بھارت کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہیں، جنگ جیت لی اب امن جیتنا چاہتے ہیں: وزیراعظم کا جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب امور پر جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے مشرقی محاذ سے بلااشتعال جارحیت کا فیصلہ کن جواب دیا، دشمن غرور میں لپٹا آیا اور ذلت کے ساتھ واپس لوٹا۔ پاکستان نے جنگ جیت لی، اب ہم امن جیتنے کے خواہاں ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کی نو منتخب صدر کو جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کی صدارت سنبھالنے پر مبارکباد اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو بھی مشکل حالات میں ان کی جراتمندانہ قیادت پر خراج تحسین پیش کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آج کی دنیا پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، تنازعات بڑھ رہے ہیں، بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے، انسانی بحران بڑھتے جا رہے ہیں، دہشتگردی اب بھی ایک طاقتور خطرہ ہے، غلط معلومات اور فیک نیوز اعتماد کو مجروح کرتی ہیں، اسلحے کی بے لگام دوڑ اور نئی ٹیکنالوجیز تباہ کن غلطیوں کے خطرے کو بڑھا رہی ہیں اور ان سب سے بڑھ کر ماحولیاتی تبدیلی ہماری بقا کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ کثیرالجہتی نظام آج کوئی آپشن نہیں بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے۔
انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے وژن پر مبنی ہے جس کی بنیاد امن، باہمی احترام اور تعاون ہے۔ ہم مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے تنازعات کے پُرامن حل پر یقین رکھتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ برس اسی فورم پر میں نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کسی بھی بیرونی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دے گا۔ یہ الفاظ اس سال مئی میں اس وقت سچ ثابت ہوئے جب مشرقی محاذ سے ہم پر بلااشتعال جارحیت کی گئی۔ دشمن غرور میں لپٹا آیا اور ذلت کے ساتھ واپس لوٹا۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی ہماری پیشکش کو مسترد کرکے انسانی المیے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے ہمارے شہروں اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جب ہماری علاقائی سالمیت اور قومی سلامتی کی خلاف ورزی ہوئی تو ہم نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا بنیادی حق استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بہادر مسلح افواج نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں بے مثال پیشہ ورانہ صلاحیت، بہادری اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔ ایئر چیف مارشل ظہیر بابر سدھو کی قیادت میں ہمارے شاہینوں نے فضاؤں میں دشمن کے حملے کو پسپا کرتے ہوئے سات بھارتی طیاروں کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جارحیت کرنے والوں کو ہمارا فیصلہ کن جواب تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس فتح کا سہرا ہمارے ہر افسر، جوان اور شہدا کے ورثا کے سر ہے۔ ان کی عظمت امر ہے، ہمارے شہدا کی ماؤں کا حوصلہ ہماری رہنمائی کرتا ہے، ان کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔ ہر پاکستانی اس صورتحال میں ایک مضبوط دیوار ’بنیان مرصوص‘ بن کر کھڑا رہا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم طاقت میں ہونے کے باوجود جنگ بندی پر آمادہ ہوئے، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جراتمند اور بصیرت افروز قیادت سے ممکن ہوئی۔ ہم جنگ بندی کے لئے فعال کردار ادا کرنے پر صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو سراہتے ہیں، ان کی کوششوں نے ایک بڑے خطرناک تصادم کو ٹال دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ بروقت اور فیصلہ کن مداخلت نہ کرتے تو مکمل جنگ کے نتائج تباہ کن ہوتے۔ صدر ٹرمپ امن کے علمبردار ہیں اور امن کے لیے ان کی کوششوں پر ہی پاکستان نے نوبل امن ایوارڈ کے لیے ان کا نام پیش کیا ہے۔
وزیراعظم نے چین، ترکیہ، سعودی عرب، قطر، آذربائیجان، ایران، متحدہ عرب امارات اور سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سمیت پاکستان کے دوستوں اور شراکت داروں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے نازک وقت میں پاکستان کی سفارتی حمایت کی۔ پاکستان نے جنگ جیت لی، اب ہم پوری دنیا میں امن جیتنے کے خواہاں ہیں۔ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب امور پر جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لئے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا کو ’اشتعال انگیز‘ نہیں بلکہ ’فعال‘ قیادت کی ضرورت ہے۔ بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا یکطرفہ اور غیرقانونی اقدام نہ صرف اس معاہدے کی شقوں بلکہ بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان نے یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے اور کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ ہم پانیوں پر اپنی 24 کروڑ آبادی کے ناقابلِ تنسیخ حق کا بھرپور دفاع کریں گے۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہمارے لیے اعلان جنگ کے مترادف ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس ایوان کے ذریعے کشمیری عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے اور ان شاء اللہ جلد مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کا ظلم و جبر ختم ہو جائے گا۔ کشمیری عوام ایک غیرجانبدارانہ ریفرنڈم کے ذریعے اقوام متحدہ کی نگرانی میں اپنا حقِ خودارادیت حاصل کریں گے۔
فلسطین کے حوالے سے وزیراعظم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کی حالت زار ہمارے دور کے سب سے زیادہ دل دہلا دینے والے المیوں میں سے ایک ہے۔ یہ طویل ناانصافی عالمی ضمیر پر دھبہ اور ہماری اجتماعی اخلاقی ناکامی ہے۔ آٹھ دہائیوں سے فلسطینی عوام اپنے وطن پر اسرائیل کے وحشیانہ قبضے کو حوصلے سے برداشت کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت نے عورتوں اور بچوں پر ایسا ظلم ڈھایا ہے جو شاید کبھی دیکھنے کو نہ ملا ہو۔ مغربی کنارے میں ہر گزرتا دن نئی بربریت لا رہا ہے۔ غیر قانونی آباد کار دہشت پھیلاتے ہیں اور بغیر کسی جرم کے قتل کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ غزہ میں اسرائیل کے نسل کشی حملوں نے خواتین اور بچوں میں ناقابلِ بیان دہشت پھیلا دی ہے جس کا دنیا کی تاریخ میں ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔ اپنے مذموم مقاصد کے اندھے تعاقب میں اسرائیلی قیادت نے بے گناہ فلسطینیوں کے خلاف ایک شرمناک مہم چلائی جسے تاریخ ہمیشہ سیاہ ترین باب کے طور پر یاد رکھے گی۔
وزیراعظم نے یاد دلایا کہ ہم سب نے ننھی ہند رجب کی لرزتی آواز سنی جو ملبے تلے دبی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ آپ کی بیٹی ہو؟ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس پر رحم نہ کیا جائے؟ میرا اور پوری امت مسلمہ کا بلکہ پوری انسانیت کا دکھ یہ ہے کہ ہم ہند رجب کو بچا نہیں سکے جس پر وہ ہمیں نہ صرف اس دنیا بلکہ اگلے جہاں میں بھی معاف نہیں کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ’سب سے چھوٹے تابوت سب سے بھاری ہوتے ہیں‘، میں جانتا ہوں کیونکہ حالیہ بھارتی جارحیت کے دوران سات سالہ ارتضیٰ عباس کا ننھا تابوت میں نے بھی اٹھایا۔ ہمیں ان بچوں کو ناکام نہیں ہونے دینا چاہئے، نہ غزہ کے اور نہ دنیا کے کسی اور کونے کے، ہمیں فوری جنگ بندی کا راستہ نکالنا ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے اس مطالبے کی بھرپور حمایت کرتا ہے کہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ فلسطین اب مزید اسرائیلی زنجیروں میں نہیں رہ سکتا، اسے آزاد ہونا ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان 1988 میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا۔ ہم ان ممالک کا خیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے حال ہی میں فلسطین کو تسلیم کیا ہے۔ ہم دیگر ممالک پر بھی فلسطین کو تسلیم کرنے پر زور دیتے ہیں کیونکہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کی طرف سے عرب و اسلامی ممالک کو اقوام متحدہ میں مشاورتی اجلاس کے لیے مدعو کرنے کے بروقت اقدام پر ان کے شکر گزار ہیں۔ اس سے جنگ بندی کی نئی امید پیدا ہوئی، اس امن اقدام کا کریڈٹ بھی صدر ٹرمپ کو جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا دوحا پر حالیہ حملہ اور دیگر ممالک کی خودمختاری کی خلاف ورزیاں اس کے باغیانہ رویے کی عکاسی کرتی ہیں۔ پاکستان برادر ملک قطر کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم یوکرین تنازع کے پُرامن حل کی بھی حمایت کرتے ہیں تاکہ انسانی تکالیف اور عالمی بحران ختم ہو سکے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے۔ پاکستان 2 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن ملک کے طور پر کردار ادا کر رہا ہے اور اس سلسلے میں 90 ہزار جانوں کی قربانی دے چکا ہے، جن میں ہماری خواتین، بچے، بزرگ، ڈاکٹر، انجینئرز اور دوسرے شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نیویارک، لندن، لاہور اور دنیا کے کسی بھی مقام پر کسی کی زندگی لینا ایک جیسا ہے۔ پاکستان نے انسداد دہشتگردی اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں، ہماری ان قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کی وجہ سے پاکستان 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھا چکا ہے۔ آج ہمیں بیرونی سرپرستی میں ہونے والی دہشتگردی کا سامنا ہے۔ ٹی ٹی پی، فتنہ الخوارج، فتنہ ہندوستان، بی ایل اے اور اس کے مجید بریگیڈ کی دہشتگردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ گروہ افغان سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں اور جعفر ایکسپریس جیسے ہولناک حملوں کے ذمہ دار ہیں جسے یرغمال بنایا گیا، لیکن ہماری مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کرکے یرغمالیوں کو رہا کرایا اور دہشتگردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے ان دہشتگردوں سے لڑ رہے ہیں اور ہم اس جنگ کو آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ قریبی ہمسائے کی حیثیت سے پاکستان کا پُرامن افغانستان سے براہ راست تعلق ہے۔ ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ ترقی و خوشحالی کی کلید علاقائی استحکام اور رابطے میں مضمر ہے۔ پاکستان تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر انسانی بنیادوں پر امداد، معاشی بحالی اور افغانستان میں ایک جامع سیاسی فریم ورک کی حوصلہ افزائی کے لیے مصروف عمل ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ عبوری افغان حکومت کو خواتین کے حقوق سمیت انسانی حقوق کی پاسداری کرنی چاہیے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ دہشتگرد گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہو۔
وزیراعظم نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر، امتیازی سلوک یا تشدد کی کسی بھی شخص یا مذہب کے خلاف کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ ہندوتوا پر مبنی انتہا پسندی نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ اسلاموفوبیا کے خطرے کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی تقرری کا خیرمقدم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی بحران سب سے فوری عالمی چیلنج ہے۔ 2022 میں پاکستان کو شدید سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس کے نقصانات 34 ارب ڈالر سے زیادہ تھے، اس کے علاوہ قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ اس سال پھر ایک بڑے سیلاب نے ہزاروں دیہات بہا دیے، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، ایک ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوئیں اور کھیت کھلیان تباہ ہوگئے۔ فصلوں، مال مویشیوں اور املاک کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اپنی غیر معمولی استقامت سے اس آفت کا مقابلہ کر رہا ہے۔ حکومت نے موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ 2022 اور 2025 کے تباہ کن سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آئے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان کا عالمی گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے ہمیں قرضے لینا پڑتے ہیں، یہ انصاف نہیں ہے۔ قرضے معیشت کے لیے تباہ کن ہیں۔ ہم بھرپور محنت کریں گے، اپنے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے اور پاکستان کو ایک عظیم ملک بنائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے معیشت کی بہتری کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ہیں، ٹیکس نظام کو جدید بنایا ہے، سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز، مصنوعی ذہانت اور کرپٹو کو اپنایا ہے۔ انفراسٹرکچر، توانائی، صنعت، زراعت، کان کنی اور ٹیکنالوجی ہماری ترجیحات ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ صدر شی جن پنگ کے تاریخی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے تزویراتی شراکت داری ہماری ترقی میں معاون ہے۔ انہوں نے زیادہ منصفانہ اور جامع ترقی کے لیے مؤثر فریم ورک کے ذریعے ’گلوبل گورننس انیشی ایٹو‘ سمیت صدر شی جن پنگ کے وژن اور دوراندیشی کو سراہا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے تنازعات کی روک تھام کے لیے اپنا تعمیری کردار ادا کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریزیولوشن 2788 کی متفقہ منظوری کثیر الجہتی اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر ہماری اجتماعی وابستگی کی تجدید ہے۔
وزیراعظم نے یقین دلایا کہ پاکستان ایک فعال اقوام متحدہ اور تعاون پر مبنی کثیرالجہتی نظام کے لیے ہمیشہ امن، انصاف اور ترقی کا علمبردار رہے گا جو سب کے لیے منصفانہ، مفید اور بہتر ہو۔
وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس کی مناسبت سے کہا کہ 80ویں اجلاس کو صرف تاریخ کی یادگار نہ رہنے دیں، آئیے ہم آئندہ 80 برسوں کے لیے تاریخ بنائیں۔ ہم سب مل کر بہتری کے لیے کام کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ امریکا بھارت جنرل اسمبلی چین سعودی عرب وزیراعظم محمد شہباز شریف.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ امریکا بھارت جنرل اسمبلی چین وزیراعظم محمد شہباز شریف وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے نے کہا کہ ہم جنرل اسمبلی پاکستان نے خلاف ورزی کرتے ہوئے کی وجہ سے فیصلہ کن کے ذریعے کرتے ہیں تباہ کن ہیں اور کے ساتھ کے خلاف کریں گے رہے ہیں کرتا ہے کسی بھی ہے اور رہا ہے کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
نیویارک: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب شروع ہوتے ہی شرکا اجلاس چھوڑ کر جارہے ہیں‘نیتن یاہونے خالی کرسیوں سے خطاب کیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default"> جسارت نیوز