اکیسویں صدی کے عالمی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو ایک بار دل لرز جاتا ہے ،مخمصے اور واہمے گھیر لیتے ہیں ،رگ جاں میں آندھیاں سی چل پڑتی ہیں ۔آج کی عالمی سیاست میں عسکری طاقت اور بحری تسلط کا خوف پھر ایک بار مرکزی حیثیت اختیار کرنے جا رہا ہے ۔ایسا نہ ہوتا تو چین دفعتا ًتین بحری بیڑے ایک ساتھ بحرالکاہل میں نہ اتار دیتا۔
سرد جنگ کے بعد قائم ہونے والا عالمی توازن جس میں امریکہ یکتا غالب قوت کے طور پر ظہور پذیر ہوا،مگر چین نے یک لخت اس کے سارے خواب بکھیر دیئے ہیں اور امریکہ کو نئے چیلنجز کے کنارے لا کھڑاکیا ہے ۔چین جو ایک عشرہ قبل تک فقط ایک معاشی جینٹ تصور کیا جاتا تھا ،اب اپنی عسکری حیثیت سے بھی اپنا تشخص قائم کرنے کی تیز ترین تگ و دو میں سرگرم نظر آتا ہے،خاص طور پر بحرالکاہل کے خطے میں جہاں جغرافیائی اہمیت اور قدرتی وسائل کی فراوانی و کثرت نے اسے عالمی قوتوں کے لئے اسٹریٹجک مرکز بنا دیا ہے ،چین کی نقل و حرکت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز و محور بن گئی ہے ۔
چین کا بیک وقت تین طیارہ بردار بیڑوں کو بحرالکاہل میں اتارنا نہ صرف ایک بڑی عسکری چال ہے بلکہ اس کے اندرونی اور بیرونی اہداف کو بھی آشکار کرتا ہے یہی اقدام چین کے اس خواب کی عملی تعبیر کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے وہ ’’قومی احیا‘‘اور بین الاقوامی سطح پر برابری کے طور پر پیش کرتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی یہ عالمی طاقتوں خصوصاً امریکہ،جاپان اور ان کے اتحادیوں کے لئے ایک واشگاف پیغام بھی ہے کہ اب بحرالکاہل کی موجیں کسی ایک پھریرے کی مطیع نہیں رہیں ۔
گو کہ اسے چین کی جانب سے ایک جارحانہ علامتی اور عسکری قدم ہے کہ ایک ساتھ تین طیارہ بردار بیڑے بحرالکاہل کے سینے پر ایستادہ کردینا ،خاص طور پر تازہ جغرافیائی جنگی کشیدگی کے تناظر میں جو ممکنہ مقاصد اپنے اندر لئے ہوئے ہے اس کا ایک پس منظر ہے ۔ بحرالکاہل کا بڑھتا ہوا تنائوجس میں چین اور تائیوان کے بیچ کشیدگی سرفہرست ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادی تائیوان کی آزادی کے حامی ہیں جبکہ چین اسے اپنا اٹوٹ انگ گردانتا ہے۔
کچھ ہی عرصہ قبل امریکہ نے بحرالکاہل اور چین کے جنوبی سمندر میں اپنی نیول موجودگی کو تقویت دی ہے ۔چین کا ایک دم سے لیا وننگ ، ایک قدیم طیارہ بردار بیڑہ، مکمل چینی ساخت کا شینڈونگ بیڑہ اور ایک بالکل جدید اور طاقتور طیارہ بردار بحری بیڑہ ،بحرالکاہل میں سرگرم کرنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک بہت بڑی اسٹریٹجک چال ہے ۔جس کا اصل مقصد امریکہ ،جاپان ،آسٹریلیا اور فلپائن کی حالیہ مشترکہ بحری مشقوں کے مقابلے میں اپنی سمندری برتری کا اظہار ہے۔
علاوہ ازیں تائیوان اور اس کی حمایت کرنے والوں پر یہ اجاگرکرنا ہے کہ وہ ایسے دفاعی وسائل کے استعمال کی صلاحیت سے آراستہ ہے۔اپنے اس عمل سے چین امریکہ کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ’’وہ اب صرف معاشی سپرپاور ہی نہیں بلکہ ایک عسکری قوت بھی بن چکا ہے اور اب بحرالکاہل میں امریکی اجارہ داری کو تسلیم نہیں کرتا‘‘ اس سے سوا چین کے کچھ اندرونی معاشی مسائل ،بے روزگاری اور نوجوانوں کے اندر پایاجانے والا اضطراب، اس طور ان میں حب الوطنی جگانے کی ایک موثر کوشش اور عوام کی توجہ اندرونی حالات سے ہٹا کر باہر کی دنیا کی طرف مبذول کرنا ہے۔
بہر حال امریکہ اور جاپان ‘چائناکے اس اقدام کی وجہ سے گہری تشویش میں گھرے ہوئے ہیں ۔آسیان ممالک خاص طور پر ویتنام ،ملیشیا اور فلپائن محتاط ہو چکے ہیں ۔اس بارے تاحال اقوام متحدہ کی جانب سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں ہوا ، تاہم معتد بہ تھنک ٹینکس اسے ایک انتہائی بڑی عسکری تبدیلی سے تعبیر کر رہے ہیں۔بہر حال اسے چین کی طرف سے سیاسی دبائو کا ایک توانا قدم، عسکری توازن کی خواہش اور سفارتی طاقت کے امتزاج کی سعی قرار دیا جارہا ہے کہ یہ محض ایک فوجی کوشش نہیں بلکہ علاقائی بالا دستی کی جنگ کی پیش رفت ہے ۔
یہ بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ ’’ چین بحرہند میں گوادر سے لے کر افریقہ تک بحری موتیوں کی مالا تیار کر رہا ہے ۔پاکستان گوادر چین، پاک اقتصادی راہداری (CPEC)کی حفاظت ،سری لنکا ہمبن ٹوٹا،بحر ہند میں رسائی، جبوتی چینی فوجی بیس ،افریقی اور مغربی بحری راستوں پر کنٹرول، میانمار،کیاک پیو خلیج بنگال میں موجودگی ‘‘۔چین نے متنازعہ جزیروں پر مصنوعی جزیرے بنا کر ایئر بیسز ،ریڈار سسٹم اور میزائل بیٹریز نصب کردیں ۔امریکہ”Freedom of Navigation Operation “کے ذریعے چین کی جارحیت کو چیلنج کرتا رہا ہے ،دونوں ممالک کی نیوی متعدد بار آمنے سامنے آچکی ہے ۔ تائیوان تنازعہ سب سے بڑا ممکنہ تصادم کا میدان بن سکتا ہے ۔
چین کی بحری حکمت عملی فقط دفاعی نہیں بلکہ عالمی طاقت بننے کی علامت ہے اور یہ اقتصادی ، عسکری اور سفارتی توازن بدلنے کا ذریعہ ہے کہ اب چین سمندر میں امریکہ کا متبادل بننے جارہا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بحرالکاہل میں طیارہ بردار نہیں بلکہ چین کی
پڑھیں:
حماس کے عسکری ونگ نے جنگ بندی منصوبہ مسترد کردیا، بی بی سی کا بڑا انکشاف
غزہ: برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ نے امریکا کے نئے جنگ بندی منصوبے کو مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حماس رہنما عزالدین الحداد کا ماننا ہے کہ یہ منصوبہ دراصل حماس کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، اسی لیے وہ لڑائی جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی فریم ورک اسرائیل پہلے ہی قبول کرچکا ہے، لیکن اس میں حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے اور غزہ کی حکومت میں اس کا کوئی کردار نہ ہو۔
قطر میں موجود حماس کی کچھ سیاسی قیادت منصوبے کو ترامیم کے ساتھ قبول کرنے پر تیار ہیں، مگر ان کا اثر و رسوخ محدود ہے کیونکہ یرغمالیوں پر ان کا کنٹرول نہیں ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ غزہ میں حماس کے قبضے میں 48 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔ منصوبے کے تحت پہلے 72 گھنٹوں میں تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔
حماس رہنماؤں کو اس بات پر بھی خدشہ ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بعد دوبارہ حملے شروع کر سکتا ہے، خاص طور پر اس واقعے کے بعد جب امریکا کی مخالفت کے باوجود دوحہ میں حماس قیادت پر فضائی حملہ کیا گیا۔
مزید برآں، منصوبے میں غزہ کی سرحدوں پر ’سیکیورٹی بفر زون‘ قائم کرنے اور ایک عارضی بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے، جسے حماس ایک نئی قسم کا قبضہ قرار دیتی ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی منصوبے کی کئی شقوں سے پیچھے ہٹنے کے اشارے دیے ہیں اور کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی مزاحمت کرے گا۔