ٹیکس نظام میں 663؍ ارب روپے کا ’’بلیک ہول‘‘، ایف بی آر کی کارکردگی پر سوالیہ نشان
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023-24 کے دوران ملک کے ٹیکس نظام میں 662؍ ارب 70؍ کروڑ روپے کی بڑی مالی لیکیج سامنے آئی ہے، جس سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے نظام میں سنگین خامیاں بے نقاب ہوئی ہیں۔ رپورٹ (آڈٹ ایئر 2024-25) کے مطابق سب سے بڑا نقصان انکم ٹیکس کی مد میں 457؍ ارب روپے کا ہوا جبکہ سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 186؍ ارب 70؍ کروڑ روپے کا نقصان ریکارڈ کیا گیا۔ انکم ٹیکس کی مد میں 457؍ ارب روپے کا نقصان درج کیا گیا، جس کی بڑی وجوہات درج ذیل ہیں: 167؍ ارب 90؍ کروڑ روپے کا سپر ٹیکس تاحال وصول نہ کیا جا سکا (1600؍ سے زائد مقدمات میں)؛ 18؍ فیلڈ آفیسز نے قابل اعتراض اخراجات کی بنیاد پر زائد کٹوتیاں منظور کیں جس سے 149؍ ارب 60؍ کروڑ روپے کا نقصان ہوا؛ 62؍ ارب 30؍ کروڑ روپے کی ڈیمانڈز جمع ہی نہ کی گئیں؛ 45؍ ارب 40؍ کروڑ روپے کا ودہولڈنگ ٹیکس کی عدم وصولی؛ 22؍ ارب 90؍ کروڑ روپے کا کم از کم ٹیکس غیر وصول رہا۔ سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 187؍ ارب روپے کا نقصان درج کیا گیا، جس کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں: سب سے بڑی لیکیج 123؍ ارب 60؍ کروڑ روپے کی، جس کی وجہ یہ تھی کہ جعلی یا بلیک لسٹڈ سپلائرز کی جاری کردہ رسیدوں پر ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کلیم کیے گئے؛ 8؍ ارب 50؍ کروڑ روپے کا نقصان، جس کی وجہ یہ ہوئی کہ ان پٹ ٹیکس کو معاف اور قابل ٹیکس سپلائی کے درمیان تقسیم نہ کیا گیا؛ 36؍ ارب روپے کی فروخت کم دکھا کر ٹیکس چوری کیا گیا؛ 7؍ ارب 50؍ کروڑ روپے کی ناقابلِ قبول چھوٹ اور 5؍ ارب 50؍ کروڑ کے غیرقانونی ایڈجسٹمنٹس؛ 3؍ ارب 50؍ کروڑ روپے کے واجب الادا جرمانے اور سرچارج وصول نہ کیے گئے؛ اسٹیل اور ریٹیل سیکٹر کے درجنوں ادارے رجسٹر نہ کرنے کی وجہ سے ایک ارب 30؍ کروڑ روپے کا نقصان، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (گیس، سیمنٹ، فضائی سفر وغیرہ پر) کی مد میں 78؍ کروڑ 80؍ لاکھ روپے کا شارٹ کلیکشن۔ کسٹمز کی مد میں 18؍ ارب 90؍ کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں ہوئیں جن کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: 12؍ ارب 60؍ کروڑ روپے کی ضبط شدہ اشیاء نیلام نہ ہوسکیں اور یوں ہی پڑی رہیں؛ برآمدی ثبوت جمع کیے بغیر ڈیوٹی فری خام مال استعمال کرنے پر 3؍ ارب 30؍ کروڑ روپے کا نقصان، مکمل استثنیٰ (بلینکٹ ایگزمپشن) کی وجہ سے ایک ارب 60؍ کروڑ روپے کا نقصان،درآمدی اشیاء کی غلط درجہ بندی کی گئی جس کے باعث ایک ارب 20؍ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ اعداد و شمار منتخب فیلڈ دفاتر سے حاصل کردہ اعداد و شمار اور معلومات (سامپلز) پر مشتمل ہیں اور ملک گیر سطح پر دیکھا جائے تو ممکن ہے نقصانات کا حجم اس سے زیادہ ہو۔ آڈٹ حکام کی 18؍ اصلاحی تجاویز میں درج ذیل اہم نکات شامل ہیں: آئرس (IRIS) اور ویب او سی (WeBOC) جیسے سسٹمز میں ای-ویریفکیشن کو لازم بنایا جائے؛ جعلی رسیدوں اور کاغذی کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے؛ رسک بیسڈ ڈیسک آڈٹس نافذ کیے جائیں؛ آزاد ریفنڈ آڈٹ اسکواڈ تشکیل دیا جائے؛ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کیلئے مضبوط قانونی سیل قائم کیے جائیں؛ ’’ٹریس اینڈ ٹریک‘‘ جیسے نظام پر فوری عملدرآمد کیا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جعلی رسیدیں، صرف کاغذات پر بنی کمپنیاں (پیپر کمپنیز) اور عدالتی تاخیر کی وجہ سے نظام اندر سے کھوکھلا رہا تو ٹیکس نیٹ بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
انصار عباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کروڑ روپے کا نقصان کروڑ روپے کی ارب روپے کا کی مد میں کیا گیا کی وجہ
پڑھیں:
این سی سی آئی اے کرپشن اسکینڈل، ڈیڑھ کروڑ ماہانہ بھتا، 13 افسران گرفتار
13 افسران کا گروپ 15 غیر قانونی کال سینٹرز سے ماہانہ ڈیڑھ کروڑ بھتا وصول کرتا رہا
گرفتار چینی شہریوں کی رہائیکیلئے بھاری رقوم لی گئیں، ہوشربا انکشافات سامنے آگئے
این سی سی آئی اے کرپشن اسکینڈل کی تفتیش میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق، راولپنڈی میں 13 افسران کا ایک گروپ 15 غیر قانونی کال سینٹرز سے ماہانہ ڈیڑھ کروڑ روپے بھتہ وصول کرتا رہا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر شہزاد حیدر کی زیر نگرانی ٹیم فرنٹ مین حسن امیر کے ذریعے رقم وصول کرتی رہی اور آٹھ ماہ کے دوران مجموعی طور پر بارہ کروڑ روپے اکٹھے کیے گئے۔ کال سینٹر سے گرفتار چینی شہریوں کی رہائی کے لیے بھی بھاری رقوم لی گئیں۔تفتیشی ذرائع کے مطابق، سب انسپکٹر بلال نے نئے کال سینٹر کے لیے 8 لاکھ روپے ماہانہ مقرر کیے تھے۔ اسلام آباد کے سیکٹر ایف 11 میں کال سینٹر پر چھاپہ مار کر ڈیل کی گئی۔ ایس ایچ او میاں عرفان نے کال سینٹر سے 4 کروڑ روپے میں ڈیل فائنل کی۔ مئی 2025 میں عامر نذیر کو راولپنڈی آفس کی کمانڈ سونپی گئی، جبکہ ندیم خان ڈپٹی ڈائریکٹر اور صارم علی سب انسپکٹر کے طور پر تعینات ہوئے۔ بعد میں ڈپٹی ڈائریکٹر سلمان علوی بھی اس ٹیم کا حصہ بن گئے۔تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ سب انسپکٹر صارم نے اپنے منشی محی الدین کو فرنٹ مین مقرر کر رکھا تھا۔ راولپنڈی میں کال سینٹر پر چھاپہ مار کر 14 چینی شہری گرفتار کیے گئے، جن میں سے ایک شہری کی بیوی عربیہ رباب سے رابطہ کیا گیا اور شوہر کی رہائی کے لیے 8 لاکھ روپے وصول کیے گئے۔ باقی 13 چینی شہریوں کی رہائی کے لیے مجموعی طور پر ایک کروڑ 20 لاکھ روپے وصول کیے گئے، جبکہ قانونی لوازمات کے لیے مزید ایک ملین روپے لیے گئے۔اس ڈیل سے حاصل شدہ 2 کروڑ 10 لاکھ روپے افسران میں تقسیم کیے گئے۔ صارم علی کو 17 لاکھ، عثمان بشارت کو 14 لاکھ اور ظہیر عباس کو 10 لاکھ روپے ملے۔ ندیم خان نے عثمان بشارت کے دفتر سے 95 لاکھ روپے وصول کیے اور ایڈیشنل ڈائریکٹر عامر نذیر کو 70 لاکھ دے کر باقی رقم اپنے پاس رکھی۔ذرائع ایف آئی اے کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں، اور این سی سی آئی اے کے 13 افسران کے خلاف مقدمہ گزشتہ رات درج کیا گیا۔