Express News:
2025-11-19@04:24:54 GMT

نئے صوبے تقسیم نہیں بلکہ تعمیرکا ذریعہ ہیں ( پہلا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

پاکستان ایک لسانی و ثقافتی تنوع کا حامل ملک ہے، جہاں مختلف زبانیں بولنے والے لاکھوں لوگ بستے ہیں۔ مردم شماری کے مطابق ملک میں اردو، پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، براہوی، ہندکو، شینا، بلتی، کشمیری اور دیگر زبانیں بولنے والی مختلف قومیتیں بستی ہیں۔ یہ تنوع جہاں ایک طرف پاکستان کو ایک ثقافتی قوت بناتا ہے، وہیں دوسری طرف اس لسانی تناسب کے مطابق انتظامی ڈھانچے کی عدم موجودگی ملکی تعمیر و ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب کسی قوم، زبان یا علاقے کو اس کی آبادی، وسائل، ثقافت اور شناخت کے مطابق سیاسی و انتظامی حقوق نہ دیے جائیں تو وہاں احساس محرومی اور پسماندگی جنم لیتی ہے۔ میں نے ہمیشہ ہر سطح پر اس معاملے میں آواز اٹھائی ہے کہ تمام زبان بولنے والوں کو ان کا نہ صرف حق بلکہ سیاسی و سماجی میدان میں بھی ان کی نمایندگی وطن عزیز کو عروج وارتقاء کی جانب گامزن کرے گی۔

میرا تو یہ ماننا ہے کہ نئے صوبے ان زبانوں کو وہ مقام دیں گے جو ان کا حق ہے لوک موسیقی ، علاقائی لباس اور روایات پھر سے زندہ ہوں گی۔ جب ہر صوبہ خود مختار ہوگا، تو وہ دوسرے صوبوں سے ترقی تعلیم ، صحت ، شفاف حکومت اور بنیادی سہولیات میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

اس طرح پورے ملک میں ایک مثبت اور تعمیری مقابلے کی فضا قائم ہوگی، جس سے قومی ترقی کی رفتارکئی گنا تیز ہوگی۔ نئے صوبے اپنے دیہی علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کرسکیں گے۔ جب تعلیم ، صحت، روزگار، سڑکیں صنعتیں اور دیگر سہولیات مقامی سطح پر مہیا ہوں گی تو دیہی عوام کو شہروں کی طرف ہجرت کرنے کی ضرورت نہ رہے گی، یوں شہری آبادی پر بوجھ کم ہوگا اور دیہی معیشت مضبوط ہوگی۔

ہمارے ارباب اختیار اور پالیسی سازوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اس معاملے پر غورکریں۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں نئے صوبے صرف انتظامی آسانی کے لیے نہیں بلکہ لسانی و تہذیبی شناخت کے احترام، ترقی کے یکساں مواقعے اور ایک متوازن نظام حکومت کے قیام کے لیے ضرور بننے چاہئیں۔ نئے بننے والے صوبے نہ صرف اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا ذریعہ ہوں گے بلکہ ایک مثبت مقابلے کا ماحول بھی پیدا کریں گے۔

ہر صوبہ اپنے بجٹ، ترقیاتی منصوبوں تعلیمی اصلاحات اور بنیادی ڈھانچے میں دوسرے صوبے سے بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرے گا اور یہی مقابلہ ترقی کا انجن بنے گا۔ مثال کے طور پر اگر ہر صوبہ اپنے دیہی علاقوں پر توجہ دے گا تو یقیناً وہاں صنعتی یونٹس قائم ہوں گے، زراعت کو جدید بنانے پر توجہ مرکوز ہوگی، صحت و تعلیم کے مراکز قائم کیے جائیں گے، اس طرح دیہی آبادی کو شہروں کی طرف ہجرت کی ضرورت نہیں رہے گی۔

یوں شہری آبادیوں پر دباؤ کم ہوگا اور ایک متوازن ترقی ممکن ہوگی۔ میں نے بارہا کہا اورکہتی ہوں کہ نئے صوبے ملک کی تقسیم نہیں، بلکہ اس کی تعمیر کا ذریعہ ہیں۔ یہ قومی وحدت کوکمزور نہیں کرتے بلکہ مضبوط کرتے ہیں، کیونکہ جب ہر علاقہ خود کو سنا گیا، سمجھا گیا اور تسلیم شدہ محسوس کرے گا، تو وہ خود کو اس وطن کا اہم ستون سمجھے گا۔ جیسا کہ میں نے اپنے کالم کے آغاز میں وطن عزیز میں بسنے والی زبانوں کا ذکر کیا اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو میری رائے کے مطابق ہم لسانی اور جغرافیائی تناسب سے دس بارہ صوبے آسانی سے بنا سکتے ہیں جوکہ ہمارے پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ میری اس تجویز سے کس حد تک متفق ہیں۔

میں بات پنجاب سے شروع کروں گی، میں سمجھتی ہوں کہ جنوبی پنجاب میں ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، لیہ، راجن پور اور مظفرگڑھ، سرائیکی زبان بولنے والوں کا گڑھ ہے۔ ان علاقوں کو طویل عرصے سے ترقیاتی تعلیمی اور انتظامی لحاظ سے نظر اندازکیا گیا، اگر یہاں ایک الگ صوبہ قائم ہو تو مقامی عوام اپنی ضروریات کے مطابق منصوبہ بندی کرسکیں گے، مقامی ثقافت اور فن کی سر پرستی ہوگی اور معاشی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔

جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بات نہ صرف مقامی قیادت بلکہ قومی سطح پر بھی کی جاچکی ہے۔ 2018 کے انتخابات میں کئی پارٹیوں نے اسے منشور کا حصہ بنایا لیکن تا حال عملی اقدامات نہ ہو سکے۔اسی طرح ریاست بہاولپور نے پاکستان سے باقاعدہ الحاق کیا تھا لیکن وقت کے ساتھ اس کی شناخت گم ہوگئی۔ 1955 میں ون یونٹ کے نفاذ کے تحت بہاولپورکو پنجاب میں ضم کردیا گیا، جس پر مقامی عوام نے شدید احتجاج کیا۔

ون یونٹ ختم ہونے کے بعد بھی بہاولپورکو دوبارہ ریاست یا صوبے کا درجہ نہیں دیا گیا۔ مقامی لوگ اپنی تاریخی حیثیت کی بحالی چاہتے ہیں۔ الگ صوبہ بننے کی صورت میں بہاولپور اپنی ثقافت تعلیم، سیاحت ، صنعت و زراعت کے شعبوں میں ایک مثالی ترقی کر سکتا ہے۔

عوام کا موقف ہے کہ اگر گلگت بلتستان اور جنوبی پنجاب کو الگ انتظامی حیثیت دی جاسکتی ہے تو بہاولپور جیسے تاریخی خطے کوکیوں نہیں؟اسی طرح خیبر پختو نخوا کے ہزارہ ڈویژن کی اپنی تہذیبی شناخت ہے، جہاں ہندکو زبان بولی جاتی ہے۔ وہاں کے عوام نہ صرف اپنی لسانی شناخت بلکہ اپنی تہذیب تعلیم ، سیاحت اور ترقی کے بہتر مواقعے کے لیے الگ صوبہ چاہتے ہیں۔

2010 میں خیبر پختونخوا کے نام کی تبدیلی کے بعد وہاں تحریک نے زور پکڑا اور وہ ہر فورم پر اپنے لیے الگ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح جنوبی سندھ کو دیکھیں تو کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص سکھر اور دیگر شہری علاقے سندھ کی وہ اکائیاں ہیں جن کی لسانی و معاشی ساخت دیہی سندھ سے مختلف ہے۔ اردو بولنے والے عوام اکثر اپنے مسائل، اختیارات اور وسائل کی تقسیم میں خود کو نظر انداز شدہ محسوس کرتے ہیں۔

جنوبی سندھ کے ایک علیحدہ صوبے کی تشکیل نہ صرف انتظامی بہتری لائے گی بلکہ شہری علاقوں کو ترقی کی نئی رفتار بھی دے گی۔سابقہ فاٹا (Federally Administered Tribal Areas) پاکستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی سرحد پر واقع ایک خود مختار انتظامی خطہ تھا۔ اس میں باجوڑ مہند، خیبر،کرم اورکرتی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں۔ 2018 میں آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ ضم کرنے کا مقصد ترقی، قانون کا نفاذ اور مرکزی دھارے میں لانا تھا لیکن اس کے باوجود قبائلی عوام میں احساس محرومی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ثقافتی شناخت کی کمزوری کا تاثر پایا جاتا ہے۔

ان کی قبائلی اقدار میں شتون ولی، جرگہ سسٹم، مہمان نوازی ، غیرت، وفاداری اہم ہیں۔ ان کے ثقافتی رنگوں میں خٹک رقص، پشتو موسیقی، روایتی لباس جیسے عمامہ وچادر میں ہیں۔کتنا ہی خوبصورت نظام ہے ان کا۔ اسی طرح چترال پاکستان کے شمالی سرے پر واقع ہے، جو پہلے ریاست چترال کہلاتی تھی۔     (جاری ہے۔)

(نوٹ۔مضمون نگار سابقہ ایم این اے ہیں۔)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے مطابق

پڑھیں:

پی پی نے بلدیاتی نظام پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم ختم ہوگی ‘سندھ میں صوبہ بھی بنے گا‘ایم کیو ایم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251118-08-20

کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلدیاتی نظام سے متعلق ترمیم پر پیپلز پارٹی کو سخت وارننگ دی ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو مقامی حکومتوں کے معاملے پر بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے اس بل پر بات نہ کی تو ’’18 ویں ترمیم بھی ختم ہوگی اور سندھ میں صوبہ بھی بنے گا‘‘۔ مصطفی کمال نے دعویٰ کیا کہ آنے والے مہینوں میں یہ ترمیم لازمی آئے گی اور منظور بھی ہوگی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’کراچی دودھ دینے والی گائے ہے، اسے چارہ نہیں دو گے تو کیسے چلے گا‘‘ اور یہ بھی واضح کیا کہ پی پی پی 27ویں ترمیم میں اس بل کو شامل کرنے کیلیے تیار نہیں تھی تاہم حکومت نے آئندہ ترمیم میں اسے لازمی دیکھنے کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری جانب سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر نے آج بغیر تیاری کے پریس کانفرنس کرکے پیپلز پارٹی پر بے بنیاد الزام تراشی کی، سندھ کی تقسیم ناممکن ہے، دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں جو سندھ کو تقسیم کرے۔ تفصیلات کے مطابق بہادرآباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کی مجوزہ آئینی ترمیم اب صرف کراچی کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پورے پاکستان کا معاملہ بن چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2024 میں پہلی بار پاکستان کی تاریخ میں ایم کیو ایم نے وزارتیں، عہدے اور پیکیجز مانگنے کے بجائے صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ ہم نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو ایگریمنٹ کیا وہ صرف اور صرف ہماری آئینی ترمیم کی حمایت کیلیے تھا۔ لیکن جب ایم کیو ایم نے 26ویں ترمیم کے موقع پر اپنا بل پیش کیا تو ہمارے پاس نمبرز کم تھے، اور ملک کو درپیش چیلنجز کی وجہ سے اس بل کو اس وقت موخر کر دیا گیا۔ ہمارا بل لاء اینڈ جسٹس کی قائمہ کمیٹی میں رہا، ایک سال بعد جب 27 ویں ترمیم کا موقع آیا تو پیپلز پارٹی کے علاوہ پاکستان کی تمام پارٹیز نے ایم کیو ایم کے بل کی حمایت کی۔ جس کی وجہ سے ایک ڈیڈلاک پیدا ہوا اور قومی مفاد میں وزیراعظم نے ہم سے گزارش کی کہ اس معاملے کو اگلی ترمیم کیلیے روک دیا جائے۔ یہ بل مردہ نہیں ہوا، یہ زندہ ہے۔ جیسے 26ویں ترمیم کے بعد یہ زندہ رہا، ویسے ہی 27ویں ترمیم کے بعد بھی زندہ ہے۔ عوام کے حقوق کا یہ آئینی بل آنے والے مہینوں میں اسمبلی میں آئے گا اور عوام کے گھروں تک اختیارات اور وسائل پہنچیں گے۔ مصطفی کمال نے کراچی کے معاشی استحصال پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کراچی کو 2006ء تک جی ایس ٹی کا 2.5% براہ راست ملتا تھا بعد میں جی ڈی پی کا 1/6 براہ راست ڈسٹرکٹ کو جاتا تھا لیکن 2010 کی 7ویں این ایف سی ترمیم کے بعد سب پیسہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں پارک ہونے لگا، کراچی کو اس سال 850 ارب روپے ملنے چاہیے تھے جبکہ حقیقت میں 100 ارب روپے بھی نہیں دیے گئے۔ پچھلے 17 سالوں میں کراچی کو 3000 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ مصطفی کمال نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے تاریخی فیصلے کا حوالہ دیا جس میں سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ آرٹیکل 140 اے صرف ایک روایتی شق نہیں، بلکہ آئین کی اس روح کی علامت ہے جو عوام کو بااختیار بنانے کا تقاضا کرتی ہے۔ بلدیاتی حکومتیں آئینی ادارے ہیں اور صوبے ان کے اختیارات ختم نہیں کر سکتے۔ جسٹس گلزار احمد کے فیصلے نے یہ مؤقف مضبوط کیا کہ اختیارات کی مرکزیت قومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور پاکستان میں دیرپا ترقی اسی وقت ممکن ہے جب شہر اپنے فیصلے خود کر سکیں۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • ریاست سے کوئی بھی فرد یا گروہ طاقتور نہیں ہوسکتا، کاشف سعید شیخ
  • سندھ کی تقسیم کا معاملہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگا، ایم کیو ایم کیا چاہتی ہے؟
  • آئینی عدالت کو بڑے قانونی اور انتظامی چیلنجز کا سامنا
  • پی پی نے بلدیاتی نظام پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم ختم ہوگی ‘سندھ میں صوبہ بھی بنے گا‘ایم کیو ایم
  • اقبال کے شاہین کی زندہ تصویر
  • ججز کے استعفوں پر جشن نہیں بلکہ نظام مضبوط کرنا ضروری ہے، سعد رفیق
  • نارووال میں گرین ٹریکٹر تقسیم، سائنسی اصولوں کے بغیر ترقی ناممکن: احسن اقبال
  • این ایف سی میں ہماراپورا حق، وفاق ہمیں واپس کرے، سہیل آفریدی
  • جہلم کے 39 کسانوں میں گرین ٹریکٹر تقسیم
  • ٹی ٹی پی نہیں، بلکہ ٹی ٹی اے یا ٹی ٹی بی