خطرے کی گھنٹی یاحوصلے کاپرچم؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
جہاںایک طرف ’’رافال‘‘ بمقابلہ ’’جے10سی‘‘ کی ہوائی جھڑپوں پردنیا کی نظریں مرکوز ہیں،وہیں سوال یہ بھی جنم لیتاہے کہ آیایہ سب ایٹمی جنگ کے دہانے کی طرف پیش قدمی ہے؟ کیابرصغیرکی فضاؤں میں گونجتی ہوئی جنگی گرج مستقبل کی امن فاختاؤں کوہمیشہ کیلئے خاموش کردے گی؟
پاکستان میں گرائے گئے اسرائیلی ساختہ ہاروپ ڈرون ہویابراہموس میزائل کاراستہ بھٹک جانایہ سب نئی جنگی حکمتِ عملی کاحصہ ہیں،جہاں انسان کم اورمشینیں زیادہ بولتی ہیں۔یہ دراصل چوتھی نسل کی جنگ(فورتھ جنریشن وارفیئر)ہے جہاں دشمن کا چہرہ دھندمیں چھپاہوتاہے اورحملہ خاموش ہوتاہے۔ ہاروپ ڈرون اب محض جاسوسی نہیں کرتے بلکہ وہ ’’لوئٹیرنگ ایمونیشن‘‘جیسے خفیہ ہتھیاروں میں تبدیل ہوچکے ہیں جوفضامیں شکارکی تلاش میں گردش کرتے ہیں۔یہ حکمتِ عملی نہ صرف دفاع بلکہ نفسیاتی برتری کابھی ایک آلہ بن چکی ہے۔ان ڈرونزکے ناقابل تسخیرہونے کے اسرائیلی جنگی مافیاکوشدیددھچکاپہنچا جب اس کاساراجنگی غرورخاک میں مل گیااورپاکستان نے نہ صرف درجنوں ڈرون مارگرائے بلکہ نصف درجن ڈرونزکوجام کرکے زمین پراتارلیاگیااور اب ان کے ماتھے پرخطرات کاپسینہ خشک ہونے کانام نہیں لے رہاکہ اس طرح ان کی یہ ٹیکنالوجی بھی پاکستان کے ہتھے لگ گئی ہے۔
اسرائیل اوربھارت تویہ سمجھتے تھے کہ یہ ڈرون دشمن کوناقابل تلافی نقصان پہنچاکراسے لاغرکردیتاہے لیکن اسرائیل کایہ دعویٰ بھی اقوام عالم کے دفاعی تجزیہ نگاروں کیلئے مذاق کا نشانہ بن گیا ہے۔پاکستان کی جانب سے گرائے گئے اسرائیلی ساختہ ڈرونز، براہموس میزائل کابھٹک جانا، اور فضائی حدود کی خلاف ورزیاں صرف عسکری معاملات نہیں،بلکہ جدید ٹیکنالوجی کی اس جنگ کاحصہ ہیں جومستقبل کے محاذوں کی نقشہ کشی کررہی ہیں۔
عسکری سائنس میں اب یہ ممکن ہے کہ کسی فضائی حملے یادراندازی کوالیکٹرانک سگنیچر سے پرکھاجائے۔یہ طریقہ نیٹوافواج نے1991ء کی خلیجی جنگ میں استعمال کیاتھا۔ پاکستان پاکستان اوربھارت کے دعوے اسی جدیداصول پرپرکھے جارہے ہیں۔یادرہے کہ پاکستانی فضائیہ نے بالاکوٹ کی فضائی ڈاگ فائٹ کے بعدنہ صرف ایک مرتبہ پھرنئی فضائی تاریخ رقم کی،بلکہ عالمی میڈیا کی توجہ کامرکزبن گئی۔اس سے قبل بالاکوٹ کی جھڑپ میں پاکستانی فضائیہ نے نہ صرف بھارتی فضائیہ کے دواہم طیارے مار گرائے تھے بلکہ اپنی فضائی حدودمیں واضح برتری کاعملی مظاہرہ بھی کیا۔آزادذرائع،سیٹلائٹ فوٹیج اور آزاد مبصرین کی رپورٹس نے تصدیق کی تھی کہ بھارت کوبھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
اب ایک مرتبہ پھربھارت کوپہلے سے بھی کہیں زیادہ نقصان اٹھاناپڑاہے۔مودی مسلسل اپنے گودی میڈیاپراپنی جھوٹی فتح کے نعرے لگواتا رہا، لیکن جب اس سے اگلے دن پاکستانی حملے نے مودی کے پروپیگنڈے کے غبارے کو پھوڑ کر رکھ دیااوررافیل سمیت دوسرے جہازوں کی ارتھی اسی کی سرزمین پرسجادی تومودی اور اسرائیل کواپنے آقاٹرمپ کے پاؤں پکڑنے پڑے توتب جاکرسیزفائرہوا۔
اس مبینہ ڈاگ فائٹ پرانڈین حکام نے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیاجبکہ پاکستانی فضائیہ کے ڈپٹی چیف آف ایئرآپریشنزایئروائس مارشل اورنگزیب کا کہنا تھاکہــ ’’یہ ایک بی وی آر( بیونڈ ویژیول رینج) لڑائی تھی جس میں انڈیاکے70جنگی طیاروں اور پاکستان کے40جنگی طیاروں نے حصہ لیا،یعنی کل100سے زیادہ طیارے تھے جوکہ ہوابازی کی تاریخ میں پہلی بارہواہے۔پاکستانی فضائیہ کی طرف سے اس کارروائی میں جے ایف17اور جے10طیاروں نے حصہ لیاتاہم انہوں نے اس حوالے سے تبصرہ نہیں کیاکہ آیاپاکستان نے چینی ساختہ پی ایل15استعمال کیا۔
ان کاکہناتھاکہ پاکستان کافضائی دفاعی نظام بہت مؤثرہے اور’’ایک کِل اسی(زمین سے فضامیں مارکرنے)کی بدولت ممکن ہوا‘‘۔انہوں نے دعویٰ کیاکہ یہ کارروائی ایک گھنٹے تک جاری رہی۔انڈین طیاروں کے رونماہونے کے بعدپاکستانی فضائیہ نے اپناملٹی ڈومین آپریشن شروع کیا‘‘۔ انہوں نے دعویٰ کیاکہ6مئی کی شب ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ڈاگ فائٹ میں انڈین فضائیہ کے72طیاروں میں سے14رفال طیاروں کی الیکٹرانک نشاندہی کی گئی تھی جبکہ پاکستان نے اس آپریشن میں42جنگی طیارے استعمال کیے۔ان کاکہناتھاکہ لاہور،اسلام آباد اور دیگرفضائی حدودمیں سویلین ایئرٹریفک کی حفاظت کیلئے اس کاراستہ تبدیل کروایاگیا۔
ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمدکے مطابق جیسے ہی انڈین طیاروں نے اپنے ہتھیار استعمال کیے توپاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے ‘ہوامیں رولزآف دی گیم تبدیل کرلیے ،انڈیا نے پچھلی بارکہاتھاکہ اگران کے پاس رفال ہوتے تو نتیجہ کچھ اورہوتا۔توہم نے رفال طیاروں کونشانہ بنایا۔ ہمارے پاس مزیدنمبرزہوسکتے تھے مگرہم نے تحمل دکھایا’’۔پاکستانی فضائیہ نے دعویٰ کیاکہ تین رفال طیارے بھٹنڈہ،جموں اورسرینگرکے قریب مارگرائے گئے جبکہ مگ29اور سو30 کوسرینگر کے پاس مارگرایاگیا۔بعدازاں عالمی میڈیاپران کی تباہی کے ویڈیونے انڈین گودی میڈیاکومنہ بندرکھنے پرمجبورکیا۔دلچسپ امریہ ہے کہ خودبھارتی ایئرچیف مارشل کی سطح پراس نقصان کااعتراف کیاگیا۔ ان کاکہناتھا’’ہمیں کچھ نقصانات ضرورہوئے ہیں جن پرنظرثانی کی جارہی ہیـ‘‘۔ یہ اعتراف گویااس خفت کاعکس تھا جو انڈین فضائیہ کوبالاکوٹ کے بعدپہلے ہی برداشت کرنا پڑا تھا۔اس وقت بھی پاکستان نے نہ صرف دو بھارتی جہازگرائے تھے بلکہ ونگ کمانڈرابھی نندن کوزندہ گرفتارکرکے عالمی سطح پراخلاقی وعسکری برتری حاصل کی تھی۔
یادرہے،بالاکوٹ کے بعدہی انڈیانے یہ شکوہ کیاتھاکہ اگرہمارے پاس رافیل طیارے ہوتے تو نتیجہ مختلف ہوتامگرآج،رافیل کی موجودگی کے باوجودنتائج وہی رہے،بلکہ اس بار پاکستانی جے-10سی طیاروں نے نہ صرف مقابلہ کیابلکہ فضائی حدودمیں دشمن کے عزائم کو ملیامیٹ کردیا۔یہ نئی کامیابی پاکستانی فضائیہ کیلئیایک ایسا تمغہ ہے جس نے 1965 ء کے ایم ایم عالم کے کارنامے کی یادتازہ کردی۔بین الاقوامی دفاعی جریدے ’’جینزڈیفنس ویکلی‘‘اور’’دی نیو یارک ٹائمز‘‘ سمیت عالمی اداروں نے تسلیم کیاکہ اس ڈاگ فائٹ میں پاکستان نے عسکری،تزویراتی اورٹیکنالوجیکل اعتبار سے بازی اپنے نام کی۔
امریکاجنوبی ایشیا میں ہمیشہ سے ایک متذبذب نگران کا کردار ادا کرتا آیا ہے۔ امریکاکی آئندہ حکمتِ عملی یقیناہمارے سامنے ہے اور امریکاکی سلامتی کونسل میں اسرائیلی مظالم کو روکنے کیلئے سلامتی کونسل میں جوقراردادلائی گئی، اس کوامریکانے ویٹوکرکے مستردکردیاجس کی ساری دنیامیں مذمت کی جارہی ہے اوراس وقت انڈیاکواسرائیل کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں وہ انڈیامیں آکر پاکستان کاہمسایہ بن چکاہے تاہم موجودہ حالات میں واشنگٹن کی توجہ تائیوان، یوکرین اورمشرقِ وسطی کی جانب بھی منقسم ہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ خطے میں اس کاکرداراب محض ثالث یاتماشائی کانہیں رہے گابلکہ وہ چین کے خلاف ــ ’’اسٹرٹیجک کنٹینمنٹ‘‘ کے تحت بھارت کو دفاعی ہتھیار، سیٹلائٹ ڈیٹا اور عسکری تعاون فراہم کرے گااوراسرائیل بھی انڈیاکوجدیداسلحہ فروخت کرکے اپنامال بھی بناتارہے گا۔
یہی حکمت عملی سردجنگ کے زمانے میں پاکستان کے ساتھ اپنائی گئی تھی،اورآج وہی نکتہ نظربھارت کے ساتھ دہرایاجارہاہے۔ امریکاچین کوروکنے کیلئے بھارت کی عسکری مضبوطی کو ضروری سمجھتاہے،مگراس کانتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان مکمل طورپرچین کے بلاک میں چلاجائے۔یوں خطہ ایک نئی سردجنگ کے دہانے پرآکھڑاہواہے۔
یہ سوال ہنوزقائم ہے:کیابرصغیراپنی تاریخ کے المیوں سے کچھ سیکھ پائے گا؟یاماضی کی طرح پھرکوئی لمحہ،کوئی سیاست،کوئی فقرہ ایک ایسی جنگ کوجنم دے گاجس کاکوئی فاتح نہ ہوگا؟ تاریخ کی راہوں پرجب قومیں اپنے نظریات، عسکری بصیرت،اورتہذیبی شعورکے ساتھ چلتی ہیں، توصرف جنگ نہیں جیتی جاتیں،بلکہ نسلیں محفوظ ہوتی ہیں۔یہ تنازع ہمیں ایک بارپھر یاد دلاتاہے کہ طاقت صرف بندوق کی گرج میں نہیں، دانش کی گہرائی اورگفتارکی بلاغت میں بھی پنہاں ہوتی ہے۔
یہ خطہ،جوکبھی شاعروں کی نغمگی، صوفیوں کی نرمی اورمفکرین کی حکمت کاگہوارہ رہا، کیادوبارہ خون کی چھینٹوں سے لت پت ہو گایاامن کی امیدبن کرجگمگائے گا؟جواب ہمارے بیانئے میں ہے،ہماری قیادت میں ہے،اورہماری دعامیں ہے۔وقت کاتقاضا ہے کہ دشمنی کے خیمے لپیٹے جائیں اورامن کے دیئے روشن کیے جائیں۔ مودی اگرسندورمیں خون گھول دے،توامن کی ہردعا ردہوجاتی ہے۔
انتخاب ہمارا باقی ہے۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ جنگ کون جیتے گا؟ بلکہ ’’اسے روکنے کی ہمت کون کرے گا؟‘‘اس سرزمین کی تقدیر کا اگلا باب، غصہ نہیں، حکمت کو لکھنے دیں، لیکن مجھ جیسے لاتعداد امن پسندوں کو اس بات کا خوف کیوں ہے کہ امن کے بدنام زمانہ دشمنوں سے اس خوبصورت دنیا کو چھڑانے کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں؟ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ امن دشمن اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا پیغام چھوڑ کر جائیں گے؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستانی فضائیہ نے پاکستان نے کہ پاکستان فضائیہ کے طیاروں نے ڈاگ فائٹ ہے اور
پڑھیں:
ایبسولیوٹلی ناٹ والے کہاں ہیں؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا کے بڑے بڑے دعوے، پرجوش تقریریں اور خودساختہ غیرت کے نعرے وقت کے امتحان میں اکثر کھوکھلے ثابت ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ایک ایسا ہی نعرہ ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ اس نے عوام کو وقتی طور پر جوش و خروش دیا، حکمران طبقے کے خلاف غصہ نکالا اور خودداری کی ایک لہر پیدا کی۔ لیکن آج جب اصل وقت آیا ہے، جب فلسطین لہو میں نہا رہا ہے اور امت مسلمہ کی غیرت کو آزمایا جا رہا ہے، تو وہی ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ والے کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ یہی وہ گھڑی ہے جہاں قائداعظم محمد علی جناح کے اس جملے کو یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ: ’’پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔ یہ محض ایک جملہ نہیں تھا بلکہ ایک اصولی اعلان تھا جس نے پاکستان کے وجود کو ایک نظریے کے ساتھ جوڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیل وجود میں آیا تو دنیا کے کئی ممالک نے اسے فوری تسلیم کر لیا، مگر پاکستان نے دوٹوک مؤقف اختیار کیا اور واضح کر دیا کہ یہ ریاست غاصبانہ قبضے اور مظلوموں کے خون پر کھڑی کی گئی ہے، لہٰذا اسے تسلیم کرنا پاکستان کی نظریاتی اساس سے غداری ہوگی۔ پاکستان کی سیاست میں ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کا حوالہ ایک سابق وزیر ِاعظم نے امریکی دباؤ کو مسترد کرنے کے لیے دیا تھا۔ عوام نے اس نعرے کو عزت دی، غیرت کی علامت سمجھا اور اسے اپنی اجتماعی زبان بنا لیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ نعرہ محض انتخابی جلسوں اور سیاسی نفع نقصان کا حصہ بن کر رہ گیا۔ اصل امتحان تو آج ہے۔ آج جب غزہ کی زمین پر بمباری ہو رہی ہے، بچے اور عورتیں شہید ہو رہی ہیں، اسپتال اور اسکول ملبے میں بدل رہے ہیں، اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، تو پاکستان کے حکمرانوں کو حقیقت میں ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کہنے کی ضرورت ہے۔
فلسطین محض ایک علاقائی تنازع نہیں، یہ انسانیت کا امتحان ہے۔ پچھلے کئی مہینوں میں اسرائیل نے ایسی جارحیت کی ہے جس کی مثال جدید تاریخ میں کم ملتی ہے۔ امریکا اور مغربی طاقتیں کھلم کھلا اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں، اقوامِ متحدہ بے بس نظر آتی ہے، اور امت مسلمہ کی اکثریت صرف زبانی دعووں پر اکتفا کر رہی ہے۔ کچھ حکمران خاموش ہیں، کچھ منافقانہ بیانات دے کر اپنے دامن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام تنہا کھڑے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب پاکستان کو قائداعظم کے اصولی موقف پر ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے۔ فلسطین کا معاملہ پاکستان کے نظریاتی وجود سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارے سیاستدان اور حکمران طبقہ جب اپوزیشن میں ہوتا ہے تو بڑے بڑے دعوے کرتا ہے۔ ’’ہم امریکا کی غلامی قبول نہیں کریں گے‘‘، ’’ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے‘‘ اور ’’ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ جیسے بیانات دیے جاتے ہیں۔ لیکن جب اقتدار میں آتے ہیں تو خاموشی، مصلحت اور غلامانہ طرزِ عمل ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ یہ تضاد ہماری سیاست کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ عوام کو نعرے دے کر جذباتی بنایا جاتا ہے، لیکن عملی اقدامات صفر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ محض ایک تقریری جملہ بن کر رہ گیا، جبکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کا کردار صرف بیانات تک محدود ہے۔
اصل غیرت یہ ہے کہ پاکستان کھل کر اسرائیل کے وجود کو ناجائز قرار دے اور ہر عالمی پلیٹ فارم پر اس کے بائیکاٹ کا اعلان کرے۔ لیکن یہاں تو اسرائیل سے تعلقات کے دروازے کھولنے کی سازشیں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔ کبھی خفیہ ملاقاتوں کی خبریں آتی ہیں، کبھی غیر ملکی دباؤ کا ذکر ہوتا ہے، اور کبھی اقتصادی بحران کو جواز بنا کر یہ کہا جاتا ہے کہ تعلقات قائم کرنے میں فائدہ ہے۔ یہ رویہ نہ صرف قائد کے نظریے کی توہین ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کے جذبات سے کھلا مذاق ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے صاف اور دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر ہماری خارجہ پالیسی کھڑی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کے حکمران اس اصولی موقف کو محض کاغذی حقیقت بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو وقتی بیانات دے کر بہلایا جا سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کے دل میں فلسطین کا درد زندہ ہے اور وہ ہر حال میں اپنے حکمرانوں سے اصولی موقف کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر واقعی ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کہنا ہے تو یہی وقت ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہر کوشش، ہر سازش اور ہر دباؤ کو دوٹوک جواب دینا ہی قائد کے نظریے کے ساتھ وفاداری ہے۔
آج فلسطین لہو لہان ہے مگر امت مسلمہ کے اکثر حکمران اپنے تجارتی معاہدوں، تیل کی دولت اور مغربی مفادات کے اسیر ہیں۔ کچھ ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر چکے ہیں، کچھ تعلقات قائم کرنے کے لیے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔ یہ امت مسلمہ کے لیے سب سے بڑی شرمندگی ہے۔ اگر مسلمانوں کی ایک ارب سے زائد آبادی کے ہوتے ہوئے ایک چھوٹی سی ناجائز ریاست ظلم اور درندگی کے ذریعے اپنی مرضی چلاتی ہے، تو یہ ہماری اجتماعی بے حسی اور کمزوری کا کھلا ثبوت ہے۔ یہی اصل وقت ہے کہ پاکستان دنیا کو دکھائے کہ ابھی بھی کچھ اصول باقی ہیں، ابھی بھی کچھ قومیں اپنی غیرت پر سودا نہیں کرتیں۔ ورنہ تاریخ ہمیں بھی ان غداروں کی فہرست میں لکھ دے گی جنہوں نے فلسطین کو بیچ دیا۔ ہماری آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ پر بم برس رہے تھے تو تم کہاں تھے؟ جب معصوم بچوں کی لاشیں زمین پر بکھری تھیں تو تم نے کیا کیا؟ اور اس وقت ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔
حکمران اپنی مصلحتوں میں الجھے رہتے ہیں، مگر اصل طاقت عوام کے پاس ہے۔ پاکستانی عوام ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ سڑکوں پر نکل کر، اپنی آواز بلند کر کے اور سوشل میڈیا پر فلسطین کی حمایت کر کے ہم دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کا دل فلسطین کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اگر حکمران دوغلا پن دکھائیں تو عوام کا فرض ہے کہ انہیں یاد دلائیں: ایبسولیوٹلی ناٹ صرف ایک جملہ نہیں، یہ ایک عہد ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم نعرے اور تقریروں سے آگے بڑھیں۔ اگر واقعی غیرت ہے تو امریکا کے دباؤ کو مسترد کریں، اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کریں، اور قائداعظم کے اصولی مؤقف پر ڈٹ جائیں۔ یہ کوئی سیاسی فائدے کا کھیل نہیں بلکہ نظریاتی جنگ ہے۔ اگر پاکستان اس وقت کمزور ہوا تو صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ خود ہمارا وجود بھی سوالیہ نشان بن جائے گا۔
فلسطینی عوام کو ہماری پشت پناہی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ پاکستان کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ غلامی کے خول میں بند رہنا چاہتا ہے یا عزت کے ساتھ دنیا کے سامنے کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ پاکستان کو آج ایک فیصلہ کرنا ہے۔ یا تو ہم تاریخ کے صفحات پر قائداعظم کے وارث کہلائیں گے، یا پھر ان قوموں میں شمار ہوں گے جنہوں نے اپنی غیرت اور ایمان کو دنیاوی مصلحتوں پر قربان کر دیا۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ایبسولیوٹلی ناٹ — اب صرف نعرہ نہیں، پاکستان کا مستقل اعلان ہونا چاہیے۔