پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم، خیبرپختونخوا حکومت بھی خطرے میں؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
پشاور(نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ہے، وہیں خیبر پختونخوا میں قائم علی امین گنڈاپور کی حکومت بھی سیاسی دباؤ اور اندرونی اختلافات کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔
عدالت کے حکم پر 21 مخصوص نشستیں اپوزیشن جماعتوں کو ملنے سے نہ صرف اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اکثریت متاثر ہوئی ہے بلکہ وزیراعلیٰ کی پوزیشن بھی متزلزل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور کو پارٹی کے اندر عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہنوں سے اختلافات کا سامنا ہے، جبکہ حکومتی امور پر ان کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ ان پر نہ صرف اندرونِ پارٹی تنقید ہو رہی ہے بلکہ پارٹی کے کچھ حلقوں میں بغاوت کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 145 رکنی خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کی تعداد بڑھ کر 54 ہوجائے گی۔ خواتین کی مخصوص 26 نشستوں میں سے 21 اور اقلیتوں کی 4 نشستیں مختلف جماعتوں کو دی گئی ہیں جن میں جے یو آئی (ف) کو 10، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو 7، اے این پی کو 1 اور پی ٹی آئی کو صرف 1 نشست ملی ہے۔ اس تقسیم سے اپوزیشن کو تقویت ملی ہے جبکہ پی ٹی آئی کی بالادستی کمزور ہوئی ہے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار علی اکبر کے مطابق مخصوص نشستوں کا یہ فیصلہ وفاقی حکومت کے لیے حوصلہ افزا ہے اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے اقتدار کو واضح دھچکا ہے۔ ان کے بقول، اگرچہ بظاہر علی امین کو دوتہائی اکثریت حاصل ہے، لیکن اندرونی گروپ بندی اور قائدین سے اختلافات کے باعث وہ مشکل میں ہیں۔
علی اکبر نے انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت، خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن کے تعاون سے، خیبر پختونخوا میں عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت گرانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا اگر تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی تو اسی دن علی امین کی حکومت ختم ہو سکتی ہے۔
صحافی عمیر یاسر کے مطابق علی امین اس وقت پارٹی میں سب سے طاقتور شخصیت ہیں، اور اپنی سخت گیر حکمتِ عملی سے اراکین کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن پارٹی کے اندر اُن کے مخالف گروہ بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر علی امین کو ہٹایا گیا تو وہ اپنے گروپ کے ساتھ پارٹی کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں، جس سے سب سے زیادہ نقصان خود پی ٹی آئی کو ہوگا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ آیا مخصوص نشستوں پر نامزد اراکین آسانی سے حلف لے سکیں گے یا نہیں۔ پی ٹی آئی پہلے ہی فیصلے کو مسترد کر چکی ہے اور صوبائی اسمبلی کا یکم جولائی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرکے، بظاہر نئے اراکین کی حلف برداری میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عمیر یاسر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ہر ممکن طریقے سے حلف برداری کو روکنے کی کوشش کرے گی، اور معاملہ ایک بار پھر عدالت جا سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی جانتی ہے کہ آخرکار اراکین حلف اٹھا لیں گے، مگر تاخیری حربے استعمال کیے جائیں گے تاکہ سیاسی وقت خریدا جا سکے۔
سیاسی منظرنامہ واضح ہے، خیبر پختونخوا میں حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے، اپوزیشن متحرک ہے، اور پی ٹی آئی اندرونی خلفشار کا شکار۔ اگر سیاسی چالیں اسی رفتار سے چلتی رہیں، تو جلد ہی صوبے میں ایک نئی سیاسی صف بندی کا آغاز ہو سکتا ہے۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستوں پی ٹی آئی پارٹی کے علی امین
پڑھیں:
بنگلہ دیش میں انصاف کی فتح‘ بھارت کے علاقائی تسلط کی ناکامی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) بنگلہ دیش میں عوامی انصاف کی فتح: بھارت کے علاقائی تسلط کی ناکامی ہے۔ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو عدالت کی طرف سے دی گئی سزائے موت کا فیصلہ نہ صرف بنگلہ دیش میں قانون کی بالادستی کی بحالی کا ایک تاریخی لمحہ ہے بلکہ یہ خطے میں بھارت کے سیاسی اثر و رسوخ کی ناکامی کا بھی واضح ثبوت ہے۔ شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور حکومت کو بنگلہ دیش میں دہشت زدہ دور کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جس میں بدعنوانی، ریاستی تشدد اور جبری گمشدگیاں عروج پر تھیں۔ سزا اس بات کا اشارہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بالآخر انتقامی سیاست کا دور ختم ہوا، اور آئندہ تمام سیاسی قیدیوں کو آزاد اور غیر جانبدارانہ انصاف ملنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے دور حکومت کے دوران سیاسی مخالفین، خصوصاً جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں کو 1971ء کے مقدمات کے نام پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور سزائے موت جیسی سخت ترین سزائیں دی گئیں۔ ان مقدمات کو بین الاقوامی سطح پر سیاسی انتقام اور غیر منصفانہ ٹرائل قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد بھارتی حکومت اور ان کے حامی میڈیا کی جانب سے جس غم و غصے کا اظہارر کیا جا رہا ہے، وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ شیخ حسینہ درحقیقت بھارت کی علاقائی حکمت عملی کا سب سے اہم ستون تھیں۔ وہ دہلی کے مفادات کو ترجیح دیتی تھیں، جس کی وجہ سے بھارت کو اپنی شمال مشرقی ریاستوں کی سکیورٹی اور ٹرانزٹ کے حوالے سے مکمل تحفظ حاصل تھا۔ ان کے جانے سے، بھارت نے اپنا بنگلہ دیش میں سب سے بڑا سیاسی مہرہ کھو دیا ہے، اور اس کا علاقائی تسلط شدید کمزوری کا شکار ہوا ہے۔ شیخ حسینہ کے قریبی بھارتی جھکاؤ کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں تناؤ رہا۔ اب جبکہ ایک بھارت نواز حکومت کا سیاسی انجام ہو چکا ہے، بنگلہ دیش کی نئی قیادت کو یہ موقع ملے گا کہ وہ غیر ملکی دباؤ سے نکل کر پاکستان سمیت تمام ہمسایوں کے ساتھ مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر متوازن تعلقات قائم کرے۔ یہ پاکستان کے لیے خطے میں امن اور سارک (SAARC) جیسے پلیٹ فارمز کو فعال کرنے کا بہترین سفارتی موقع ہے۔ طلبہ تحریک کی شکل میں شروع ہونے والا احتجاج جو بعد میں ملک گیر بغاوت میں تبدیل ہو گیا شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو گرانے کا سبب بنا۔ احتجاج کے دوران شیخ حسینہ کی حکومت نے سخت ترین ریاستی کریک ڈاؤن کیا جس میں پولیس کی جانب سے شہریوں پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں۔ اس احتجاج کے دوران تقریباً 1400 افراد ہلاک ہوئے جو 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش میں سیاسی تشدد کی بدترین مثال ہے۔