حزب اللہ کی مزاحمت و مقاومت میں خواتین کا کردار
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
لبنان کی ایک ماہر تعلیم اور تربیتی اور تعلیمی مشیر محترمہ فاطمہ نصراللہ نے اسلام ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ لبنان کی مزاحمت کے مرکز میں خواتین اپنے روایتی کرداروں سے ہٹ کر ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف مائیں اور بیویاں ہیں بلکہ انہیں ایک مزاحمتی معاشرے کے تسلسل کا بنیادی ستون اور آنے والی نسلوں کی تعلیم کے لیے ایک زندہ درسگاہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ مزاحمت کے دشمنوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ یہ خواتین معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں اور اسی وجہ سے وہ ان کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ انٹرویو: معصومہ فروزان
جبر اور جارحیت کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد میں مصروف معاشروں میں خواتین کا کردار گھر اور خاندان کی حدود سے ماورا ہو جاتا ہے۔ وہ نہ صرف ماؤں اور بیویوں کے طور پر بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے استاد،مربی، سرپرست اور رہنما کے طور پر بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ عزت،وقار، ہمت اور قربانی کی اقدار کے ساتھ بچوں کی پرورش ایک اہم اقدام ہے اور یہ تربیت ماضی اور آنے والی نسلوں کے درمیان گہرا رشتہ اور تعلق پیدا کرتی ہے اور اسے ثقافتی اور سماجی شناخت اور مزاحمت کے تسلسل کا بنیادی ستون بھی سمجھا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں خواتین آنے والی نسلوں کی روح اور ایمان کی تشکیل کا بنیادی محور ہوتی ہیں اور اسلامی مزاحمت کے لئے ان کا اثر کسی بھی فوجی ہتھیار یا آلے سے کم نہیں ہوتا ہے۔
لبنان کی ایک ماہر تعلیم اور تربیتی اور تعلیمی مشیر محترمہ فاطمہ نصراللہ نے اسلام ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ لبنان کی مزاحمت کے مرکز میں خواتین اپنے روایتی کرداروں سے ہٹ کر ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف مائیں اور بیویاں ہیں بلکہ انہیں ایک مزاحمتی معاشرے کے تسلسل کا بنیادی ستون اور آنے والی نسلوں کی تعلیم کے لیے ایک زندہ درسگاہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ مزاحمت کے دشمنوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ یہ خواتین معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں اور اسی وجہ سے وہ ان کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھتی ہیں۔
انہوں نے آنے والی نسلوں کی شخصیت کی تشکیل میں خواتین کے کردار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ "مزاحمتی معاشرے میں خواتین ایک ایسی درسگاہ ہیں جو اپنے بچوں کو عزت و وقار کو برقرار رکھنے، اس کی حفاظت کرنے، وطن کی سرزمین سے محبت کرنے اور کسی بھی جارح کے خلاف اپنی سرزمین کی حفاظت کرنے کی تعلیم دیتی ہیں۔ تمام شعبوں میں سرگرم، باشعور اور مجاہد خواتین کی موجودگی لبنان کی اسلامی مزاحمت کی پہچان ہے۔ یہ خواتین اپنے خاندانوں کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو عزت و آبرو اور جارح کے خلاف قیام کے لئے تربیت کرتی ہیں۔ اس تربیت شدہ نسل کا دشمن بھی آسانی سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔
محترمہ فاطمہ نصراللہ نے یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ "شہید ماؤں کی خصوصیت ایسی ہے جسے دشمن شاید ہی سمجھ سکیں۔ وہ مائیں جو اپنے بچے کے شہید ہونے پر غمزدہ نہیں ہوتیں، بلکہ اس پر فخر کرتی ہیں اور اسے وطن اور قوم کے لیے قربانی سمجھتی ہیں۔" چہروں پر مسکراہٹ لیے اپنے بچوں کو محاذ پر بھیجنے والی مائیں ایک ایسی نسل کی پرورش کرتی ہیں جو شہادت کو فتح کا آغاز سمجھتی ہے نہ کہ اس کا خاتمہ۔ یہ مائیں اپنے بچوں کو ایمان اور حوصلے کے ساتھ سچائی اور معاشرے کے دفاع کی راہ پر گامزن کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ "اگرچہ اسلامی مزاحمت کے دشمن مزاحمتی معاشرے کی روایات، ثقافت اور رسوم و رواج کی بغور نگرانی کرتے ہیں، لیکن شہید ماؤں اور مجاہد خواتین کے جذبے کی گہرائی کو وہ کبھی نہیں سمجھ سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی ہتھیار یا فوجی آلہ ان خواتین کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ان خواتین نے اپنے بچوں کو حق کی راہ پر گامزن کیا اور دشمن کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرنے کا درس دیا۔ ان خواتین کے ہاتھوں پروان چڑھنے والی آنے والی نسلیں ایمان اور حوصلے کے ساتھ میدان جنگ میں نمودار ہوں گی اور اپنے وطن اور قوم کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کریں گی۔ دشمن کتنی ہی کوشش کریں وہ فتح اور مزاحمت کے حقیقی معنی کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ اس نسل کی پرورش میں مضمر ان خواتین کی تربیت ایک ایسا انمول خزانہ ہے جو لبنان کی حزب اللہ کو میسر ہے۔
"فاطمہ نصراللہ" نے اپنے انٹرویو کے اختتام میں کہا ہے کہ "دشمنوں کے لیے ایک ایسی نسل کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے جو باشعور، فعال اور مجاہد خواتین کے ذریعے پروان چڑھی ہو۔" یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ خواتین، جو کہ مزاحمت کا مرکز ہیں، نہ صرف گھر اور خاندان میں بلکہ قوموں کی مزاحمت کی تاریخ میں بھی اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں اور انشاءاللہ دشمن کی طرف سے ان کا مقابلہ کرنے کی کوئی بھی کوشش ناکام اور بے نتیجہ رہے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آنے والی نسلوں کی مزاحمتی معاشرے فاطمہ نصراللہ کرتی ہیں اور اپنے بچوں کو میں خواتین ان خواتین مزاحمت کے کا بنیادی رکھتی ہیں کی مزاحمت کہا ہے کہ لبنان کی جاتا ہے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
اربعین کا پیغام
اسلام ٹائمز: ایسی صورت حال میں جب علاقائی اور بین علاقائی دشمن جنگ، محاصرے اور سیاسی دباؤ کے ذریعے مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، اربعین نے ایک عظیم سماجی مشق کے طور پر مزاحمتی قوموں کے عزم کو پختہ اور باہمی ہم آہنگی میں اضافہ کیا ہے۔ نجف سے کربلا تک جو پیغام ہر کسی کو پہنچا وہ یہ تھا کہ ہم حسینی وہ قوم ہیں جو شکست کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ ہم نے درسگاہ کربلا اور درس عاشورہ میں یہ سیکھا ہے کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے افضل ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
حالیہ برسوں میں اربعین حسینی نہ صرف دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع بن گیا ہے بلکہ مغربی ایشیا میں سیاسی اور سلامتی کی پیش رفت کے تناظر میں مزاحمتی بلاک کی باہمی گفتگو اور ہم آہنگی کے لیے ایک اہم محور بن چکا ہے۔ یہ اجتماع جس کی جڑیں شہادت امام حسین علیہ السلام کے سوگ سے جڑی ہیں، آج سیاست اور نظریات کے میدان میں بیرونی طاقتوں کے تسلط اور دباؤ کے خلاف قوموں کی مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔
اس سال کا اربعین جن حالات میں منعقد ہوا ہے اس پر علاقائی اور عالمی حالات کا اثر ہونا ایک ضروری امر تھا۔ ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان 12 روزہ جنگ، صیہونی حکومت کی طرف سے فلسطینیوں پر مسلط قحط کے خلاف غزہ کے عوام کی حیرت انگیز مزاحمت اور عراق میں حشد الشعبی کو کمزور کرنے کے لیے امریکہ کا دباؤ نیز لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا عمل یہ سب اربعین کے نعروں، تقریروں اور علامتوں میں جھلک رہے تھے۔ اس ہم آہنگی نے اربعین کو مزاحمتی بلاک کی نرم اور سخت طاقت کی تیاری کے پلیٹ فارم میں تبدیل کر دیا۔
اربعین حسین: مذہبی رسوم سے لے کر مزاحمت کے اسٹریٹجک بیانیہ تک
اگرچہ اربعین فطری طور پر ایک مذہبی اور روحانی تقریب ہے لیکن موجودہ دور میں یہ رسم مزاحمتی محاذ کے مشترکہ تشخص کو تشکیل دینے کا مرکز بن گئی ہے۔ لاکھوں زائرین کا نجف سے کربلا تک مارچ، قوم سازی اور مختلف ملکوں کے جغرافیائی سیاسی اتحاد کا مظہر بن چکا ہے۔ ایک ایسی قوم جس کی جغرافیائی سرحدیں ختم ہو جائیں اور انصاف، انسانی وقار کی عظمت اور جبر کو مسترد کرنے پر یقین رکھنے والی مختلف قوموں کے لاکھوں لوگوں کے درمیان ربط کا ذریعہ بن جائے۔
اس اجتماع میں کربلا کی یاد اب محض یزید کے ظلم و جبر اور حسین (ع) کی یاد تک محدود نہیں رہی بلکہ عصری دنیا میں استعمار، قبضے اور امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنے کا ایک زندہ نمونہ بن چکی ہے۔ اسی وجہ سے اربعین نہ صرف عبادت کی ایک رسم ہے بلکہ قوموں اور مزاحمتی قوتوں کے لیے سیاسی مزاحمت کا سبق سیکھنے کی ورکشاپ بن چکی ہے۔
اربعین محض ایک مذہبی اجتماع نہیں ہے بلکہ اسٹریٹجک سطح پر، مزاحمت کے بلاک کی نرم اور سخت طاقت کے آغاز و فروغ کا محرک بھی ہے۔ نرم طاقت کی جہت میں، اربعین ایک مشترکہ شناخت، قوموں کے درمیان رابطے کا ایک وسیع نیٹ ورک اور ایک بہت بڑا سماجی سرمایہ پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح بحران کے وقت اور مشکل جہت میں، یہ اجتماع جہاد کے جذبے کو تقویت دے کر عوامی قوتوں اور مزاحمتی گروہوں کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔
اس سال اربعین واک کے دوران سیاسی کارکنوں، مذہبی رہنماؤں، اور مزاحمتی بلاک کے فیلڈ کمانڈروں کے درمیان غیر رسمی ملاقاتیں دیکھنے میں آئیں۔ یہ ہم آہنگی، رسمی میکانزم کی ضرورت کے بغیر، پیغامات کے تبادلے اور سیاسی ہم آہنگی کا ماحول فراہم کرتی ہے۔ عملی طور پر، اربعین ایک اسٹریٹجک مقبول مزاحمتی فورم بن گیا ہے جس نے مزاحمتی محور کے دشمنوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
صیہونی حکومت اور امریکہ کے لیے اس سال کے اربعین کا پیغام
1۔ مزاحمت کا بلاک دباؤ اور جنگوں کے باوجود نظریاتی اور عوامی طور پر مضبوط ہو چکا ہے۔
2۔ عاشورہ کی ثقافت سے متاثر اس خطے کی قوموں کی قوت ارادی کو کمزور کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔
3۔ کربلا کے راستے پر یہ بین الاقوامی اتحاد، دشمن کی تفرقہ انگیز پالیسیوں کا عملی جواب ہے۔
4۔ اربعین دشمنوں کو یاد دلاتا ہے کہ جنگیں وقتی طور پر ختم ہو سکتی ہیں، لیکن مزاحمت کا جذبہ ہر سال زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ تازہ کیا جاتا رہے گا۔
5۔ اگر صیہونی حکومت 12 روزہ جنگ میں ایرانی عوام کے عزم اور مرضی کو توڑنے میں ناکام رہی تو اس کی وجہ اس ثقافت میں تلاش کی جانی چاہیئے جو ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں لوگوں کو امام حسین (ع) کے روضہ کی طرف کھینچ لاتی ہے۔
6۔ اربعین روحانیت اور سیاست کا سنگم ہے اور شہدائے کربلا اور غزہ، لبنان، عراق اور یمن کے شہداء کے درمیان خون کے رشتہ کی علامت ہے۔
7۔ اس سال کے اربعین نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ مزاحمت کی بات صرف ہتھیاروں اور حکمت عملیوں پر مبنی نہیں ہے بلکہ عقیدے اور ایمان سے پیوستہ ہے جسکی جڑیں بہت گہری ہیں۔
ایسی صورت حال میں جب علاقائی اور بین علاقائی دشمن جنگ، محاصرے اور سیاسی دباؤ کے ذریعے مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، اربعین نے ایک عظیم سماجی مشق کے طور پر مزاحمتی قوموں کے عزم کو پختہ اور باہمی ہم آہنگی میں اضافہ کیا ہے۔ نجف سے کربلا تک جو پیغام ہر کسی کو پہنچا وہ یہ تھا کہ ہم حسینی وہ قوم ہیں جو شکست کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ ہم نے درسگاہ کربلا اور درس عاشورہ میں یہ سیکھا ہے کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے افضل ہے۔
هَیْهاتَ مِنَّا الذِّلَّةُ