روس-یوکرین مذاکرات کا تیسرا دور منعقد کیا جائے گا، روسی صدر
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
ماسکو: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے بیلاروس کے شہر منسک میں یوریشین اقتصادی کمیشن کی سپریم کونسل کے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس کے بعد منعقدہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ترکیہ کے شہر استنبول میں یوکرین کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کے بعد ، روس اور یوکرین کے مابین مذاکرات کا تیسرا دور منعقد کیا جائے گا۔ مذاکرات میں دونوں ممالک کے تنازعات کے حل کے منصوبے پر مسودہ یادداشت پر بات چیت ہو گی۔ روس اس کے لیے تیار ہے۔ پیوٹن نے کہا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگی قیدیوں کا تبادلہ بہت اہمیت کا حامل ہے، جس سے دونوں فریقوں کے لیے مسئلے کی نوعیت پر ٹھوس بات چیت کرنے کے لیے حالات پیدا کیے گئے ہیں۔پیوٹن کا کہنا تھا کہ روس نے 6000 فوجیوں کی باقیات یوکرین کے حوالے کر دی ہیں، اور مزید 3000 کی حوالگی کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اسی دن یوکرین کے وزیر دفاع رستم عمروف نے میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ انسانی ہمدردی کے معاملات پر بات چیت مکمل کرنے کے بعد ،ہم یوکرینی اور روسی رہنماؤں کے درمیان ملاقات کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ نیٹو کے فوجی اخراجات میں اضافے کے حوالے سےروسی صدر پیوٹن نے زور دیا کہ نیٹو نام نہاد “روس کی جارحیت” کو بنیاد بنا کر جنگی عزائم میں اضافہ کر رہا ہے۔روس کی جانب سے جارحیت نہیں کی گئی بلکہ یہ خود نیٹو ہے جو جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ پیوٹن نے یہ بھی اعلان کیا کہ مغرب کے ساتھ “یکطرفہ رعایتی کھیل” ختم ہو گیا ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
جرمن چانسلر کا ایران سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جرمن چانسلر فریڈرک میرٹس نے ایران سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا مطالبہ کیا ہے۔
قطری نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق جرمن چانسلر فریڈرک میرٹس نے اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آئے۔
برلن میں آسٹریا کے چانسلر کرسچین اسٹاکر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فریڈرک میرٹس کا کہنا تھا کہ تہران کی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں نے کافی نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام پر جاری تنازع کو مزید نہیں بڑھانا چاہیے، ہم خطے کی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
آسٹریا کے رہنما اسٹاکر کا اپنی گفتگو میں کہنا تھا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ’ ایک اہم پہلا قدم‘ ہے جس کے بعد سفارتکاری کی ضرورت ہے، ایران سے مطالبہ ہے کہ وہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آی اے ای اے ) کے ساتھ تعاون جاری رکھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نگرانی کا نظام غیر فعال نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ایسا کرنا غیر یقینی صورتحال کی طرف ایک اور قدم ہوگا۔
واضح رہے کہ اسرائیل سے جنگ کے دوران امریکا کی جانب سے فردو نیوکلیئر سائٹ کو نشانہ بنائے جانے اور بعدازاں جنگ بندی کے بعد ایران کی پارلیمان نے اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی منظوری دی تھی۔