لرزنے لگیں گے اور یہاں میرا دل یہ سوچ کر لرزتا ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں کئی تعلیمی ادارے یا کارخانے وقت کے ساتھ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بدل گئے کہیں امریکا میں بھی ایسا نہ ہو۔ کہیں یہ علمی مراکز جو انسانیت کی سب سے بڑی کامیابی ہیں، سرمایہ دارانہ لالچ کے ہاتھوں صرف زمین اور کنکریٹ کی سوداگر منڈیوں میں نہ بدل جائیں۔

 سرمایہ داری کا یہ جبر نیا نہیں، وہ ہر بحران کو موقع بنا لیتی ہے یہاں بھی یہی ہوگا، ایک طرف حکومت کہے گی کہ امریکیوں کے لیے نوکریاں بچا رہے ہیں اور دوسری طرف کارپوریٹ کمپنیاں نئے ماڈلز تلاش کریں گی۔ وہ اپنے منافع کو بچانے کے لیے نئی راہیں نکالیں گی، چاہے اس کے لیے ریسرچ کے منصوبے کاٹنے پڑیں یا سستی محنت والے ممالک میں پورے پورے شعبے منتقل کرنے پڑیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس نوکری کے تحفظ کے نام پر یہ پالیسی لائی گئی ہے وہی نوکریاں دراصل غائب ہونا شروع ہو جائیں گی۔

ہماری دنیا کی خوبصورتی اس میں ہے کہ علم اور ہنر کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ جب سرحدیں اونچی ہو جاتی ہیں تو علم کے دریا اپنا رُخ بدل لیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کئی ممالک جو کبھی صرف امریکا کو دیکھتے تھے اب یورپ، کینیڈا یا ایشیائی مراکز کی طرف متوجہ ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب برین ڈرین کا رُخ پلٹ سکتا ہے۔ امریکا جس نے برسوں تک دنیا کے بہترین دماغوں کو اپنی طرف کھینچا وہ خود اپنے ہاتھوں سے ان کو واپس دھکیل سکتا ہے۔

پاکستان جیسے ملکوں کے لیے یہ صورتحال ایک دوہرا امتحان ہے۔ یہاں لاکھوں نوجوان دن رات یہ سوچتے ہیں کہ اگر امریکا کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے تو ان کی زندگی بدل جائے گی۔ وہ اپنے والدین کا سہارا بن سکیں گے ، اپنے سماج کو بہتر بنانے کے خواب دیکھ سکیں گے۔ مگر جب خبر آتی ہے کہ لاکھ ڈالرکی شرط لگا دی گئی ہے تو یہ خواب ایک لمحے میں چکناچور ہو جاتے ہیں۔ ان گھروں میں مایوسی اترتی ہے جہاں والدین نے زیور بیچ کر بچوں کی فیس جمع کی ہوتی ہے۔ ان گلیوں میں خاموشی پھیلتی ہے جہاں نوجوان اپنے سفری کاغذات کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔

یہ صرف امریکا کا امتحان نہیں بلکہ ہماری دنیا کے نوجوانوں کا بھی ہے۔ یہ نوجوان اپنی محنت اپنی ذہانت اور اپنے خوابوں کو بیچنے نہیں بلکہ بانٹنے کے لیے نکلتے ہیں۔ مگر جب ان کے راستے بند کردیے جائیں تو وہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنے ہی ملک میں رہ کر کسی اور راستے کی تلاش کریں۔

یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہوگا ہم کب تک اپنے بہترین دماغوں کو اس امید پر پالیں گے کہ وہ ایک دن کسی اور ملک کے لیے روشنی بنیں گے؟ اور جب وہ راستہ بند ہو جائے تو کیا ہم اپنے ملک میں ان کے خوابوں کے لیے جگہ بنا سکیں گے؟

 یہی وہ سوال ہے جو ہر ترقی پذیر ملک کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ امریکا نے اپنی پالیسی سے ہمارے نوجوانوں کو ایک پیغام دیا ہے ’’ہمیں تمہاری محنت نہیں چاہیے۔‘‘ اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم انھیں یہ پیغام دیں ہمیں تمہاری محنت تمہارا خواب اور تمہارا مستقبل سب چاہیے، اگر ہم یہ موقع نہ لیں تو یہ نوجوان نہ امریکا کے رہیں گے اور نہ اپنے۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اصل طاقت دیواریں نہیں بلکہ انسانوں کے درمیان پُل ہیں۔ ٹرمپ کے اس نئے حکم نے شاید وقتی طور پر ایک طبقے کو خوش کر دیا ہو مگر یہ خوشی عارضی ہے۔ آنے والے برسوں میں جب امریکا کی یونیورسٹیاں اپنا بین الاقوامی رنگ کھو دیں گی اور جب امریکی کمپنیاں اپنے منصوبے سست روی کا شکار دیکھیں گی تو تب سمجھ میں آئے گا کہ ایک لاکھ ڈالرکا یہ مطالبہ کتنا مہنگا ثابت ہوا۔ علم، تحقیق اور خواب یہ وہ چیزیں ہیں جو کبھی پیسوں سے نہیں تولی جا سکتیں اور جب کوئی قوم انھیں پیسے سے تولتی ہے تو وہ دراصل اپنے مستقبل پر قفل ڈالتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حیدرآباد: پاکستان تحریک انصاف سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ کا حیدرآباد پہنچنے پر استقبال کیاجارہاہے
  • شہادت جہاد کا ثمر اور ملی ارتقا کا ذریعہ ہے، حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای
  • اترپردیش میں حضرت پیغمبر اسلام (ص) کی شان میں گستاخی، علاقے میں کشیدگی
  • حضرت بابا شاہ جمال قادریؒ کاسالانہ عرس کل سےشروع ہوگا
  • جموں و کشمیر میں حکومت کے تمام اختیارات لیفٹننٹ گورنر کے ہاتھ میں ہیں، فاروق عبداللہ
  • ’کیا پاکستان کا کوئی ادارہ اس پروگرام کے خلاف ایکشن لینے کو تیار نہیں؟‘، لازوال عشق کے ٹریلر پر تہلکہ مچ گیا
  • حیدرآباد: نگینہ مسجد میں محفل حسن قرآت سے القاری عادل الدیب حفیظ اللہ ودیگر خطاب کررہے ہیں
  • دور ہوتی خوابوں کی سرزمین
  • فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا خوش آئند قدم ہے، محمد عمر فاروق
  • سعودی عرب کے 94ویں یوم الوطنی پر صدرمسلم لیگ ن مدینہ جادید اقبال بٹ کا تہنیتی پیغام، پاک-سعودی دوستی کو لازوال قرار