پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن نے ایف بی آر آرٹیکل 37 اے اور 37 بی کے کالے قانون کو مسترد کردیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن(پائما) کے چیئرمین ثاقب گڈ لک نے فنانس بل میں سیلز ٹیکس ایکٹ کے تحت شامل کیے گئے آرٹیکل 37 اے اور 37 بی کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قوانین تاجر برادری کو ہراساں کرنے کا ذریعہ بنیں گے، جنہیں کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ان آرٹیکلز کے ذریعے ایف بی آر کے ٹیکس افسران کو غیر معمولی اختیارات دینا سراسر غیر منصفانہ اور کاروبار دشمن اقدام ہے۔حکومت اگر ٹیکس ریونیو میں اضافہ چاہتی ہے تو اسے کاروبار کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہوگا نہ کہ کاروباری افراد کو خوف میں مبتلا کرنا۔ کاروبار چلے گا تو ٹیکس ملے گا اگر کاروبار بند ہوگیا تو حکومت ریونیو سے محروم رہ جائے گی۔ثاقب گڈ لک نے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال سے اپیل کی ہے کہ وہ آرٹیکل 37 اے اور 37 بی کو فوری طور پر واپس لیں اور تاجر برادری میں پھیلی بے چینی کو دور کریں۔
محرم الحرام ، مذہبی رواداری اور پیغام پاکستان
ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون ہمیں پاکستانی شہری کے بجائے مجرم سمجھنے کے مترادف ہے اور ہمیں خدشہ ہے کہ اس کے ذریعے ایف بی آر کے افسران کاروباری افراد کو محض شک کی بنیاد پر ہراساں کریں گے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔چیئرمین پائما نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسے کالے قوانین کے بجائے معاشی ترقی اور کاروباری آسانی کی پالیسیوں کو فروغ دے تاکہ ملک میں کاروبار اور صنعتیں چلتی رہیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: ایف بی آر
پڑھیں:
فوجداری قانون میں ملزم عدالت کاپسندیدہ بچہ ہوتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں سُپرٹیکس کے نفاذ کے معاملہ پر لاہور، سندھ اور اسلا م آباد ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ فوجداری قانون میں ملزم عدالت کاپسندیدہ بچہ ہوتا ہے اس لیے کم سزاوالی دفعہ کے تحت سزادی جاتی ہے، اس کیس میں دیکھنا ہوگا کہ ٹیکس دہندہ عدالت کاپسندیدہ بچہ ہے کہ نہیں۔ ساراکھیل ڈرافٹنگ کاہے، کون قانون کی ڈرافٹنگ کرتا ہے؟دوران سماعت مدعاعلیہان کے وکیل اویس علی شاہ نے دلائل مکمل کرلیے جبکہ مدعاعلیہان کے وکیل سابق وزیرقانون بیرسٹر ڈاکٹر محمد فروغ نسیم نے دلائل کاآغاز کردیا۔ بینچ آج بروزجمعرات کو بھی درخواستوں پر سماعت جاری رکھے گا۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس سید حسن اظہررضوی اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل5رکنی آئینی بینچ نے سُپرٹیکس کے نفاذ کے معاملہ پر لاہور، سندھ اور اسلا م آباد ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کی جانب سے دائر2047 درخواستوںپرسماعت کی۔ دوران سماعت مدعاعلیہان کے وکیل اویس علی شاہ نے دلائل دیے۔فروغ نسیم کاکہنا تھا کہ 4سی آئین کے خلاف ہے، ایک آمدن پر دومرتبہ ٹیکس عائد نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایک سسٹم جس پر ٹیکس ہوتا ہے، اس پر سپر ٹیکس کیسے نافذ کرتے ہیں؟وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ انکم کا اندازہ ہوگا تو سپر ٹیکس یا سر چارج لگے گا، جنوری 2021ء میں ایک اکائونٹ کھلتا ہے اور 31دسمبر 2021ء کو بند کر دیا جاتا ہے لیکن اس پر بھی چھ ماہ بعد ٹیکس لگ جاتا ہے جو وہ پہلے دے چکا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ یہ قانون یا آپشن کہاں سے آیا؟وکیل فروغ نسیم نے بتایا کہ یہ ایک جنرل پرنسپل ہے کہ ٹیکس دینے والا اپنی مرضی سے دو ایک جیسے قوانین میں سے ایک کے تحت ٹیکس دے سکتا ہے۔فروغ نسیم کاکہنا تھا کہ اگر کوئی شخص جرم کرتا ہے توعدالت اسے کم سزاوالے قانون کے تحت سزادے گی۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ فوجداری قانون میں ملزم عدالت کاپسندیدہ بچہ ہوتا ہے اس لیے کم سزاوالی دفعہ کے تحت سزادی جاتی ہے، اس کیس میں دیکھنا ہوگا کہ ٹیکس دہندہ عدالت کاپسندیدہ بچہ ہے کہ نہیں۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کر دی، مختلف ٹیکس دہندہ کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم دلائل جاری رکھیں گے۔