خطرے کی گھنٹی یاحوصلے کاپرچم؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
جہاںایک طرف ’’رافال‘‘ بمقابلہ ’’جے10سی‘‘ کی ہوائی جھڑپوں پردنیا کی نظریں مرکوز ہیں،وہیں سوال یہ بھی جنم لیتاہے کہ آیایہ سب ایٹمی جنگ کے دہانے کی طرف پیش قدمی ہے؟ کیابرصغیرکی فضاؤں میں گونجتی ہوئی جنگی گرج مستقبل کی امن فاختاؤں کوہمیشہ کیلئے خاموش کردے گی؟
پاکستان میں گرائے گئے اسرائیلی ساختہ ہاروپ ڈرون ہویابراہموس میزائل کاراستہ بھٹک جانایہ سب نئی جنگی حکمتِ عملی کاحصہ ہیں،جہاں انسان کم اورمشینیں زیادہ بولتی ہیں۔یہ دراصل چوتھی نسل کی جنگ(فورتھ جنریشن وارفیئر)ہے جہاں دشمن کا چہرہ دھندمیں چھپاہوتاہے اورحملہ خاموش ہوتاہے۔ ہاروپ ڈرون اب محض جاسوسی نہیں کرتے بلکہ وہ ’’لوئٹیرنگ ایمونیشن‘‘جیسے خفیہ ہتھیاروں میں تبدیل ہوچکے ہیں جوفضامیں شکارکی تلاش میں گردش کرتے ہیں۔یہ حکمتِ عملی نہ صرف دفاع بلکہ نفسیاتی برتری کابھی ایک آلہ بن چکی ہے۔ان ڈرونزکے ناقابل تسخیرہونے کے اسرائیلی جنگی مافیاکوشدیددھچکاپہنچا جب اس کاساراجنگی غرورخاک میں مل گیااورپاکستان نے نہ صرف درجنوں ڈرون مارگرائے بلکہ نصف درجن ڈرونزکوجام کرکے زمین پراتارلیاگیااور اب ان کے ماتھے پرخطرات کاپسینہ خشک ہونے کانام نہیں لے رہاکہ اس طرح ان کی یہ ٹیکنالوجی بھی پاکستان کے ہتھے لگ گئی ہے۔
اسرائیل اوربھارت تویہ سمجھتے تھے کہ یہ ڈرون دشمن کوناقابل تلافی نقصان پہنچاکراسے لاغرکردیتاہے لیکن اسرائیل کایہ دعویٰ بھی اقوام عالم کے دفاعی تجزیہ نگاروں کیلئے مذاق کا نشانہ بن گیا ہے۔پاکستان کی جانب سے گرائے گئے اسرائیلی ساختہ ڈرونز، براہموس میزائل کابھٹک جانا، اور فضائی حدود کی خلاف ورزیاں صرف عسکری معاملات نہیں،بلکہ جدید ٹیکنالوجی کی اس جنگ کاحصہ ہیں جومستقبل کے محاذوں کی نقشہ کشی کررہی ہیں۔
عسکری سائنس میں اب یہ ممکن ہے کہ کسی فضائی حملے یادراندازی کوالیکٹرانک سگنیچر سے پرکھاجائے۔یہ طریقہ نیٹوافواج نے1991ء کی خلیجی جنگ میں استعمال کیاتھا۔ پاکستان پاکستان اوربھارت کے دعوے اسی جدیداصول پرپرکھے جارہے ہیں۔یادرہے کہ پاکستانی فضائیہ نے بالاکوٹ کی فضائی ڈاگ فائٹ کے بعدنہ صرف ایک مرتبہ پھرنئی فضائی تاریخ رقم کی،بلکہ عالمی میڈیا کی توجہ کامرکزبن گئی۔اس سے قبل بالاکوٹ کی جھڑپ میں پاکستانی فضائیہ نے نہ صرف بھارتی فضائیہ کے دواہم طیارے مار گرائے تھے بلکہ اپنی فضائی حدودمیں واضح برتری کاعملی مظاہرہ بھی کیا۔آزادذرائع،سیٹلائٹ فوٹیج اور آزاد مبصرین کی رپورٹس نے تصدیق کی تھی کہ بھارت کوبھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
اب ایک مرتبہ پھربھارت کوپہلے سے بھی کہیں زیادہ نقصان اٹھاناپڑاہے۔مودی مسلسل اپنے گودی میڈیاپراپنی جھوٹی فتح کے نعرے لگواتا رہا، لیکن جب اس سے اگلے دن پاکستانی حملے نے مودی کے پروپیگنڈے کے غبارے کو پھوڑ کر رکھ دیااوررافیل سمیت دوسرے جہازوں کی ارتھی اسی کی سرزمین پرسجادی تومودی اور اسرائیل کواپنے آقاٹرمپ کے پاؤں پکڑنے پڑے توتب جاکرسیزفائرہوا۔
اس مبینہ ڈاگ فائٹ پرانڈین حکام نے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیاجبکہ پاکستانی فضائیہ کے ڈپٹی چیف آف ایئرآپریشنزایئروائس مارشل اورنگزیب کا کہنا تھاکہــ ’’یہ ایک بی وی آر( بیونڈ ویژیول رینج) لڑائی تھی جس میں انڈیاکے70جنگی طیاروں اور پاکستان کے40جنگی طیاروں نے حصہ لیا،یعنی کل100سے زیادہ طیارے تھے جوکہ ہوابازی کی تاریخ میں پہلی بارہواہے۔پاکستانی فضائیہ کی طرف سے اس کارروائی میں جے ایف17اور جے10طیاروں نے حصہ لیاتاہم انہوں نے اس حوالے سے تبصرہ نہیں کیاکہ آیاپاکستان نے چینی ساختہ پی ایل15استعمال کیا۔
ان کاکہناتھاکہ پاکستان کافضائی دفاعی نظام بہت مؤثرہے اور’’ایک کِل اسی(زمین سے فضامیں مارکرنے)کی بدولت ممکن ہوا‘‘۔انہوں نے دعویٰ کیاکہ یہ کارروائی ایک گھنٹے تک جاری رہی۔انڈین طیاروں کے رونماہونے کے بعدپاکستانی فضائیہ نے اپناملٹی ڈومین آپریشن شروع کیا‘‘۔ انہوں نے دعویٰ کیاکہ6مئی کی شب ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ڈاگ فائٹ میں انڈین فضائیہ کے72طیاروں میں سے14رفال طیاروں کی الیکٹرانک نشاندہی کی گئی تھی جبکہ پاکستان نے اس آپریشن میں42جنگی طیارے استعمال کیے۔ان کاکہناتھاکہ لاہور،اسلام آباد اور دیگرفضائی حدودمیں سویلین ایئرٹریفک کی حفاظت کیلئے اس کاراستہ تبدیل کروایاگیا۔
ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمدکے مطابق جیسے ہی انڈین طیاروں نے اپنے ہتھیار استعمال کیے توپاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے ‘ہوامیں رولزآف دی گیم تبدیل کرلیے ،انڈیا نے پچھلی بارکہاتھاکہ اگران کے پاس رفال ہوتے تو نتیجہ کچھ اورہوتا۔توہم نے رفال طیاروں کونشانہ بنایا۔ ہمارے پاس مزیدنمبرزہوسکتے تھے مگرہم نے تحمل دکھایا’’۔پاکستانی فضائیہ نے دعویٰ کیاکہ تین رفال طیارے بھٹنڈہ،جموں اورسرینگرکے قریب مارگرائے گئے جبکہ مگ29اور سو30 کوسرینگر کے پاس مارگرایاگیا۔بعدازاں عالمی میڈیاپران کی تباہی کے ویڈیونے انڈین گودی میڈیاکومنہ بندرکھنے پرمجبورکیا۔دلچسپ امریہ ہے کہ خودبھارتی ایئرچیف مارشل کی سطح پراس نقصان کااعتراف کیاگیا۔ ان کاکہناتھا’’ہمیں کچھ نقصانات ضرورہوئے ہیں جن پرنظرثانی کی جارہی ہیـ‘‘۔ یہ اعتراف گویااس خفت کاعکس تھا جو انڈین فضائیہ کوبالاکوٹ کے بعدپہلے ہی برداشت کرنا پڑا تھا۔اس وقت بھی پاکستان نے نہ صرف دو بھارتی جہازگرائے تھے بلکہ ونگ کمانڈرابھی نندن کوزندہ گرفتارکرکے عالمی سطح پراخلاقی وعسکری برتری حاصل کی تھی۔
یادرہے،بالاکوٹ کے بعدہی انڈیانے یہ شکوہ کیاتھاکہ اگرہمارے پاس رافیل طیارے ہوتے تو نتیجہ مختلف ہوتامگرآج،رافیل کی موجودگی کے باوجودنتائج وہی رہے،بلکہ اس بار پاکستانی جے-10سی طیاروں نے نہ صرف مقابلہ کیابلکہ فضائی حدودمیں دشمن کے عزائم کو ملیامیٹ کردیا۔یہ نئی کامیابی پاکستانی فضائیہ کیلئیایک ایسا تمغہ ہے جس نے 1965 ء کے ایم ایم عالم کے کارنامے کی یادتازہ کردی۔بین الاقوامی دفاعی جریدے ’’جینزڈیفنس ویکلی‘‘اور’’دی نیو یارک ٹائمز‘‘ سمیت عالمی اداروں نے تسلیم کیاکہ اس ڈاگ فائٹ میں پاکستان نے عسکری،تزویراتی اورٹیکنالوجیکل اعتبار سے بازی اپنے نام کی۔
امریکاجنوبی ایشیا میں ہمیشہ سے ایک متذبذب نگران کا کردار ادا کرتا آیا ہے۔ امریکاکی آئندہ حکمتِ عملی یقیناہمارے سامنے ہے اور امریکاکی سلامتی کونسل میں اسرائیلی مظالم کو روکنے کیلئے سلامتی کونسل میں جوقراردادلائی گئی، اس کوامریکانے ویٹوکرکے مستردکردیاجس کی ساری دنیامیں مذمت کی جارہی ہے اوراس وقت انڈیاکواسرائیل کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں وہ انڈیامیں آکر پاکستان کاہمسایہ بن چکاہے تاہم موجودہ حالات میں واشنگٹن کی توجہ تائیوان، یوکرین اورمشرقِ وسطی کی جانب بھی منقسم ہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ خطے میں اس کاکرداراب محض ثالث یاتماشائی کانہیں رہے گابلکہ وہ چین کے خلاف ــ ’’اسٹرٹیجک کنٹینمنٹ‘‘ کے تحت بھارت کو دفاعی ہتھیار، سیٹلائٹ ڈیٹا اور عسکری تعاون فراہم کرے گااوراسرائیل بھی انڈیاکوجدیداسلحہ فروخت کرکے اپنامال بھی بناتارہے گا۔
یہی حکمت عملی سردجنگ کے زمانے میں پاکستان کے ساتھ اپنائی گئی تھی،اورآج وہی نکتہ نظربھارت کے ساتھ دہرایاجارہاہے۔ امریکاچین کوروکنے کیلئے بھارت کی عسکری مضبوطی کو ضروری سمجھتاہے،مگراس کانتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان مکمل طورپرچین کے بلاک میں چلاجائے۔یوں خطہ ایک نئی سردجنگ کے دہانے پرآکھڑاہواہے۔
یہ سوال ہنوزقائم ہے:کیابرصغیراپنی تاریخ کے المیوں سے کچھ سیکھ پائے گا؟یاماضی کی طرح پھرکوئی لمحہ،کوئی سیاست،کوئی فقرہ ایک ایسی جنگ کوجنم دے گاجس کاکوئی فاتح نہ ہوگا؟ تاریخ کی راہوں پرجب قومیں اپنے نظریات، عسکری بصیرت،اورتہذیبی شعورکے ساتھ چلتی ہیں، توصرف جنگ نہیں جیتی جاتیں،بلکہ نسلیں محفوظ ہوتی ہیں۔یہ تنازع ہمیں ایک بارپھر یاد دلاتاہے کہ طاقت صرف بندوق کی گرج میں نہیں، دانش کی گہرائی اورگفتارکی بلاغت میں بھی پنہاں ہوتی ہے۔
یہ خطہ،جوکبھی شاعروں کی نغمگی، صوفیوں کی نرمی اورمفکرین کی حکمت کاگہوارہ رہا، کیادوبارہ خون کی چھینٹوں سے لت پت ہو گایاامن کی امیدبن کرجگمگائے گا؟جواب ہمارے بیانئے میں ہے،ہماری قیادت میں ہے،اورہماری دعامیں ہے۔وقت کاتقاضا ہے کہ دشمنی کے خیمے لپیٹے جائیں اورامن کے دیئے روشن کیے جائیں۔ مودی اگرسندورمیں خون گھول دے،توامن کی ہردعا ردہوجاتی ہے۔
انتخاب ہمارا باقی ہے۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ جنگ کون جیتے گا؟ بلکہ ’’اسے روکنے کی ہمت کون کرے گا؟‘‘اس سرزمین کی تقدیر کا اگلا باب، غصہ نہیں، حکمت کو لکھنے دیں، لیکن مجھ جیسے لاتعداد امن پسندوں کو اس بات کا خوف کیوں ہے کہ امن کے بدنام زمانہ دشمنوں سے اس خوبصورت دنیا کو چھڑانے کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں؟ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ امن دشمن اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا پیغام چھوڑ کر جائیں گے؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستانی فضائیہ نے پاکستان نے کہ پاکستان فضائیہ کے طیاروں نے ڈاگ فائٹ ہے اور
پڑھیں:
پاکستان ریلوے کے 87 فیصد ٹریک زائدالمعیادہونے کاانکشاف
— وزیرِ ریلوے حنیف عبا سی نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ پاکستان ریلوے کے 87 فیصد ٹریک اپنی مدتِ استعمال سے تجاوز کر چکے ہیں، جس کے باعث نہ صرف مسافروں کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں بلکہ ٹرین سروسز میں تاخیر بھی معمول بنتی جا رہی ہے۔
قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ مین لائن-2 (ML-2) کا 88 فیصد حصہ ،مین لائن-3 (ML-3) کا 92 فیصد(کل 991 کلومیٹر میں سے) اور برانچ لائنز کا تقریباً 98 فیصد (کل 3840 کلومیٹر میں سے) زائد المیعاد ہو چکا ہے۔
حنیف عباسی کے مطابق ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ (انفراسٹرکچر) خستہ حالی کا شکار ہے جبکہ سگنلنگ سسٹم بھی چوری اور موسم کی سختیوں کے باعث شدید متاثر ہوا ہے جس سے ٹرین آپریشنز میں خلل اور سیکیورٹی خطرات بڑھ گئے ہیں۔ ان حالات میں احتیاطی طور پر ٹرینوں کی رفتار کم کر دی گئی ہے۔
صرف پٹری ہی نہیں، بلکہ پاکستان ریلوے کے دیگر اثاثے بھی فرسودہ ہو چکے ہیں:
موجودہ 1634 مسافر کوچز میں سے 1183 کوچز اپنی معیاد پوری کر چکی ہیں۔
439 ڈیزل الیکٹرک انجنوں میں سے 233 انجن بھی زائد المیعاد قرار دیے جا چکے ہیں۔
یہ صورتحال ملک کے ریلوے نظام کی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ ریلوے نہ صرف ایک عوامی سفری سہولت ہے بلکہ معاشی ترقی کا اہم ذریعہ بھی ہے، جس کے لیے بنیادی اصلاحات اور سرمایہ کاری ناگزیرہوتی جا رہی ہے۔