خیبر پختونخوا کے سیاحتی ضلع سوات میں سیاح دریائے سوات میں سیلابی ریلے میں پھنس کر ایک گھنٹہ 30 منٹ تک مدد کے لیے پکارتے رہے لیکن انہیں بچانے کے لیے کچھ نہ کیا جا سکا۔

یہ بھی پڑھیں: سوات میں المناک واقعہ، 17 افراد دریا میں بہہ گئے، 9 نعشیں نکال لی گئیں

سوات میں سیاحوں کے دریا میں پھنسنے، امداد کی فراہمی کے لیے طویل انتظار کرنے اور بالآخر جان گنوادینے کا 3 برسوں میں یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس کے باوجود حکومت کے پاس ایسے حالات میں ریسکیو کے لیے اب تک کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں ہے۔

کوہستان واقعہ کب پیش آیا تھا؟

سوات کے حالیہ واقعے پر بات کرنے سے پہلے یہاں اگست 2022 میں کوہستان میں پیش آنے والے اس افسوسناک واقعے کا مختصر تذکرہ ضروری ہے۔ اس واقعے کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں 5 افراد کو دریا کے بیچوں بیچ پھنسے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا جبکہ ان کے بے بس اہلخانہ انہیں بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔

وہ افراد 5 گھنٹے سے زیادہ دیر تک وہیں پھنسے رہے لیکن حکومتی مشینری انہیں ریسکیو نہ کر سکی۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعے کارروائی کا اعلان تو کیا گیا لیکن وہ صرف زبانی جمع خرچ نکلا اور اس پر عمل نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں 4 افراد دریا میں بہہ کر جاں بحق ہو گئے۔

مزید پڑھیے: دریائے سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کا واقعہ، انکوائری کمیٹی تشکیل، میڈیکل ایمرجنسی نافذ

اب تقریباً 3 سال بعد آج ایک اور بڑا واقعہ پیش آچکا ہے۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ کوہستان کے مقابلے میں سوات ایک معروف سیاحتی مقام ہے اور یہ واقعہ مینگورہ شہر کے قریب پیش آیا لیکن اس کے باوجود قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا جا سکا۔

’ایسے واقعات میں ریسکیو کے لیے حکومت تیار نہیں ہوتی‘

سوات کے سینیئر صحافی فیاض ظفر کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے جس نے نہ بروقت اقدامات کیے اور نہ ہی بروقت ریسکیو ٹیمیں پہنچ سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ عینی شاہدین کے مطابق ریسکیو کا عمل اس وقت شروع کیا گیا جب تمام افراد ڈوب چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سب بے بس تھے اور کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سیاحوں کو کیسے بچایا جائے۔

مزید پڑھیں: سوات میں المناک واقعہ، 17 افراد دریا میں بہہ گئے، 9 نعشیں نکال لی گئیں

فیاض ظفر کے مطابق سوات میں اس روز بارشیں ہو رہی تھیں اور دفعہ 144 بھی نافذ تھی لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرایا گیا اور نہ ہی حکومت یا مقامی انتظامیہ نے کسی قسم کی پیشگی تیاری کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم مسلسل فون کر رہے تھے کہ ریسکیو ٹیمیں آئیں اور لوگوں کو بچائیں لیکن جب وہ تاخیر سے پہنچے تو ان کے پاس ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے مناسب وسائل نہیں تھے، ان کے پاس صرف ٹیوب تھیں جو ناکافی ثابت ہوئیں۔

حکومت کے دعوے اور زمینی حقیقت

حکومتی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے پشاور کے سینیئر صحافی عارف حیات کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت سنہ 2013 سے خیبر پختونخوا میں برسراقتدار ہے اور اس عرصے کے دوران ریسکیو 1122 کو وسعت دی گئی اور نئی گاڑیاں بھی خریدی گئیں لیکن اکثر انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

عارف حیات نے کہا کہ اسلام آباد مارچ کے دوران کئی ریسکیو اہلکار گرفتار ہوئے اور وہ سرکاری گاڑیاں تھانوں میں کھڑی ہیں۔

ان کے مطابق ایسے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہیلی ایمبولینس کا اعلان تو کیا ہے لیکن ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو کے لیے کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی گئی۔

یہ بھی پڑھیے: دریائے سوات میں ڈوبنے والے خاندان کے سربراہ نے حادثے سے متعلق کیا بتایا؟

عارف حیات نے کہا کہ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ اتنے سیاح ڈوب گئے اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے واقعات کے لیے ہیلی کاپٹر کے استعمال سے متعلق باقاعدہ پالیسی بنائے تاکہ بروقت امدادی کارروائی ممکن ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خیبرپختونخوا دریائے سوات سوات سوات میں حادثہ سوات میں سیاح ڈوب گئے سیاحوں کو حادثہ کوہستان حادثہ کوہستان کے 5 نوجوان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: خیبرپختونخوا دریائے سوات سوات سوات میں حادثہ سوات میں سیاح ڈوب گئے سیاحوں کو حادثہ کوہستان حادثہ کوہستان کے 5 نوجوان سوات میں سیاح دریائے سوات نے کہا کہ انہوں نے دریا میں کیا گیا کے لیے کے پاس

پڑھیں:

خیبر پختونخوا، 170 میں سے 14 سروسز کی ڈیجیٹلائزیشن مکمل

فائل فوٹو، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی

خیبر پختونخوا میں 170 میں سے 14 سروسز کی ڈیجیٹلائزیشن مکمل کرلی گئی۔

پشاور میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ اب تک 170سروسز کی نشاندہی کی جا چکی جنہیں ڈیجیٹل نظام میں شامل کیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کیخلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔

اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ 14 مختلف سروسز کی ڈیجیٹلائزیشن مکمل کرلی گئی ہے، جن میں انتقال جائیداد ٹیکس، جائیداد ٹیکس، اسلحہ لائسنس، ابیانہ، ڈرائیونگ لائسنس، پلاٹ رجسٹریشن، ایچ ای سی داخلہ اور ہنٹنگ لائسنس فیس وغیرہ شامل ہیں۔

بریفنگ میں مزید کہا گیا کہ مزید 34 سروسز کو دسمبر تک ڈیجیٹائز کیا جائے گا، جس سے 12 اعشاریہ 3 ارب روپےکی بچت متوقع ہے جبکہ جون 2026ء تک تمام 170 سروسز کی ڈیجیٹلائزیشن مکمل کرلی جائے گی۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ صوبے کے تمام امور کو بتدریج ڈیجیٹلائزیشن کی طرف لے جایا جا رہا ہے، ڈیجیٹل پیمنٹ ایکٹ تیار کرلیا گیا ہے، جلد کابینہ سے منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

سہیل آفریدی نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت، عوام اور تاجروں کے تمام ادائیگی کے معاملات ڈیجیٹل کیے جائیں گے، جس کا مقصد مالیاتی امور میں شفافیت اور آسان سہولت کو یقینی بنانا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈیجیٹلائزیشن کی پیشرفت کا جائزہ لینے کے لیے ہر 2 ہفتے بعد ریویو میٹنگ کی جائےگی، خیبر پختونخوا کو معاشی طور پر خودکفیل اور جدید طرزحکمرانی کی مثال بنائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا، 170 میں سے 14 سروسز کی ڈیجیٹلائزیشن مکمل
  • حکومتِ سندھ کی جانب سے ای چالان اور مزدور
  • کراچی ٹریفک حادثات
  • اے این پی کی خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنیکی ترمیم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں پیش
  • پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیاں روکنے پر زور
  • امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ کو امدادی فنڈز روکنے کی اجازت دیدی
  • خیبر پختونخوا حکومت کا 3 ایم پی او، 16 ایم پی او اور دفعہ 144 میں تبدیلی کا فیصلہ
  • خیبر پختونخوا حکومت کا 9 مئی واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ
  • خیبر پختونخوا حکومت کا امن جرگہ، کون کون سی جماعتیں شرکت کریں گی؟
  • 9 مئی، خیبر پختونخوا حکومت کا تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ