غزہ میں 3,77,000 فلسطینیوں کی گمشدگی: ایک ایسا بحران جسے دنیا نظرانداز کررہی ہے، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
یہ صرف اعداد و شمار نہیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو ملبے کے نیچے دفن ہوچکے ہیں، بھوک سے جاں بحق ہوچکے ہیں، یا بے گھری اور ہجرت کے عالم میں بغیر کسی ریکارڈ کے کھو چکے ہیں۔ یہ زبردست انسانی نقصان اسرائیل کے غزہ پر تباہ کن حملے کی شدت کو واضح کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کربلائے عصر غزہ میں 3,77,000 سے زائد فلسطینی لاپتہ ہیں، نہ وہ زندوں میں شمار ہوتے ہیں اور نہ ہی مردوں میں۔ یہ چونکا دینے والا اعداد و شمار اسرائیلی فوجی ڈیٹا پر مبنی ایک تجزیے سے سامنے آئے ہیں، جو جنگ کے آغاز کے بعد غزہ کی آبادی میں زبردست کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ جنگ سے قبل غزہ کی آبادی تقریباً 22 لاکھ تھی، مگر اب اندازہ لگایا گیا ہے کہ صرف 18.
افسوسناک یہ ہے کہ اس المیے کی بجائے مگر دنیا کا زیادہ تر فوکس صرف تصدیق شدہ اموات کی تعداد پر ہے، جبکہ اس سے کہیں بڑا سانحہ نظرانداز کیا جارہا ہے۔ یہ 3,77,000 لاپتہ افراد کوئی معمہ نہیں بلکہ ایک انتباہ ہیں۔ یہ ایک ایسی جنگی حکمت عملی کو بے نقاب کرتے ہیں جو فلسطینیوں کی جانوں کو بے وقعت سمجھتی ہے اور انہیں وجود سے ہی مٹا دینے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ صرف جنگ نہیں، بلکہ آبادی کے وجود کو مٹانے کی منظم کوشش ہے۔ اسرائیلی ناجائز ریاست کے ہاتھ لاکھوں فلسطینی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں، حالیہ تاریخ کی کم مدت میں اتنی بڑی تعداد میں جانوں کا ضیاع اس بات کیطرف اشارہ ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، نہ بچوں کا لحاظ کیا جارہا ہے نہ عورتوں کا، نہ بوڑھوں کا۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
پاکستان کا معاشی ترقی کا ماڈل ناکام ہو رہا ، غربت میں کمی کرنے میں معاون نہیں
لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 24 ستمبر 2025ء ) عالمی بینک کی رپورٹ "ریکلیمِنگ مومینٹم ٹوورڈز پراسپرٹی: پاکستان کی غربت، مساوات اور لچک کا جائزہ" میں مزید انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کی ابھرتی ہوئی متوسط طبقہ آبادی، جو کل آبادی کا 42.7 فیصد ہے، ''مکمل معاشی تحفظ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔‘‘ رپورٹ میں کہا گیا کہ متوسط طبقہ بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے جیسے کہ محفوظ نکاسیٔ آب، صاف پینے کا پانی، سستی توانائی اور رہائش، جو پاکستان میں "کمزور عوامی خدمات کی فراہمی" کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے 15 سے 24 سال کی عمر کے 37 فیصد نوجوان نہ تو ملازمت کر رہے ہیں اور نہ ہی تعلیم یا تربیت میں شامل ہیں، جس کی وجہ سے آبادی کا دباؤ اور مزدور منڈی کی طلب و رسد میں عدم توازن ہے۔(جاری ہے)
اس رپورٹ کو، جسے پاکستان کے متعدد میڈیا اداروں نے شائع کیا ہے، کے مطابق "پاکستان کا ترقیاتی ماڈل جس نے ابتدا میں غربت کم کرنے میں مدد دی تھی، اب ناکافی ثابت ہوا ہے، اور 2021-22 سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
‘‘ جب عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی اس ناکام ماڈل کی حمایت پر ذمہ داری کے بارے میں پوچھا گیا تو عالمی بینک کے سینئر ماہر معاشیات ٹوبیاس ہاک نے کہا کہ پاکستان نے کوئی ایک مخصوص معاشی ماڈل اختیار نہیں کیا جو عالمی بینک یا آئی ایم ایف نے مسلط کیا ہو۔ رپورٹ میں کہا گیا، ''پاکستان کا کبھی امید افزا غربت میں کمی کا سفر اب رک گیا ہے اور برسوں کی محنت سے حاصل کردہ کامیابیاں ضائع ہو رہی ہیں۔‘‘ پاکستان میں عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر بولورما آنگابازر نے کہا کہ بینک یہ جاننا چاہتا ہے کہ غربت کی شرح ماضی کی طرح تیزی سے کم کیوں نہیں ہو رہی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں معیشت اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہی۔ رپورٹ کے مطابق "حالیہ دھچکوں نے غربت کی شرح کو مالی سال 2023-24 میں بڑھا کر 25.3 فیصد تک پہنچا دیا ہے، جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے۔ صرف گزشتہ تین برسوں میں غربت کی شرح 7 فیصد بڑھ گئی ہے۔‘‘ رپورٹ نے پاکستان میں غربت کی دو مختلف شرحیں ظاہر کیں: قومی سطح پر غربت 25.3 فیصد ہے، جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے، لیکن بین الاقوامی غربت لائن کے مطابق یہ شرح 44.7 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ عالمی بینک کی غربت پر تحقیق کی ماہر کرسٹینا ویسر نے کہا کہ 2001 سے 2015 تک غربت میں اوسطاً سالانہ 3 فیصد کمی ہوئی، جو 2015-18 کے دوران کم ہو کر سالانہ صرف 1 فیصد رہ گئی۔ انہوں نے کہا کہ 2018 کے بعد مختلف دھچکوں، جن میں معاشی حالات کی خرابی شامل ہے، نے غربت میں اضافہ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2022 کے سیلاب سے غربت میں 5.1 فیصد اضافہ ہوا اور مزید 1.3 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ 2022-23 میں توانائی کی قیمتوں میں حکومتی اضافے کے باعث مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا جس نے گھرانوں کی قوتِ خرید اور حقیقی آمدنی کو شدید متاثر کیا۔ رپورٹ کے مطابق ترسیلاتِ زر اگرچہ گھرانوں کی فلاح میں مددگار ہیں لیکن یہ صرف آبادی کے ایک چھوٹے حصے تک پہنچتی ہیں۔ دیہی اور کم آمدنی والے گھرانے زیادہ تر اندرونِ ملک ترسیلات کے وصول کنندہ ہیں۔ مزدور منڈی میں زیادہ تر غیر رسمی اور کم اجرت والی ملازمتیں ہیں، جہاں 85 فیصد سے زیادہ روزگار غیر رسمی ہے۔ شہری مرد زیادہ تر تعمیرات، ٹرانسپورٹ یا تجارت میں کم اجرت والی ملازمتیں کرتے ہیں، جبکہ دیہی مرد جمود کا شکار زراعت چھوڑ کر کم پیداواری غیر زرعی کاموں کی طرف جاتے ہیں۔ عورتیں اور نوجوان بڑی حد تک مزدور منڈی سے باہر ہیں اور خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت صرف 25.4 فیصد ہے۔ عالمی بینک نے کہا کہ زیادہ تر گھرانے نچلی سطح کی فلاح پر محدود ہیں، جس سے وہ دھچکوں کے لیے نہایت کمزور ہو جاتے ہیں۔ تاریخی طور پر پاکستان کا مالیاتی ڈھانچہ غربت اور عدم مساوات میں کمی کے لیے معاون نہیں رہا۔ پاکستان میں عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر بولورما آنگابازر نے کہا، ''یہ نہایت اہم ہے کہ پاکستان اپنی مشکل سے حاصل کردہ غربت میں کمی کے ثمرات کو محفوظ رکھے اور اصلاحات کو تیز کرے جو روزگار اور مواقع بڑھائے، بالخصوص خواتین اور نوجوانوں کے لیے۔‘‘