Express News:
2025-06-29@02:17:09 GMT

نئے صوبے تقسیم نہیں بلکہ تعمیرکا ذریعہ ہیں ( پہلا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

پاکستان ایک لسانی و ثقافتی تنوع کا حامل ملک ہے، جہاں مختلف زبانیں بولنے والے لاکھوں لوگ بستے ہیں۔ مردم شماری کے مطابق ملک میں اردو، پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، براہوی، ہندکو، شینا، بلتی، کشمیری اور دیگر زبانیں بولنے والی مختلف قومیتیں بستی ہیں۔ یہ تنوع جہاں ایک طرف پاکستان کو ایک ثقافتی قوت بناتا ہے، وہیں دوسری طرف اس لسانی تناسب کے مطابق انتظامی ڈھانچے کی عدم موجودگی ملکی تعمیر و ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب کسی قوم، زبان یا علاقے کو اس کی آبادی، وسائل، ثقافت اور شناخت کے مطابق سیاسی و انتظامی حقوق نہ دیے جائیں تو وہاں احساس محرومی اور پسماندگی جنم لیتی ہے۔ میں نے ہمیشہ ہر سطح پر اس معاملے میں آواز اٹھائی ہے کہ تمام زبان بولنے والوں کو ان کا نہ صرف حق بلکہ سیاسی و سماجی میدان میں بھی ان کی نمایندگی وطن عزیز کو عروج وارتقاء کی جانب گامزن کرے گی۔

میرا تو یہ ماننا ہے کہ نئے صوبے ان زبانوں کو وہ مقام دیں گے جو ان کا حق ہے لوک موسیقی ، علاقائی لباس اور روایات پھر سے زندہ ہوں گی۔ جب ہر صوبہ خود مختار ہوگا، تو وہ دوسرے صوبوں سے ترقی تعلیم ، صحت ، شفاف حکومت اور بنیادی سہولیات میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

اس طرح پورے ملک میں ایک مثبت اور تعمیری مقابلے کی فضا قائم ہوگی، جس سے قومی ترقی کی رفتارکئی گنا تیز ہوگی۔ نئے صوبے اپنے دیہی علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کرسکیں گے۔ جب تعلیم ، صحت، روزگار، سڑکیں صنعتیں اور دیگر سہولیات مقامی سطح پر مہیا ہوں گی تو دیہی عوام کو شہروں کی طرف ہجرت کرنے کی ضرورت نہ رہے گی، یوں شہری آبادی پر بوجھ کم ہوگا اور دیہی معیشت مضبوط ہوگی۔

ہمارے ارباب اختیار اور پالیسی سازوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اس معاملے پر غورکریں۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں نئے صوبے صرف انتظامی آسانی کے لیے نہیں بلکہ لسانی و تہذیبی شناخت کے احترام، ترقی کے یکساں مواقعے اور ایک متوازن نظام حکومت کے قیام کے لیے ضرور بننے چاہئیں۔ نئے بننے والے صوبے نہ صرف اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا ذریعہ ہوں گے بلکہ ایک مثبت مقابلے کا ماحول بھی پیدا کریں گے۔

ہر صوبہ اپنے بجٹ، ترقیاتی منصوبوں تعلیمی اصلاحات اور بنیادی ڈھانچے میں دوسرے صوبے سے بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرے گا اور یہی مقابلہ ترقی کا انجن بنے گا۔ مثال کے طور پر اگر ہر صوبہ اپنے دیہی علاقوں پر توجہ دے گا تو یقیناً وہاں صنعتی یونٹس قائم ہوں گے، زراعت کو جدید بنانے پر توجہ مرکوز ہوگی، صحت و تعلیم کے مراکز قائم کیے جائیں گے، اس طرح دیہی آبادی کو شہروں کی طرف ہجرت کی ضرورت نہیں رہے گی۔

یوں شہری آبادیوں پر دباؤ کم ہوگا اور ایک متوازن ترقی ممکن ہوگی۔ میں نے بارہا کہا اورکہتی ہوں کہ نئے صوبے ملک کی تقسیم نہیں، بلکہ اس کی تعمیر کا ذریعہ ہیں۔ یہ قومی وحدت کوکمزور نہیں کرتے بلکہ مضبوط کرتے ہیں، کیونکہ جب ہر علاقہ خود کو سنا گیا، سمجھا گیا اور تسلیم شدہ محسوس کرے گا، تو وہ خود کو اس وطن کا اہم ستون سمجھے گا۔ جیسا کہ میں نے اپنے کالم کے آغاز میں وطن عزیز میں بسنے والی زبانوں کا ذکر کیا اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو میری رائے کے مطابق ہم لسانی اور جغرافیائی تناسب سے دس بارہ صوبے آسانی سے بنا سکتے ہیں جوکہ ہمارے پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ میری اس تجویز سے کس حد تک متفق ہیں۔

میں بات پنجاب سے شروع کروں گی، میں سمجھتی ہوں کہ جنوبی پنجاب میں ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، لیہ، راجن پور اور مظفرگڑھ، سرائیکی زبان بولنے والوں کا گڑھ ہے۔ ان علاقوں کو طویل عرصے سے ترقیاتی تعلیمی اور انتظامی لحاظ سے نظر اندازکیا گیا، اگر یہاں ایک الگ صوبہ قائم ہو تو مقامی عوام اپنی ضروریات کے مطابق منصوبہ بندی کرسکیں گے، مقامی ثقافت اور فن کی سر پرستی ہوگی اور معاشی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔

جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بات نہ صرف مقامی قیادت بلکہ قومی سطح پر بھی کی جاچکی ہے۔ 2018 کے انتخابات میں کئی پارٹیوں نے اسے منشور کا حصہ بنایا لیکن تا حال عملی اقدامات نہ ہو سکے۔اسی طرح ریاست بہاولپور نے پاکستان سے باقاعدہ الحاق کیا تھا لیکن وقت کے ساتھ اس کی شناخت گم ہوگئی۔ 1955 میں ون یونٹ کے نفاذ کے تحت بہاولپورکو پنجاب میں ضم کردیا گیا، جس پر مقامی عوام نے شدید احتجاج کیا۔

ون یونٹ ختم ہونے کے بعد بھی بہاولپورکو دوبارہ ریاست یا صوبے کا درجہ نہیں دیا گیا۔ مقامی لوگ اپنی تاریخی حیثیت کی بحالی چاہتے ہیں۔ الگ صوبہ بننے کی صورت میں بہاولپور اپنی ثقافت تعلیم، سیاحت ، صنعت و زراعت کے شعبوں میں ایک مثالی ترقی کر سکتا ہے۔

عوام کا موقف ہے کہ اگر گلگت بلتستان اور جنوبی پنجاب کو الگ انتظامی حیثیت دی جاسکتی ہے تو بہاولپور جیسے تاریخی خطے کوکیوں نہیں؟اسی طرح خیبر پختو نخوا کے ہزارہ ڈویژن کی اپنی تہذیبی شناخت ہے، جہاں ہندکو زبان بولی جاتی ہے۔ وہاں کے عوام نہ صرف اپنی لسانی شناخت بلکہ اپنی تہذیب تعلیم ، سیاحت اور ترقی کے بہتر مواقعے کے لیے الگ صوبہ چاہتے ہیں۔

2010 میں خیبر پختونخوا کے نام کی تبدیلی کے بعد وہاں تحریک نے زور پکڑا اور وہ ہر فورم پر اپنے لیے الگ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح جنوبی سندھ کو دیکھیں تو کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص سکھر اور دیگر شہری علاقے سندھ کی وہ اکائیاں ہیں جن کی لسانی و معاشی ساخت دیہی سندھ سے مختلف ہے۔ اردو بولنے والے عوام اکثر اپنے مسائل، اختیارات اور وسائل کی تقسیم میں خود کو نظر انداز شدہ محسوس کرتے ہیں۔

جنوبی سندھ کے ایک علیحدہ صوبے کی تشکیل نہ صرف انتظامی بہتری لائے گی بلکہ شہری علاقوں کو ترقی کی نئی رفتار بھی دے گی۔سابقہ فاٹا (Federally Administered Tribal Areas) پاکستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی سرحد پر واقع ایک خود مختار انتظامی خطہ تھا۔ اس میں باجوڑ مہند، خیبر،کرم اورکرتی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں۔ 2018 میں آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ ضم کرنے کا مقصد ترقی، قانون کا نفاذ اور مرکزی دھارے میں لانا تھا لیکن اس کے باوجود قبائلی عوام میں احساس محرومی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ثقافتی شناخت کی کمزوری کا تاثر پایا جاتا ہے۔

ان کی قبائلی اقدار میں شتون ولی، جرگہ سسٹم، مہمان نوازی ، غیرت، وفاداری اہم ہیں۔ ان کے ثقافتی رنگوں میں خٹک رقص، پشتو موسیقی، روایتی لباس جیسے عمامہ وچادر میں ہیں۔کتنا ہی خوبصورت نظام ہے ان کا۔ اسی طرح چترال پاکستان کے شمالی سرے پر واقع ہے، جو پہلے ریاست چترال کہلاتی تھی۔     (جاری ہے۔)

(نوٹ۔مضمون نگار سابقہ ایم این اے ہیں۔)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے مطابق

پڑھیں:

کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ ایران، اسرائیل اور عالمی طاقتوں کی جنگ کا نیا مرحلہ

اسلام ٹائمز: یہ بات طے ہے کہ یہ محض ایک وقتی تصادم نہیں بلکہ ایک طویل، گہری اور تہہ دار جنگ ہے، جو کئی دہائیوں سے پراکسیز کی صورت میں جاری تھی اور اب براہِ راست میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے اثرات صرف اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سیاسی و اقتصادی نقشے کو بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ جنگ اُس وقت تک نہیں رُکے گی، جب تک اسرائیل کا مکمل خاتمہ اور امریکہ کی مصنوعی برتری دنیا کے سامنے بے نقاب نہ ہو جائے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)

دنیا کی تاریخ میں کچھ جنگیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف بارود کے دھوئیں میں نہیں لکھی جاتیں بلکہ قوموں کے عزم، نظریات، عقیدے اور استقلال کے لہو سے رقم ہوتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور عراق کے درمیان 1980ء میں شروع ہونے والی جنگ بھی ایسی ہی ایک جنگ تھی۔ اس جنگ میں صدام حسین نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی سے ایران پر جنگ مسلط کی۔ مہلک کیمیکل ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایران کے بے شمار نڈر، فدائی اور مخلص جوان شہید ہوئے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایران، باوجود عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ کے، نہ جھکا، نہ ٹوٹا، نہ بکا۔ ایران کی قوم نے اپنے نومولود انقلاب کے آغاز ہی میں جس دلیری، شعور، اور ایمانی طاقت کا مظاہرہ کیا، وہ ایک زندہ معجزہ ہے۔ آج 46 سال بعد، یہ انقلاب صرف ایران کے گلی کوچوں میں ہی نہیں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں اپنے اثرات مرتب کر چکا ہے۔ جس نظام کو عالمی سامراج "موقّت خروش" سمجھ رہا تھا، وہ آج ایک تناور درخت بن چکا ہے اور دشمن یہ مان چکا ہے کہ اسے جڑ سے اکھاڑنا اب اس کے بس میں نہیں۔

اب آتے ہیں حالیہ جنگی منظرنامے کی طرف۔ ایران اور اسرائیل کے مابین جو تصادم اس وقت جاری ہے، وہ درحقیقت دہائیوں کی پراکسی جنگوں کا براہ راست رخ اختیار کر چکا ہے۔ یہ لڑائی نہ تو اچانک شروع ہوئی ہے، نہ ہی کسی محدود دائرے تک محدود ہے۔ حزب اللہ لبنان کی قیادت کا قتل، اسماعیل ہانیہ کے خاندان پر حملہ، شام میں رجیم چینج اور ایران کو تنہا کرنے کی منظم کوششیں۔ یہ سب اس طویل منصوبے کا حصہ تھیں جسے امریکہ، یورپ، اسرائیل، اور ہندوستان نے مل کر ترتیب دیا۔ ان طاقتوں نے نہ صرف ایران کے خلاف اندرونی غداروں کو استعمال کیا بلکہ جاسوسی نیٹ ورک، ڈرون بیسز اور حساس اہداف کو نشانہ بنانے جیسی خطرناک سازشیں بھی تیار کیں لیکن ایران نے کمال مہارت، سیاسی بصیرت اور انٹیلیجنس برتری سے ان تمام سازشوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ 24 گھنٹوں کے اندر اپنی دفاعی پوزیشن کو بحال کر کے اسرائیل کو کرارا جواب دیا۔

جب امریکہ نے دیکھا کہ اسرائیل میدانِ جنگ میں ہانپ رہا ہے تو خود براہِ راست کود پڑا۔ مگر ایران نے نہ صرف اس حملے کا بھی بھرپور جواب دیا بلکہ امریکہ کو یہ باور کرا دیا کہ اب "دھمکی" کا دور گزر چکا ہے۔ یہ "ردِ عمل" کا دور ہے۔ فی الحال اگرچہ ایک عارضی جنگ بندی نافذ ہے لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ایران اس وقت دفاعی و تزویراتی لحاظ سے مکمل برتری رکھتا ہے۔ امریکہ، اسرائیل، یورپ اور ہندوستان اپنے تمام تر وسائل کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران واقعی اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دے گا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ ایران کی اولین ترجیحات میں اسرائیل کی مکمل نابودی شامل ہے۔ ایران اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سامراج کا غاصب اڈہ سمجھتا ہے۔ ایک ناجائز وجود جو ظلم، دہشت اور استعماری مفادات کا محافظ ہے۔ تاہم، ایران اس عظیم ہدف کے حصول کے لیے درست وقت، بین الاقوامی حالات اور علاقائی توازن کا گہری نظر سے جائزہ لے رہا ہے۔

ممکن ہے، جب وقت موافق ہوا، تو ایران یہ مقصد بھی حاصل کر گزرے اور دنیا ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کو دیکھے۔ جہاں تک اس جنگ کی مدت کا تعلق ہے، تو یہ بات طے ہے کہ یہ محض ایک وقتی تصادم نہیں بلکہ ایک طویل، گہری اور تہہ دار جنگ ہے، جو کئی دہائیوں سے پراکسیز کی صورت میں جاری تھی اور اب براہِ راست میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے اثرات صرف اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سیاسی و اقتصادی نقشے کو بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ جنگ اُس وقت تک نہیں رُکے گی، جب تک اسرائیل کا مکمل خاتمہ اور امریکہ کی مصنوعی برتری دنیا کے سامنے بے نقاب نہ ہو جائے۔ سوال صرف یہ ہے کہ یہ انجام کب اور کیسے ہوگا  اور دنیا کا ضمیر کس طرف کھڑا ہوگا؟

متعلقہ مضامین

  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا‘ ثالثی عدالت
  • مسائل کے حل کیلئے پنجاب یا سندھ سے کوئی مسیحا نہیں آئے گا،گورنر خیبر پختونخوا
  • مسائل کے حل کیلئے پنجاب یا سندھ سے کوئی مسیحا نہیں آئے گا: گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم
  • عوام کو سہولت دینے کے لیے ہر فورم پر لڑیں گے؛ فیصل کریم کنڈی
  • سانحہ سوات کے بعد سیاسی قیادت اور انتظامی افسران کے اہم فیصلے
  • محرم الحرام حق، صبر اور قربانی کا واضح پیغام
  • پی ٹی آئی بانی مائنس ہو چکے، ہم نہیں، ان کی بہنیں کہہ رہی ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب
  • میرا برانڈ پاکستان بائیکاٹ مہم اور معیشت کے فروغ کا مؤثر ذریعہ ہے، منعم ظفر
  • کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ ایران، اسرائیل اور عالمی طاقتوں کی جنگ کا نیا مرحلہ