لاہور میں ای ٹیکسی سروس کیلئے 1100 گاڑیوں کی دستیابی کا ورکنگ پیپر تیار
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 اگست 2025ء ) صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ای ٹیکسی سروس کیلئے 1100 گاڑیوں کی دستیابی کا ورکنگ پیپر تیار کرلیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب حکومت نے ماحول دوست روزگار منصوبہ تیار کیا ہے، صوبائی حکومت کی جانب سے الیکٹرک گاڑیوں کیلئے 65 لاکھ تک کی فنانسنگ کا فیصلہ کیا گیا ہے، لاہور میں ای ٹیکسی سروس شروع کرنے کیلئے 1100 گاڑیوں کی دستیابی کا ورکنگ پیپر تیار کرلیا گیا۔
بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے الیکٹرک ٹیکسی سروس کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے، مریم نواز جاپان سے واپسی پر ای ٹیکسی سروس پراجیکٹ پورٹل کا افتتاح کریں گی، پنجاب حکومت الیکٹرک ٹیکسی کی فنانسنگ کا سود ادا کرے گی، 7 اقسام کی 40 لاکھ سے ایک کروڑ روپے مالیت تک کی گاڑیاں دستیاب ہوسکیں گی، پنجاب حکومت 20 فیصد ڈاؤن پیمنٹ کی مد میں 5 لاکھ 85 ہزار ادا کرے گی۔(جاری ہے)
معلوم ہوا ہے کہ الیکٹرک ٹیکسی کی خریداری کیلئے بینکس 65 لاکھ تک فنانس کریں گے، زائد مالیت کی گاڑی کی خریداری پر ادائیگی کنزیومر کو کرنا ہوگی، الیکٹرک ٹیکسی سروس منصوبے پر پنجاب حکومت 2 ارب روپے تک خرچ کرے گی، الیکٹرک ٹیکسی سروس منصوبے میں 1100 چائینیز گاڑیاں شامل ہوں گی، ابتدائی طور پر الیکٹرک ٹیکسی سروس لاہور میں ہی آپریشنل ہوگی۔ ادھر ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے کیلئے 5 سالہ سبسڈی سکیم کی منظوری دے دی گئی، وفاقی حکومت نے 5 سالہ سبسڈی سکیم کی منظوری دی ہے جس کے تحت 100 ارب روپے کی لاگت سے ایک لاکھ 16 ہزار الیکٹرک موٹرسائیکلیں اور 3 ہزار 170 الیکٹرک رکشے اور لوڈر متعارف کروائے جائیں گے، یہ سکیم ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے، تیل کی درآمدات میں کمی اور ماحولیاتی پائیداری کو فروغ دینے کی کوششوں کا حصہ ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے الیکٹرک ٹیکسی سروس ٹیکسی سروس پنجاب حکومت لاہور میں گاڑیوں کی
پڑھیں:
آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان حکومت پر نئی پابندیوں سے متعلق تجاویز پیش کی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آسٹریلوی وزارت خارجہ اور تجارت نے اپنی خود مختار سینکشنز ریگولیشنز 2011 میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا جو افغانستان پالیسیوں سے متعلق ہے۔
ان تجاویز میں شامل ہے کہ طالبان سے منسلک اشخاص یا اداروں کو پابندی کے دائرے میں لانے کے نئے معیار بنائے جائیں اور افغانستان کو اسلحہ یا اسلحے سے متعلق خدمات فراہم کرنے پر مکمل پابندی لگائی جائے۔
مزید یہ کہ صرف اسلحہ فروخت ہی نہیں بلکہ اسلحے کی مینٹیننس، کسٹم ورکس یا تربیتی خدمات دینا بھی ممنوع قرار دیا جائے۔
طالبان حکومت سے متعلق یہ اقدام اس بات کی واضح علامت ہے کہ آسٹریلیا طالبان حکومت کو پوری طرح جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور ان پر سیاسی دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔
علاوہ ازیں ان پابندیوں کے نفاذ سے طالبان کو غیر قانونی ذرائع سے اسلحہ حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں جو ان کی فوجی اور سکیورٹی صلاحیتوں پر اثر ڈال سکتا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان پہلے ہی بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر سفارتی علیحدگی کا سامنا کر رہے ہیں اور ایسے اقدامات ان کی مالی اور عملی صلاحیتوں کو مزید محدود کر سکتے ہیں۔