تاریخ کا اصول بڑا سیدھا ہے۔ جو اقوام اپنے دشمن کو پہچاننے میں تاخیر کرتی ہیں وہ صفحہ ہستی پر محض ایک نوٹ بن کر رہ جاتی ہیں۔ وہ فقط دردناک یادیں چھوڑ جاتی ہیں جن پر بعد میں نسلیں نوحہ لکھتی ہیں اور شکست کا ماتم کرتی ہیں۔کیا 56 اسلامی ممالک کی اس دنیا میں کوئی ایسا وجود باقی ہے جس کے کانوں میں غزہ کی عورتوں اور بچوں کی چیخیں گونجتی ہوں؟ کیا اسلامی دنیا کے وہ اتحاد، وہ فوجیں، وہ ادارے جن پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے ان کے ضمیر کو ایک بار بھی ملامت ہوئی کہ شاید ان کی طاقت کو ظالم کی بجائے مظلوم کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا؟
نہیں صاحب ! یہ سب کچھ کہنے کی باتیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد ہو یا او آئی سی، یہ زندہ جسموں میں بسنے والے مردہ گھوڑے ہیں۔ حرکت میں نہیں آتے، جھٹکا نہیں دیتے، ضمیر نہیں جاگتا، آنکھ نم نہیں ہوتی۔ کہیں سے کوئی جنبش نہیں، کوئی زلزلہ نہیں، کوئی صدا نہیں۔ ان کا وجود ایک تماشہ ہے اور اس تماشے کے سامنے امت کا لہو بہہ رہا ہے۔
بارہ دن کی جنگ میں ٹھکائی کے باوجود اسرائیل نے اعلان کیا کہ اس نے ایران کو شکست دے دی۔ یہ دعویٰ محض ایک سیاسی بیانیہ ہے مگر اصل مقصد واضح ہے کہ اب توجہ پھر غزہ پر ہے۔ نیتن یاہو کا خطاب، غزہ کے شمالی علاقوں کو خالی کرنے کے احکامات، اور نئی کارروائی کا اعلان یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل نے غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں جبالیہ کیمپ پر ایک اور حملے کی خبر آئی ہے۔ وہی جبالیہ جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی آج وہاں ملبہ ہے، لاشیں ہیں، چیخیں ہیں اور ایک اذیت ناک خاموشی ہے۔
او آئی سی جسے اسلامی دنیا کی اقوامِ متحدہ کہا جاتا ہے اس نے گزشتہ چھ ماہ میں فلسطین کے مسئلے پر کتنے اجلاس کیے؟ کئی!لیکن نتیجہ؟ کاغذی قراردادیں، مذمت کے بیانات اور جذباتی تقریریں۔ کیا کسی ایک اجلاس کے بعد کوئی ایک اسرائیلی بم بند ہوا؟ کیا کسی ایک مغربی دارالحکومت نے اپنا رویہ بدلا؟ نہیں۔او آئی سی کا المیہ یہ ہے کہ یہ تنظیم مسلمانوں کی نہیں حکمرانوں کی نمائندہ ہے۔ یہ وہ حکمران ہیں جن کی اکثریت عالمی ایوانوں کی غلامی میں پناہ تلاش کرتی ہے۔ جن کی سرزمینیں تو اسلامی ہیں لیکن پالیسیاں عالمی اداروں کی منظوری سے بنتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں تسبیحیں ضرور ہوتی ہیں مگر فیصلے واشنگٹن، لندن اور پیرس کے اشاروں پر ہوتے ہیں۔ریاض میں بیٹھا ہوا اسلامی فوجی اتحاد جسے بظاہر امت کی حفاظت کے لیے بنایا گیا اس نے آج تک کس دشمن پر گولی چلائی؟ یمن میں کارروائیاں ہوئیں، وہاں بربادی ہوئی مگر فلسطین، کشمیر، برما، افغانستان؟ کچھ نہیں۔ فوجی اتحاد کی قیادت ایک سابق پاکستانی جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے دفتر کی شان بان اور ٹھاٹھ باٹھ کی تصاویر تو منظرعام پر آئیں مگر فلسطینی بچوں کے لیے کوئی دفاعی منصوبہ، کوئی عملی اقدام، کوئی ہنگامی اجلاس کچھ بھی نہیں۔کیا اسلامی فوجی اتحاد صرف کانفرنسوں میں تصویر کشی کے لیے بنایا گیا ہے؟ کیا یہ اتحاد صرف داخلی سلامتی کے نام پر بیرونی ایجنڈے کی حفاظت کے لیے ہے؟ کیا اس کا اصل ہدف اسرائیل یا اسلام دشمن قوتیں نہیں؟ یقین کریں یہ اتحاد محض ایک خوبصورت فائل ہے۔ ایک ایسا الماری میں رکھا ہوا کاغذ، جس پر اسلامی یکجہتی کا لیبل لگا ہے مگر جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔
اسرائیل کے پیچھے امریکہ کھڑا ہے۔ ایران پر حملہ ہو یا غزہ کی تباہی، واشنگٹن کی زبان پر ایک حرف مذمت نہیں۔ بلکہ وائٹ ہائوس کے ترجمان کہتے ہیں اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔مگر جب فلسطینی اپنا دفاع کرتے ہیں، جب حماس یا اسلامی جہاد مزاحمت کرتے ہیں، تو انہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ یہی دوہرا معیار ہے، یہی منافقت ہے، یہی بین الاقوامی سفاکی ہے۔
جب دشمن ایک صف میں ہیں، جب اسرائیل، امریکہ، فرانس، برطانیہ اور بھارت ایک ایجنڈے پر متفق ہیں تو ہم مسلمانوں کا حال کیا ہے؟ ہم مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں، قومیت کے بتوں کے اسیر ہیں، اور اپنے اپنے مفادات کے خول میں قید ہیں۔متحدہ عرب امارات، بحرین، سعودی عرب یہ سب اسرائیل سے تجارتی معاہدے کر چکے۔ تیل کے سودے ہو رہے ہیں، سفارت خانے کھل رہے ہیں، سیاحتی معاہدے ہو رہے ہیں۔ اور ادھر غزہ میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔اسلامی دنیا کا یہ المیہ ہے کہ جن کے پاس دولت ہے ان کے پاس غیرت نہیں اور جن کے پاس غیرت ہے ان کے پاس طاقت نہیں۔ یہی تضاد ہمیں روز مرتا دیکھتا ہے۔
سوچنے کا وقت گزر چکا۔ اب تو عمل کا وقت ہے۔ جو اسلامی ریاستیں اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتی ہیں انہیں چاہیے کہ کم از کم یہ آواز بلند کریں۔او آئی سی کو غیر موثر قرار دے کر نئے اتحاد کی بنیاد رکھی جائے۔اسلامی فوجی اتحاد کو عسکری ذمہ داریاں دی جائیں ، صرف تقاریر اور پریڈ نہیں۔فلسطینی مزاحمت کو سفارتی، مالی اور عسکری سپورٹ دی جائے۔اسرائیل سے تعلق رکھنے والے تمام معاہدے معطل کیے جائیں۔اقوام متحدہ میں ایک متفقہ مسلم بلاک کے طور پر مستقل آواز بلند کی جائے۔یہ سب آسان نہیں۔ مگر اگر امت مسلمہ واقعی زندہ ہے، اگر ہمارے حکمران واقعی ’’خادمینِ حرمین‘‘ اور ’’امینِ اسلام‘‘ ہیں تو اب وقت ہے کہ یہ سب کر کے دکھائیں۔
اگر ہم اب بھی خاموش رہے، اگر ہم نے اب بھی صرف مذمتی قراردادوں اور بے معنی اجلاسوں پر اکتفا کیا تو یاد رکھیے کہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہماری نسلیں ہمیں کوسیں گی اور غزہ کے بچوں کی چیخیں ہمارے گناہ کے طومار پر لکھی جائیں گی۔علامہ اقبال نے فلسطینی عربوں کے حوالے سے برسوں پہلے خبردار کیا تھا:۔
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے ، غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسلامی فوجی اتحاد او آئی سی رہے ہیں میں ہے کے پاس کے لیے

پڑھیں:

فلسطینیوں کی نسل کشی میں کونسی کمپنیاں ملوث ہیں؟ اقوام متحدہ نے فہرست جاری کردی

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے غزہ اور مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کو جبری طور پر بے گھر کرنے میں اسرائیل کی مدد کرنے والی کمرشل کمپنیوں کی نشاندہی کرکے فہرست جاری کردی ہے۔

اس رپورٹ میں مختلف شعبوں میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو معاونت فراہم کرنے والی 48 کمپنیوں کے نام شامل ہیں جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے۔

یہ بھی پڑھیے: فلسطینیوں کو بھوکا مارنے پر فرانس کی اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی

یہ فہرست ان کمپنیوں کی ہے جو فوجی، ٹیکنالوجی، شہری، وسائل، اور مالی شعبوں میں اسرائیل کی فوجی اور قبضہ کی سرگرمیوں میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔

اسلحہ اور دفاع کی کمپنیاں:

لاک ہیڈ مارٹن (امریکا): ایف-35 لڑاکا جہاز بنانے والی کمپنی

لیونارڈو ایس پی اے (اٹلی): فوجی شعبہ میں معاونت

رادا الیکٹرانک انڈسٹریز (اسرائیل، لیونارڈو کی ملکیت): فوجی ٹیکنالوجی کی تیاری

یہ بھی پڑھیے: غزہ میں اسرائیلی جنگ امریکی امداد کے بغیر ممکن نہیں، اسرائیلی افسر کا اعتراف

ٹیکنالوجی شعبہ کی کمپنیاں:

مائیکروسافٹ (امریکا): اسرائیل کو کلاؤڈ اور AI ٹیکنالوجیز فراہم کرتا ہے۔

الفابیٹ (گوگل، امریکا): اسرائیل کو کلاؤڈ اور AI ٹیکنالوجی تک رسائی دیتا ہے۔

ایمیزون (امریکا): اسرائیلی حکومت کے استعمال کے لیے کلاؤڈ سروسز فراہم کرتا ہے۔

آئی بی ایم (امریکا): فوجی عملے کی تربیت اور بایومیٹرک ڈیٹا بیس کا انتظام کرتا ہے۔

پیلینٹیر ٹیکنالوجیز (امریکا): اسرائیلی فوج کی مدد کے لیے مصونعی ذہانت کے ٹولز فراہم کرتا ہے۔

سول استعمال کی ٹیکنالوجی کی کمپنیاں:

کٹرپلر (امریکا): بھاری مشینری فراہم کرتا ہے جو فلسطینی آبادی کی مسماری اور غیرقانونی آبادکاری میں استعمال ہوتی ہے۔

رادا الیکٹرانک انڈسٹریز (اسرائیل، لیونارڈو کی ملکیت): فوجی اور شہری دونوں قسم کی ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے۔

ایچ ڈی ہونڈائی (جنوبی کوریا): قبضہ کی سرگرمیوں میں استعمال ہونے والی بھاری مشینری فراہم کرتا ہے۔

ولوو گروپ (سویڈن): مسمار کرنے اور آباد کاری کے لیے بھاری مشینری فراہم کرتا ہے۔

بوکنگ اور ایئر بی این بی: غیرقانونی آباد کاری میں مدد دینے کے لیے پراپرٹیز اور مقبوضہ علاقوں میں سیاحت میں معاوت فراہم کررہا ہے۔

توانائی اور وسائل فراہم کرنے والی کمپنیاں:

 ڈرمونڈ کمپنی (امریکا): اسرائیل کو کوئلہ فراہم کرتی ہے، زیادہ تر کولمبیا سے۔

 گلنکور (سوئٹزرلینڈ): بھی اسرائیل کو کوئلہ فراہم کرتا ہے۔

 برائٹ ڈیری اینڈ فوڈ (چین): تنووا، اسرائیل کے سب سے بڑا فوڈ کنسورشیم، کا مالک ہے۔

 نیٹفیم (میکسیکو): ڈرپ آبپاشی کی ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے، جس کی ملکیت 80 فیصد اوربیا ایڈوانس کارپوریشن کے پاس ہے اور یہ غزہ میں پانی کے وسائل کے استحصال میں استعمال ہورہی ہے۔

مالی ادارے:

 بی این پی پاریباس (فرانس): ایک اہم بینک ہے جو اسرائیل کو سود کی شرح کو کنٹرول کرنے کی اجازت دیتا ہے حالانکہ اس کا کریڈٹ درجہ بندی کم ہے۔

 بارکلیز (برطانیہ): اسرائیل کی جنگی کوششوں کے لیے بانڈز کے ذریعے مالی مدد فراہم کرتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کارپوریٹ اداروں پر لازم ہے کہ وہ انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی سے بچنے کے ساتھ ساتھ اپنی سرگرمیوں یا دوسروں کے ساتھ اپنے کاروباری روابط سے پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دیکھیں۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے رکن ریاستوں سے فلسطینیوں کو نقصان پہنچانے والی کمرشل کمپنیوں پر پابندی لگانے، ان کے اثاثے منجمد کرنے اور اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل دفاعی کمپنیاں غزہ فلسطین کمرشل کمپنی مالیاتی ادارے نسل کشی

متعلقہ مضامین

  • فلسطینیوں کی نسل کشی میں کونسی کمپنیاں ملوث ہیں؟ اقوام متحدہ نے فہرست جاری کردی
  • غزہ میں اجتماعی نسل کشی کا کوئی جواز نہیں، اقوام متحدہ
  • شریعت محمدی ؐکے خلاف کوئی نظام قبول نہیں،حمیداللہ
  • اسرائیلی حملوں میں ایران کے 935 شہری شہید ہوئے، نئی فرانزک رپورٹ میں انکشاف
  • امریکا نے اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگانے والوں کو ویزا نہ دینے کا اعلان کر دیا
  • اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگانے والوں کو ویزا نہیں دیں گے: امریکی محکمہ خارجہ
  • اسرائیل فوجی کارروائیوں پر اربوں ڈالر پھونک چکا، امریکی ادارے کی رپورٹ
  • حکمت کی واپسی
  • غزہ: شمالی علاقے میں لڑائی کے دوران اسرائیلی فوجی ہلاک