محرم کی حساسیت اور اسرائیل کی ممکنہ شرارت
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
اسلامی تاریخ کا نیا سال محرم الحرام سے شروع ہوتا، یوں رواں اسلامی سال 1446ھ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے اور نیا اسلامی سال شروع ہوا چاہتا ہے۔ محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے یعنی محرم الحرام سے ہجری سال کا آغاز اور ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ یہ ماہ مقدس ان چارمہینوں میں سے ایک ہے جنھیں حرمت والے مہینہ قرار دیا گیا ہے۔
محرم الحرام کو حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ ماہِ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا رمضان کے بعد بہترین روزہ محرم کا روزہ ہے اور فرض نماز کے بعد بہترین نماز تہجد کی نماز ہے۔ (مسلم شریف، ریاض الصالحین)۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ محرم کی دسویں تاریخ کو خود بھی روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔(بخاری ومسلم)
محرم الحرام کی تاریخی اہمیت مسلم ہے احادیث وروایات اور آثار سے اس کے فضائل و برکات ثابت ہیں۔ روایات کی روشنی میں اسی محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی۔ یوم عاشورا ہی کو جنت پیدا فرمائی۔ یوم عاشورا ہی کو سفینہ نوح جودی پہاڑ پر ٹھہرایا۔ یوم عاشورا ہی کو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم نے فرعون سے نجات حاصل کی اور اللہ نے فرعون اوراس کے لشکر کو غرق کیا۔
ایک طرف محرم فضائل وبرکات کا مہینہ ہے تو اسی کے ساتھ اس مہینہ سے بہت سے دردناک تاریخی حوادث و واقعات وابستہ ہیں جن کی کرب ناکی سے امت مسلمہ کا ہر فرد بے چین ومضطرب ہوجاتاہے اور تاریخ اسلام کا صفحہ محرم الحرام خلیفہ ثانی امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لے کر مظلومان کربلانواسہ رسول، جگر گوشہ بتول سیدنا حسین ابن علی اور ان کے جانثاروں رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لہو سے تربتر نظر آتا ہے۔
اسلامی تاریخ کے عظیم انسان، عبقری شخصیت، بے مثال حکمراںاور قائد، پیغمبراسلام حضرت محمدﷺ کے جاں نثار صحابی،امیر المومنین،خلیفہ ثانی، عدل وانصاف، حق گوئی وبے باکی کے پیکر مجسم حضرت عمر فاروقؓ کی حیات اسلام کے لیے ایک عظیم نعمت رہی، اور آپ کے اسلام کے لیے خود نبی کریم ﷺ نے دعامانگی، آپ کے قبول اسلام کے ذریعے کمزور مسلمانوں کو ایک حوصلہ ملا اور خود رسولﷺ کو ایک بے مثال رفیق وہمدرد نصیب ہوا، بلاشبہ سیدنا عمر فاروقؓ کی ذاتِ گرامی سے اسلام کو اور مسلمانوں کو بہت کچھ فیض پہنچا،اور آپؓ کی زندگی اسلام لانے کے بعد پوری اسلام کے لیے وقف تھی، آپ نے بہت سی اصلاحات دین کے مختلف شعبوں میں فرمائیں، اور ایک ایسا نظام دنیا کے سامنے پیش کیا کہ دنیا والے اس کی نہ صرف داد دینے پر مجبور ہوئے بلکہ اس کو اختیار کر کے اپنے اپنے ملکوں اور ریاستوں کے نظام کو بھی درست کیا اور بعض تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر دنیا کا نظام سنبھالنا ہو تو ابو بکر و عمر کو اپنا آئیڈیل بنایا جائے۔
مراد رسول اللہﷺ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تقویٰ و پرہیز گاری، خلو ص و للہیت، سادگی و بے نفسی، انکساری اور عاجزی بے شمار خوبیوں سے اللہ تعالی نے نوازا تھا، دنیا کے نظام کو چلانے اور انسانوں کی بہتر انداز میں خدمت کرنے کا خاص ملکہ عطافرمایا تھا، جن کے ذریعہ اسلام دنیا کے دور دراز علاقوں میں پھیلا، اور اطراف عالم تک پہنچا، جن کی عظمت اور شوکت کا رعب دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو تھا اور بڑی بڑی سلطنتیں جن کے نام سے تھراتی تھیں، ایسے عظیم انسان کے دل میں اللہ تعالی نے انسانیت کی خدمت، رعایا کی خبر گیری، مخلوق خدا کے احوال سے واقفیت کا عجیب جذبہ رکھا تھا۔ راتوں کی تنہائیوں میں لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور ان کے حال سے آگاہ ہونے کے لیے گشت کرنا، ہر ضرورت مند کے کام آنا اور ان کی خدمت انجام دینے کی کوشش میں لگے رہنا آپ کا امتیازتھا، آپ کی مبارک زندگی کے ان گنت پہلو اور گوشے ہیں اور ہر پہلو انسانیت کے لیے سبق اور پیغام لیے ہوئے ہے۔ نبی کریمﷺ نے اس رفیقِ خاص کے بہت سے فضائل بیان کیے اور ان کی عظمتوں کو اجاگر کیا۔
یکم محرم شہادت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لے کر دس محرم شہادت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پورے ملک میں عالم اسلام کی ان مقدس ہستیوں کے ایام منائے جاتے ہیں، ہر مسلمان اپنے اپنے عقیدے اور روایات کے مطابق تقاریب کا اہتمام کرتا ہے اور اسلام کے ان محسنوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ اس سال یہ دن ایسے وقت میں آرہے ہیں جب امریکا اور مغرب کا ناجائز بغل بچہ اور سند یافتہ دہشت گرد صیہونی ریاست اسرائیل سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتح کیے ہوئے ایران پر حملہ آور ہے۔ گوکہ لمحہ موجود تک ایران نے صیہونی ریاست کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں اور ہر وہ منظر دنیا کو اسرائیل میں دکھا دیا ہے جو اس صیہونی ریاست نے فلسطین میں دنیا کو دکھایا تھا۔
اس سے پہلے دنیا نے سات دہائیوں سے اسرائیل کے مظالم کا شکار اہل فلسطین کی آہ و بکا اور چیخ و پکار سنی تھیں، لیکن اب کی بار اسرائیلیوں کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔ صیہونی ریاست کے حکمران اپنے گروگھنٹال اور سرپرست امریکا کو مدد کے لیے دہائیاں دے رہا ہے، اور طاقت کے نشے میں بد مست امریکا کے غیر متوازن صدر سے کوئی بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ لگتا ہے چند کو چھوڑ کر اسلامی ممالک پہلی باراسرائیل کے خلاف متحد اور منظم ہو رہے ہیں۔
اسرائیل ایران کے ہاتھوں پٹائی کے بعد جس طرح دھول چاٹ اور ہاتھ پاؤں مار رہا ہے وہ اور ان کا آقا امریکا آرام سے نہیں بیٹھے گا، کیونکہ یہودیوں کی سرشت میں چین سے زندگی گزارنا ہے ہی نہیں، اور مغرب سے اسلام دشمنی کی عادت جاتی نہیں، جس قوم نے اپنے وقت کے کسی نبی کو معاف نہیں کیا، سیکڑوں انبیاء کو اذیتیں دیں وہ آج کے مسلمانوں کو کیسے معاف کرے گی۔ اس لیے ہمیں محرم میں خاص طور پر اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔ دشمن ہمارے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی پوری کوشش کرے گا، مذہب کے نام پر فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دے گا، ہمیں لڑانے کی کوشش کرے گا۔ اس لیے اس بار محرم کی حساسیت کو حکومت،ریاستی سیکیورٹی ادارے، انٹیلی جنس ایجنسیاں،قانون نافذ کرنے والے ادارے، علماء کرام اور عوام الناس، سب کو چوکنا رہنا ہوگا۔ شرپسندوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ حکومت پیغام پاکستان کے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
یہ ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے جس پر تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام کے دستخط موجود ہیں، یہ دستاویز حقیقت میں امن کا روڈ میپ ہے۔ حکومت زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائے جہاں سے تعصب، نفرت اور توہین کا ارتکاب کرنے کی اطلاع آئے ملزموں کوفوری طور پر گرفتار کرکے ان کے خلاف اسپیڈی ٹرائل کیے جائیں اور انھیں نشان عبرت بنا دیا جائے تاکہ آیندہ کسی کو یہ گھناؤنا کھیل کھیلنے کی جرات نہ ہو۔
آخر میں پوری قوم کو مبارکباد، جس طرح اسلامی سال کا اختتام اللہ رب العزت نے ہندوستان کی ذلت آمیز شکست اور پاکستان کی تاریخی فتح سے شاندار بنایا بالکل اس طرح اللہ کریم یہ سال پوری امت کی سربلندی، فتح اور یہود و نصاریٰ کی ذلت اور شکست کا سال ہو۔ آمین ثمہ آمین یا رب العالمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عمر فاروق رضی اللہ تعالی سیدنا عمر فاروق صیہونی ریاست محرم الحرام اسلامی سال اسلام کے محرم کی اور ان کے لیے ہے اور سال کا کے بعد
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ میں طاقت کا توازن
اسلام ٹائمز: اسلامی جمہوریہ ایران کا ردعمل دیکھ کر دوستوں کے دل تو ٹھنڈے ہوئے مگر دشمن حیران و پریشان ہوگئے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں؟ اور یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ وہ آگ جس کو وہ تہران، قم اور مشہد میں دیکھنا چاہتے تھے وہ ان کے گھروں میں لگی ہوئی تھی اور وہ جو بے چینی پیدا کرنا چاہتے تھے وہ بیت المقدس میں امریکی سفیر کو رات میں پانچ بار پناہ لینے پر مجبور ہو کر لینی پڑ رہی تھی۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
کچھ دوست یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ چند سنجیدہ لوگوں نے ایران اور اسرائیل جنگ کے حوالے سے استطاعت کی شرط کے موجود ہونے نہ ہونے کی بات کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ایران کے پاس امریکہ اور اسرائیل سے لڑنے کے حوالے اسے استطاعت نہیں ہے اس لیے صلح کر لینی چاہیئے۔ انہیں جواب دیا گیا کہ اگر آپ لوگ نبی رحمتﷺ کے زمانے میں ہوتے تو جنگ بدر میں نبی اکرمﷺ کو بھی اپنی عقل کے مطابق ہی مشورے دیتے اور طاقت کے توازن کی بنیاد پر لڑائی کے فیصلے کا سوچتے۔ میں نے عرض کیا کہ ضروری نہیں اس طرح کی بات کرنے والا ہر شخص دشمن ہو یا دشمن کی زبان بول رہا ہو۔ کچھ لوگ اپنی سادگی کی وجہ سے ایسی بات کرتے ہیں جس میں اپنے خیال کو حقیقت فرض کر لیتے ہیں۔
اپنے خیال کو ہی حقیقت فرض کرنے کے بعد فکری نتائج ایسے ہی نکلتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی طرف سے حمایت ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان لوگوں کے پاس اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت اور قدرت کی کوئی مصدقہ اطلاعات ہی نہیں، یہ لوگ ایران کو پابندیوں میں جکڑا پسماندہ ملک سمجھتے ہیں۔ ان کی غالب اکثریت پہلے جنگی حملے کے بعد مایوسی میں چلی گئی تھی کہ اب کیا ہو جائے گا؟ یہ لوگ ایران کو مغربی میڈیا سے متاثر ہو کر عراق اور لیبیا پر قیاس کر رہے تھے۔انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ایران کے نظام کی طاقت ہی ایران کی انقلابی عوام ہے اور دوسرا ایرانی کئی ہزار سالہ تاریخ رکھنے والی قوم ہیں جو اس پر فخر کرتی ہیں۔ایسے مواقع پر قوموں کا اجتماعی شعور بہت اہم ہوتا ہے۔
جب سپاہ پاسداران نے میزائل فائر کرنا شروع کیے اور اسرائیل میں تباہی ہونے لگی تو دنیا کی رائے بدلنے لگی کہ نہیں ایران کے پاس بھی طاقت و استطاعت ہے۔جیسے جیسے دن گزرتے گئے لوگوں کی آنکھیں کھلتی گئیں کہ سپاہ پاسداران نے خوب تیاری کر رکھی ہے۔ ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی جسے جتنی بار دیکھا ایمان تازہ ہوا، اس میں سپاہ کے میزائل کے ساتھ محفل انس با قرآن برپا ہو رہی ہے اور سب پاسداران مل کر بڑی خوبصورتی سے قرآن مجید کی اس آیہ مجیدہ کی تلاوت کر رہے ہیں: وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (سورہ انفال ۶۰)۔ ترجمہ: اور ان (کفار) کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو (مستعد) رکھو تاکہ تم اس سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں نیز دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور راہ خدا میں جو کچھ تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم پر زیادتی نہ ہوگی۔
وہ قوم جسے ایک مدت سے علم ہے کہ ہم کسی بھی وقت اسرائیلی اور امریکی بربریت کا نشانہ بن سکتے ہیں وہ کیسے اپنے دفاع سے غافل ہو سکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی حکمت عملی حملے روکنے سے زیادہ حملے کرنے کے ذریعے دباؤ پیدا کرنے پر مشتمل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے دن تک دنیا کا کوئی دفاعی نظام مکمل طور پر میزائلوں کو نہیں روک سکتا۔ اگر روک سکتا ہوتا تو آج تل ابیت اور حیفہ مٹی کے ڈھیر میں تبدیل نہ ہو چکے ہوتے۔ اسرائیل کو امریکہ اور پورے یورپ کی فوجی مدد حاصل ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ اسے مل جاتا ہے پیسے بھی امریکی ٹیکس دہندگان کے اکاونٹ سے کٹتے ہیں۔ اسرائیل کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہاں موجود آباد کار بم اور دھواں دیکھنے کے لیے نہیں آئے بلکے انہیں بہترین ماحول اور پرآسائش زندگی کے لیے لایا گیا ہے۔
جیسے جیسے دن گزر رہے تھے اور ایرانی میزائل مزید تباہی مچا رہے تھے۔ اسرائیل کے ہاتھ پاوں پھول رہے تھے، اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ بحری جہازوں سے اسرائیلی فرار اختیار کر رہے تھے۔ پناہ گاہوں میں لڑائیاں ہو رہی تھیں۔ ایک بار آپ اے سی والے آفس میں بیٹھ کر استطاعت کی بحث صرف ذہبی ورزش کے لیے کرتے ہیں اور دوسری طرف میدان جنگ کے مجاہدین اپنے میزائلوں کے پاس بیٹھ کر قرآن مجید کی یہ آیت مجیدہ پڑھتے ہیں کہ پلے ہوئے گھوڑوں کو مستعد رکھو تو انہیں نے اس دورے کے گھوڑے مستعد رکھے ہوئے تھے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا ردعمل دیکھ کر دوستوں کے دل تو ٹھنڈے ہوئے مگر دشمن حیران و پریشان ہوگئے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں؟ اور یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ وہ آگ جس کو وہ تہران، قم اور مشہد میں دیکھنا چاہتے تھے وہ ان کے گھروں میں لگی ہوئی تھی اور وہ جو بے چینی پیدا کرنا چاہتے تھے وہ بیت المقدس میں امریکی سفیر کو رات میں پانچ بار پناہ لینے پر مجبور ہو کر لینی پڑ رہی تھی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (بقرہ ۲۵۸)۔ ترجمہ: کیا آپ نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں اس بنا پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے اقتدار دے رکھا تھا؟ جب ابراہیم نے کہا: میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو اس نے کہا: زندگی اور موت دینا میرے اختیار میں (بھی) ہے، ابراہیم نے کہا کہ اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا، یہ سن کر وہ کافر مبہوت رہ گیا اور اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔
جس طرح حضرت ابراہیمؑ کے جواب سے نمرود مبہوت ہوگیا تھا بالکل آج کے دشمنان اسلام بھی اسی طرح مبہوت ہوگئے تھے۔ یہ تو چند دن کی جنگ تھی اور بہت جلد پانسہ پلٹ دیا گیا۔ اللہ نے اپنے لشکر کی مدد فرمائی اور اسے عزت دی۔اگر معاملہ لمبا بھی ہو جائے تو بھی گھبرانا نہیں ہے۔ اللہ کی مدد و نصرت پر پکا یقین رکھنا چاہیئے۔ قرآن مجید نے اسے بڑی خوبصورتی سے بیان فرمایا ہے: أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۖ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (بقرہ ۲۱۴)۔ ترجمہ: کیا تم خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے؟ انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ (انہیں بشارت دے دی گئی کہ) دیکھو اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے۔
یہ بہت ہی بامعنی اور آج کے حالات میں مکمل رہنمائی فراہم کرتی آیت ہے۔ اگر امتحان کچھ طویل ہو جائے اور کفر و نفاق بظاہر کچھ غالب بھی آنے لگے تو پریشان نہیں ہونا۔ اللہ کی نصرت جلد پہنچ جاتی ہے۔ اللہ سے مدد اور نصرت کے جلدی بھیجنے کی دعا ضرور کرتے رہنا چاہیئے اور ہر صورت میں پرامین رہنا چاہیئے۔ ایران نے اسرائیل سے جنگ کی کس قدر تیاری کی ہوئی تھی؟ اس کا اندازہ موجودہ جنگ کے تیسرے دن ہی ہوگیا تھا جب امریکہ براہ راست مقابلے کے لیے پر تولنے لگا تھا۔ ایک ہفتے بعد ہی امریکی شمولیت نے بتا دیا کہ اسرائیل کی اتنی طاقت ہی نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران سے دو ہفتے براہ راست لڑ سکے۔ جب اللہ پر یقین کرتے ہوئے جنگ میں شامل ہوں گے اور دل جما کر لڑیں گے تو میدان آپ کا ہوگا۔ وہاں کب ناکامی ہو سکتی ہے جب کام کا آغاز ہی فاتح خیبر کے نام سے کیا جا رہا ہو۔ مقام معظم رہبری کا ٹویٹ ہی ایمان کی تازگی کے لیے کافی تھا لکھا تھا: حیدرِ کرارؑ کے مبارک نام سے جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ علیؑ اپنی تلوار "ذوالفقار" کے ساتھ خیبر کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔