واشنگٹن:

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر عائد مالی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک نیا صدارتی حکم نامہ جاری کیا ہے، جسے  خصوصاً صدر بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد وائٹ ہاؤس نے شام میں استحکام کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق یہ ایگزیکٹو آرڈر 2004 کے اُس اعلان کو منسوخ کرتا ہے جس کے تحت شام کی حکومت کے اثاثے منجمد کیے گئے تھے اور کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام کی بنیاد پر برآمدات پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

اگرچہ اس اقدام سے بیشتر مالی پابندیاں ختم ہو جائیں گی، تاہم کچھ پابندیاں بدستور برقرار رہیں گی، جن میں 2019 کے قیصر سیریئن سویلین پروٹیکشن ایکٹ (Caesar Syria Civilian Protection Act) کے تحت عائد کردہ پابندیاں شامل ہیں۔

ان پابندیوں کا مقصد شام میں تعمیر نو اور قدرتی گیس کی ترقی کے لیے مالی معاونت کو محدود رکھنا ہے، جبکہ شام کو دہشت گردی کی معاون ریاست قرار دینے کا امریکی اعلان بھی برقرار رہے گا۔

نئے حکم نامے کے تحت وزیر خارجہ مارکو روبیو کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ قیصر ایکٹ کے تحت بعض پابندیوں کی معطلی پر غور کریں، مخصوص اشیاء کی برآمدات پر کنٹرول میں نرمی کی اجازت دیں، اور غیر ملکی امداد پر عائد بعض پابندیوں کو ختم کریں۔

اس کے علاوہ وزیر خارجہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ شامی رہنما احمد الشراع کی دہشت گرد فہرست میں شمولیت اور شام کی بطور دہشت گردی کی معاون ریاست حیثیت کا جائزہ لیں، اور اقوام متحدہ کے ذریعے پابندیوں میں نرمی کے ممکنہ اقدامات پر بھی غور کریں۔

شامی وزیر خارجہ اسعد حسن الشیبانی نے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کے تاریخی ایگزیکٹو آرڈر کے تحت شام پر عائد زیادہ تر پابندیوں کے خاتمے سے اقتصادی بحالی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اس سے تعمیر نو، انفراسٹرکچر کی بحالی اور بے گھر شامیوں کی باعزت واپسی کے لیے ضروری حالات پیدا ہوں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے لیے کے تحت

پڑھیں:

یورپ کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر امریکہ کی تنقید

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اگست 2025ء) امریکہ نے یہ الزام اس سالانہ عالمی رپورٹ میں لگایا ہے، جو مختصر کر دی گئی ہے اور جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اتحادی ممالک جیسے کہ السلواڈور سے صرف نظر کیا گیا ہے۔

امریکی کانگریس کی منظوری سے تیار کی جانے والی ملکی محکمہ خارجہ کی یہ رپورٹ روایتی طور پر ہر ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ پیش کرتی رہی ہے، جس میں غیر منصفانہ حراست، ماورائے عدالت قتل اور شخصی آزادیوں جیسے مسائل کو غیر جانبدارانہ انداز میں بیان کیا جاتا رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی قیادت میں محکمہ خارجہ نے اپنی ایسی پہلی رپورٹ میں سے کچھ حصے کم کر دیے ہیں، اور خاص طور پر ان ممالک کو ہدف بنایا ہے، جو صدر ٹرمپ کی طرف سے تنقید کی زد میں ہیں۔

(جاری ہے)

ان میں برازیل اور جنوبی افریقہ بھی شامل ہیں۔

چین کے بارے میں، جسے امریکہ طویل عرصے سے اپنا سب سے بڑا حریف قرار دیتا آیا ہے، اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر مسلمان ایغور عوام کے خلاف ''نسل کشی‘‘ جاری ہے، جس پر روبیو نے بطور سینیٹر بھی آواز اٹھائی تھی۔

تاہم اس رپورٹ نے امریکہ کے کچھ قریبی اتحادیوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں آن لائن نفرت انگیز تقاریر پر ضوابط کی وجہ سے انسانی حقوق کی صورت حال بگڑ گئی ہے۔

رپورٹ میں اور کیا ہے؟

برطانیہ میں تین کم عمر لڑکیوں کے چاقو سے قتل کے بعد حکام نے انٹرنیٹ صارفین کے خلاف کارروائی کی، جنہوں نے جھوٹا الزام لگایا تھا کہ اس کا ذمہ دار ایک مہاجر ہے اور بدلہ لینے کی ترغیب دی تھی۔

امریکی محکمہ خارجہ کی اس رپورٹ میں برطانوی اقدامات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حکام نے ''اظہار رائے کو سرد کرنے‘‘ کے لیے بار بار مداخلت کی، اور کہا کہ اس قریبی امریکی اتحادی ملک میں ''اظہار رائے کی آزادی پر سنگین پابندیوں کی معتبر اطلاعات‘‘ سامنے آئی ہیں۔

یہ تنقید ایسے وقت پر سامنے آئی ہے، جب مارکو روبیو نے امریکہ میں غیر ملکی شہریوں، خاص طور پر ایسے طلبہ کارکن جو اسرائیل پر تنقید کرتے ہیں، کے ویزے ان کے بیانات اور سوشل میڈیا پوسٹس کی بنیاد پر روکنے یا منسوخ کرنے کے لیے جارحانہ اقدامات کیے ہیں۔

یورپ پر نکتہ چینی

صدر ٹرمپ ایک پرجوش سوشل میڈیا صارف ہیں، جو اکثر اپنے مخالفین پر ذاتی انداز میں حملہ کرتے ہیں۔ ان کی انتظامیہ نےیورپ پر بار بار ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندیوں کے حوالے سے تنقید کی ہے، جن میں سے اکثر کا تعلق امریکہ سے ہے۔

فروری میں نائب صدر جے ڈی وینس نے جرمنی کے دورے کے دوران دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت اے ایف ڈی کی حمایت کی، حالانکہ ملک کی خفیہ ایجنسی نے اسے انتہا پسند قرار دیا تھا۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ 2024 میں برازیل میں انسانی حقوق کی صورت حال مزید خراب ہوئی، جہاں ٹرمپ نے اپنے اتحادی سابق صدر جیئر بولسونارو پر مقدمہ چلانے کی مخالفت کی ہے، جن پر تختہ الٹنے کی سازش کا الزام ہے، جو 6 جنوری 2021 کو امریکہ میں کیپیٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کے حملے سے مشابہت رکھتا ہے۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • پوٹن سے مذاکرات ناکام ہوئے تو بھارت پر مزید ٹیرف لگائیں گے، ٹرمپ
  • پابندیوں کی دھمکی شاید پیوٹن کو ملاقات پر آمادہ کرنے میں مؤثر ثابت ہوئی، ٹرمپ
  • امریکا کی بھارت پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی
  • پوٹن سے مذاکرات ناکام ہوئے تو بھارت پر مزید ٹیرف لگائیں گے؛ ٹرمپ
  • ایران کے ایٹمی پروگرام پر یورپی ممالک کا سخت انتباہ، دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا عندیہ
  • ٹرمپ۔ پیوٹن سربراہی اجلاس: امریکا کی روس پر پابندیوں میں عارضی نرمی
  • پاکستان کے یوم آزادی پر امریکی وزیر خارجہ اور کانگریس اراکین کی مبارکبادیں 
  • یورپ کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر امریکہ کی تنقید
  • امریکی پابندیوں کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دینے کا وقت آ گیا ہے، عراقچی
  • پاکستان اور امریکا میں انسداد دہشتگردی سے متعلق مذاکرات ہو رہے ہیں: ٹیمی بروس