Islam Times:
2025-10-04@16:58:13 GMT

حزب اللہ کی مزاحمت و مقاومت میں خواتین کا کردار

اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT

حزب اللہ کی مزاحمت و مقاومت میں خواتین کا کردار

لبنان کی ایک ماہر تعلیم اور تربیتی اور تعلیمی مشیر محترمہ فاطمہ نصراللہ نے اسلام ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ لبنان کی مزاحمت کے مرکز میں خواتین اپنے روایتی کرداروں سے ہٹ کر ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف مائیں اور بیویاں ہیں بلکہ انہیں ایک مزاحمتی معاشرے کے تسلسل کا بنیادی ستون اور آنے والی نسلوں کی تعلیم کے لیے ایک زندہ درسگاہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ مزاحمت کے دشمنوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ یہ خواتین معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں اور اسی وجہ سے وہ ان کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ انٹرویو: معصومہ فروزان

جبر اور جارحیت کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد میں مصروف معاشروں میں خواتین کا کردار گھر اور خاندان کی حدود سے ماورا ہو جاتا ہے۔ وہ نہ صرف ماؤں اور بیویوں کے طور پر بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے استاد،مربی، سرپرست اور رہنما کے طور پر بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ عزت،وقار، ہمت اور قربانی کی اقدار کے ساتھ بچوں کی پرورش  ایک اہم اقدام ہے اور یہ تربیت ماضی اور آنے والی نسلوں کے درمیان گہرا رشتہ اور تعلق پیدا کرتی ہے اور اسے ثقافتی اور سماجی شناخت اور مزاحمت کے تسلسل کا بنیادی ستون بھی سمجھا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں خواتین آنے والی نسلوں کی روح اور ایمان کی تشکیل کا بنیادی محور ہوتی ہیں اور اسلامی مزاحمت کے لئے ان کا اثر کسی بھی فوجی ہتھیار یا آلے سے کم نہیں ہوتا ہے۔

لبنان کی ایک ماہر تعلیم اور تربیتی اور تعلیمی مشیر محترمہ فاطمہ نصراللہ نے اسلام ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ لبنان کی مزاحمت کے مرکز میں خواتین اپنے روایتی کرداروں سے ہٹ کر ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف مائیں اور بیویاں ہیں بلکہ انہیں ایک مزاحمتی معاشرے کے تسلسل کا بنیادی ستون اور آنے والی نسلوں کی تعلیم کے لیے ایک زندہ درسگاہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ مزاحمت کے دشمنوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ یہ خواتین معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں اور اسی وجہ سے وہ ان کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھتی ہیں۔

انہوں نے آنے والی نسلوں کی شخصیت کی تشکیل میں خواتین کے کردار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ "مزاحمتی معاشرے میں خواتین ایک ایسی درسگاہ ہیں جو اپنے بچوں کو عزت و وقار کو  برقرار رکھنے، اس کی حفاظت کرنے، وطن کی سرزمین سے محبت کرنے اور کسی بھی جارح کے خلاف اپنی سرزمین کی حفاظت کرنے کی تعلیم دیتی ہیں۔ تمام شعبوں میں سرگرم، باشعور اور مجاہد خواتین کی موجودگی لبنان کی اسلامی مزاحمت کی پہچان ہے۔ یہ خواتین اپنے خاندانوں کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو عزت و آبرو اور جارح کے خلاف قیام کے لئے تربیت کرتی ہیں۔ اس تربیت شدہ نسل کا دشمن بھی آسانی سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔

محترمہ فاطمہ نصراللہ نے یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ "شہید ماؤں کی خصوصیت  ایسی ہے جسے دشمن شاید ہی سمجھ سکیں۔ وہ مائیں جو اپنے بچے کے شہید ہونے پر غمزدہ نہیں ہوتیں، بلکہ اس پر فخر کرتی ہیں اور اسے وطن اور قوم کے لیے قربانی سمجھتی ہیں۔" چہروں پر مسکراہٹ لیے اپنے بچوں کو محاذ پر بھیجنے والی مائیں ایک ایسی نسل کی پرورش کرتی ہیں جو شہادت کو فتح کا آغاز سمجھتی ہے نہ کہ اس کا خاتمہ۔ یہ مائیں اپنے بچوں کو ایمان اور حوصلے کے ساتھ سچائی اور معاشرے کے دفاع کی راہ پر گامزن کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ "اگرچہ اسلامی مزاحمت کے دشمن مزاحمتی معاشرے کی روایات، ثقافت اور رسوم و رواج کی بغور نگرانی کرتے ہیں، لیکن شہید ماؤں اور مجاہد خواتین  کے جذبے کی گہرائی کو وہ کبھی نہیں سمجھ سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ہتھیار یا فوجی آلہ ان خواتین کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ان خواتین نے اپنے بچوں کو حق کی راہ پر گامزن کیا اور دشمن کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرنے کا درس دیا۔ ان خواتین کے ہاتھوں پروان چڑھنے والی آنے والی نسلیں ایمان اور حوصلے کے ساتھ میدان جنگ میں نمودار ہوں گی اور اپنے وطن اور قوم کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کریں گی۔ دشمن کتنی ہی کوشش کریں وہ  فتح اور مزاحمت کے حقیقی معنی کو نہیں سمجھ سکیں گے۔  اس نسل کی پرورش میں مضمر ان خواتین کی تربیت ایک ایسا انمول خزانہ ہے جو لبنان کی حزب اللہ کو میسر ہے۔

"فاطمہ نصراللہ" نے اپنے انٹرویو کے اختتام میں کہا ہے کہ "دشمنوں کے لیے ایک ایسی نسل کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے جو باشعور، فعال اور مجاہد خواتین کے ذریعے پروان چڑھی ہو۔" یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ خواتین، جو کہ مزاحمت کا مرکز ہیں، نہ صرف گھر اور خاندان میں بلکہ قوموں کی مزاحمت کی تاریخ میں بھی اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں اور انشاءاللہ دشمن کی طرف سے ان کا مقابلہ کرنے کی کوئی بھی کوشش  ناکام اور بے نتیجہ رہے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: آنے والی نسلوں کی مزاحمتی معاشرے فاطمہ نصراللہ کرتی ہیں اور اپنے بچوں کو میں خواتین ان خواتین مزاحمت کے کا بنیادی رکھتی ہیں کی مزاحمت کہا ہے کہ لبنان کی جاتا ہے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

صمود فلوٹیلا دنیا میں مزاحمت کی ایک بہت بڑی علامت بن گیا: حافظ نعیم الرحمان

—فائل فوٹو

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ صمود فلوٹیلا دنیا میں مزاحمت کی ایک بہت بڑی علامت بن گیا۔

منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو امن منصوبہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پیش کیا ہے اس میں بنیادی فریق کا تذکرہ ہی نہیں، فلسطینی اتھارٹی تک کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔

حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے منصوبے میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں کہ فلسطینی ریاست قائم ہو گی، فلسطینی ریاست کو دنیا کے 160 ممالک نے مان لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے پاکستان کی اسرائیل کی جانب سے گلوبل صمود فلوٹیلا روکنے کی شدید مذمت اسرائیلی فوج کا صمود فلوٹیلا پر حملہ، سابق سینیٹر مشتاق احمد سمیت کئی افراد زیرِ حراست

انہوں نے کہا کہ حماس کو غیرمسلح کرنے کی بات خود ایک غیرقانونی بات ہے، حماس کو اس مسلح مزاحمت کا اختیار اقوام متحدہ کا چارٹر دیتا ہے،  یہ چاہتے ہیں کہ غزہ میں نوآبادیاتی نظام بحال کر دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے منصوبے کے اعلان سے پہلے اسے تسلیم کر لیا، امن منصوبے کو ماننے کا مطلب ہوگا کہ ہم کشمیرسے بھی اپنے مؤقف سے دستبردار ہو جائیں۔

امیر جماعت اسلامی نے یہ بھی کہا کہ ہم فلسطین کو ایک آزاد ریاست چاہتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کے خلاف مسلسل بین الاقوامی بحری مزاحمت
  • اہل عراق کا اپنے محسن شہید سید حسن نصر اللہ سے تجدید عہد
  •  غزہ امن منصوبہ ،فلسطینی مزاحمت کی ‘‘ہتھیار ڈالنے’’ کی دستاویز!
  • بیٹے کے ایک چھوٹے سوال نے میری زندگی بدل دی، کاجول کا انکشاف
  • جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے
  • نبی مکرم ؐ کی آمد کا مقصد’اللہ کے دین کا نفاذ تھا، اسما عالم
  • اہل یمن کا اپنے محسن سید حسن نصر اللہ شہید کو خراج تحسین
  • صمود فلوٹیلا دنیا میں مزاحمت کی ایک بہت بڑی علامت بن گیا: حافظ نعیم الرحمان
  • مظفرگڑھ، شہید مقاومت سیمینار 
  • مظفرگڑھ، ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام سید مقاومت کی برسی کے موقع پر شہید مقاومت سیمینار