اسلامی فوجی اتحاد اور او آئی سی ‘ زندہ جسم، مردہ گھوڑے
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
تاریخ کا اصول بڑا سیدھا ہے۔ جو اقوام اپنے دشمن کو پہچاننے میں تاخیر کرتی ہیں وہ صفحہ ہستی پر محض ایک نوٹ بن کر رہ جاتی ہیں۔ وہ فقط دردناک یادیں چھوڑ جاتی ہیں جن پر بعد میں نسلیں نوحہ لکھتی ہیں اور شکست کا ماتم کرتی ہیں۔کیا 56 اسلامی ممالک کی اس دنیا میں کوئی ایسا وجود باقی ہے جس کے کانوں میں غزہ کی عورتوں اور بچوں کی چیخیں گونجتی ہوں؟ کیا اسلامی دنیا کے وہ اتحاد، وہ فوجیں، وہ ادارے جن پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے ان کے ضمیر کو ایک بار بھی ملامت ہوئی کہ شاید ان کی طاقت کو ظالم کی بجائے مظلوم کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا؟
نہیں صاحب ! یہ سب کچھ کہنے کی باتیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد ہو یا او آئی سی، یہ زندہ جسموں میں بسنے والے مردہ گھوڑے ہیں۔ حرکت میں نہیں آتے، جھٹکا نہیں دیتے، ضمیر نہیں جاگتا، آنکھ نم نہیں ہوتی۔ کہیں سے کوئی جنبش نہیں، کوئی زلزلہ نہیں، کوئی صدا نہیں۔ ان کا وجود ایک تماشہ ہے اور اس تماشے کے سامنے امت کا لہو بہہ رہا ہے۔
بارہ دن کی جنگ میں ٹھکائی کے باوجود اسرائیل نے اعلان کیا کہ اس نے ایران کو شکست دے دی۔ یہ دعویٰ محض ایک سیاسی بیانیہ ہے مگر اصل مقصد واضح ہے کہ اب توجہ پھر غزہ پر ہے۔ نیتن یاہو کا خطاب، غزہ کے شمالی علاقوں کو خالی کرنے کے احکامات، اور نئی کارروائی کا اعلان یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل نے غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں جبالیہ کیمپ پر ایک اور حملے کی خبر آئی ہے۔ وہی جبالیہ جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی آج وہاں ملبہ ہے، لاشیں ہیں، چیخیں ہیں اور ایک اذیت ناک خاموشی ہے۔
او آئی سی جسے اسلامی دنیا کی اقوامِ متحدہ کہا جاتا ہے اس نے گزشتہ چھ ماہ میں فلسطین کے مسئلے پر کتنے اجلاس کیے؟ کئی!لیکن نتیجہ؟ کاغذی قراردادیں، مذمت کے بیانات اور جذباتی تقریریں۔ کیا کسی ایک اجلاس کے بعد کوئی ایک اسرائیلی بم بند ہوا؟ کیا کسی ایک مغربی دارالحکومت نے اپنا رویہ بدلا؟ نہیں۔او آئی سی کا المیہ یہ ہے کہ یہ تنظیم مسلمانوں کی نہیں حکمرانوں کی نمائندہ ہے۔ یہ وہ حکمران ہیں جن کی اکثریت عالمی ایوانوں کی غلامی میں پناہ تلاش کرتی ہے۔ جن کی سرزمینیں تو اسلامی ہیں لیکن پالیسیاں عالمی اداروں کی منظوری سے بنتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں تسبیحیں ضرور ہوتی ہیں مگر فیصلے واشنگٹن، لندن اور پیرس کے اشاروں پر ہوتے ہیں۔ریاض میں بیٹھا ہوا اسلامی فوجی اتحاد جسے بظاہر امت کی حفاظت کے لیے بنایا گیا اس نے آج تک کس دشمن پر گولی چلائی؟ یمن میں کارروائیاں ہوئیں، وہاں بربادی ہوئی مگر فلسطین، کشمیر، برما، افغانستان؟ کچھ نہیں۔ فوجی اتحاد کی قیادت ایک سابق پاکستانی جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے دفتر کی شان بان اور ٹھاٹھ باٹھ کی تصاویر تو منظرعام پر آئیں مگر فلسطینی بچوں کے لیے کوئی دفاعی منصوبہ، کوئی عملی اقدام، کوئی ہنگامی اجلاس کچھ بھی نہیں۔کیا اسلامی فوجی اتحاد صرف کانفرنسوں میں تصویر کشی کے لیے بنایا گیا ہے؟ کیا یہ اتحاد صرف داخلی سلامتی کے نام پر بیرونی ایجنڈے کی حفاظت کے لیے ہے؟ کیا اس کا اصل ہدف اسرائیل یا اسلام دشمن قوتیں نہیں؟ یقین کریں یہ اتحاد محض ایک خوبصورت فائل ہے۔ ایک ایسا الماری میں رکھا ہوا کاغذ، جس پر اسلامی یکجہتی کا لیبل لگا ہے مگر جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔
اسرائیل کے پیچھے امریکہ کھڑا ہے۔ ایران پر حملہ ہو یا غزہ کی تباہی، واشنگٹن کی زبان پر ایک حرف مذمت نہیں۔ بلکہ وائٹ ہائوس کے ترجمان کہتے ہیں اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔مگر جب فلسطینی اپنا دفاع کرتے ہیں، جب حماس یا اسلامی جہاد مزاحمت کرتے ہیں، تو انہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ یہی دوہرا معیار ہے، یہی منافقت ہے، یہی بین الاقوامی سفاکی ہے۔
جب دشمن ایک صف میں ہیں، جب اسرائیل، امریکہ، فرانس، برطانیہ اور بھارت ایک ایجنڈے پر متفق ہیں تو ہم مسلمانوں کا حال کیا ہے؟ ہم مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں، قومیت کے بتوں کے اسیر ہیں، اور اپنے اپنے مفادات کے خول میں قید ہیں۔متحدہ عرب امارات، بحرین، سعودی عرب یہ سب اسرائیل سے تجارتی معاہدے کر چکے۔ تیل کے سودے ہو رہے ہیں، سفارت خانے کھل رہے ہیں، سیاحتی معاہدے ہو رہے ہیں۔ اور ادھر غزہ میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔اسلامی دنیا کا یہ المیہ ہے کہ جن کے پاس دولت ہے ان کے پاس غیرت نہیں اور جن کے پاس غیرت ہے ان کے پاس طاقت نہیں۔ یہی تضاد ہمیں روز مرتا دیکھتا ہے۔
سوچنے کا وقت گزر چکا۔ اب تو عمل کا وقت ہے۔ جو اسلامی ریاستیں اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتی ہیں انہیں چاہیے کہ کم از کم یہ آواز بلند کریں۔او آئی سی کو غیر موثر قرار دے کر نئے اتحاد کی بنیاد رکھی جائے۔اسلامی فوجی اتحاد کو عسکری ذمہ داریاں دی جائیں ، صرف تقاریر اور پریڈ نہیں۔فلسطینی مزاحمت کو سفارتی، مالی اور عسکری سپورٹ دی جائے۔اسرائیل سے تعلق رکھنے والے تمام معاہدے معطل کیے جائیں۔اقوام متحدہ میں ایک متفقہ مسلم بلاک کے طور پر مستقل آواز بلند کی جائے۔یہ سب آسان نہیں۔ مگر اگر امت مسلمہ واقعی زندہ ہے، اگر ہمارے حکمران واقعی ’’خادمینِ حرمین‘‘ اور ’’امینِ اسلام‘‘ ہیں تو اب وقت ہے کہ یہ سب کر کے دکھائیں۔
اگر ہم اب بھی خاموش رہے، اگر ہم نے اب بھی صرف مذمتی قراردادوں اور بے معنی اجلاسوں پر اکتفا کیا تو یاد رکھیے کہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہماری نسلیں ہمیں کوسیں گی اور غزہ کے بچوں کی چیخیں ہمارے گناہ کے طومار پر لکھی جائیں گی۔علامہ اقبال نے فلسطینی عربوں کے حوالے سے برسوں پہلے خبردار کیا تھا:۔
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے ، غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسلامی فوجی اتحاد او آئی سی رہے ہیں میں ہے کے پاس کے لیے
پڑھیں:
ہم لبنان کا ایک انچ بھی کسی کو نہیں دینگے، شیخ نعیم قاسم
اپنے ایک خطاب میں حزب الله کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سال 2000ء میں لبنان کی آزادی کے بعد، سب اسرائیل کو ایک دشمن سمجھتے ہیں، اس لئے اس کے ساتھ ایک دشمن کے طور پر پیش آیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" كے سیكرٹری جنرل "شیخ نعیم قاسم" نے کہا کہ 22 نومبر 1943ء میں جو آزادی لبنان كو ملی وہ قید و بند، صعوبتوں اور جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں ہوئی۔ آزادی، درحقیقت زمین اور غیر ملکی تسلط سے نجات کا نام ہے۔ ہم 10,452 مربع کلومیٹر پر پھیلے لبنان کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم لبنان کا ایک انچ بھی کم نہیں ہونے دیں گے۔ ہم ایک آزاد اور بیرونی مداخلت سے پاک لبنان چاہتے ہیں۔ سال 2000ء میں لبنان کی آزادی کے بعد، سب اسرائیل کو ایک دشمن سمجھتے ہیں، اس لئے اس کے ساتھ ایک دشمن کے طور پر پیش آیا جائے۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ لبنان کے خلاف صیہونی جارحیت صرف جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں بلکہ اسرائیل کے ان اقدامات کا مقصد ایک مکمل جارحیت ہے جس کے ذریعے وہ لبنان کی خود مختاری کو چھین لینا چاہتا ہے۔ انہوں نے لبنان میں تعینات اقوام متحدہ کے امن دستے (UNIFIL) پر اسرائیل کے حملوں کا حوالہ دیا۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ (UNIFIL) نے گزشتہ روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیل نے جو دیوار بنائی ہے وہ "بلیو لائن" سے آگے نکل گئی ہے، جس کی وجہ سے لبنان کے چار ہزار مربع میٹر سے زیادہ کا علاقہ ہماری عوام کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔