حماس نے غزہ خالی کرنے کا اسرائیل کا منصوبہ مسترد کردیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
غزہ:
فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے غزہ کو خالی کرانے کے اسرائیل کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اس کو نسلی کشی اور فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی ایک نئی مہم قرار دے دیا۔
غیرملکی خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حماس نے کہا کہ اسرائیل کا غزہ سٹی کے شہریوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ لاکھوں شہریوں کی نسل کشی اور بے گھر کرنے کی ایک نئی مہم ہے۔
حماس نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے جنوبی غزہ میں خیمہ اور پناہ گاہیں بنانے کے دیگر طریقے کھلم کھلا دھوکا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ انسانی امداد کے نام پر خیموں کی فراہمی کرنا واضح دھوکا ہے، جس کا مقصد وحشیانہ مظالم کو چھپانا ہے جو قابض فورسز کرنے جا رہی ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی فوج نے کہا تھا کہ وہ خیمے اور دیگر اشیا فراہم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ جنوبی غزہ میں شہریوں کو منتقل کرنے کے لیے محفوظ اقدامات ہوں۔
اس سے قبل اسرائیل نے رواں ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ وہ غزہ سٹی پر قبضے کے لیے نئی مہم شروع کر رہے ہیں، جس پر عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کو شروع کی گئی جنگ میں اب تک غزہ میں 61 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں اور لاکھوں بے گھر اور زخمی ہیں جبکہ امدادی راستے روکنے کی وجہ سے غزہ میں غذائی قلت قحط کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
حماس یرغمالیوں کی رہائی کے لیے رضا مند
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اکتوبر 2025ء) غزہ پٹی میں مسلح تنازعے کے خاتمے کی خاطر عالمی کوششیں جاری رہیں تاہم امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے پیش کردہ تازہ امن منصوبے کے تحت امید کی جا رہی ہے کہ غزہ میں قیام امن ممکن ہو سکتا ہے۔ حماس یرغمالیوں کی رہائی کے لیے تیار ہو گئی ہے اور اس نے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے کچھ حصوں کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔
حماس اور اسے وابستہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیموں نے تقریباً دو سال قبل 7 اکتوبر سن 2023 کو اسرائیلی سزرمین پر دہشت گرادنہ حملے کرتے ہوئے تقریبا بارہ سو افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ڈھائی سو کے قریب افراد کو یرغمالی بنا لیا تھا۔
ان دہشت گردانہ حملوں کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ میں فلسطینی جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی۔
(جاری ہے)
اسرائیلی نے اس کارروائی کا مقصد حماس کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی بتایا گیا تھا۔ مزید مذاکرات کی ضرروت ہے، حماسحماس نے کہا ہے کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرنے اور اقتدار دوسرے فلسطینیوں کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے لیکن منصوبے کے دیگر پہلو فلسطینیوں کے درمیان مزید مشاورت کے متقاضی ہیں۔
حماس کے سینیئر عہدیداروں نے اشارہ دیا کہ اب بھی بڑے اختلافات موجود ہیں، جن کے لیے مزید مذاکرات کی ضرورت ہوگی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل ٹرمپ کے منصوبے کے ''پہلے مرحلے‘‘ پر عملدرآمد کے لیے تیار ہے، جو بظاہر یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق ہے۔
تاہم ان کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل جنگ ختم کرنے کے لیے ان اصولوں پر قائم ہے، جو وہ پہلے بیان کر چکا ہے اور حماس کے ساتھ ممکنہ اختلافات پر کوئی بات نہیں کی۔
ٹرمپ نے حماس کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا، ''مجھے یقین ہے کہ وہ پائیدار امن کے لیے تیار ہیں۔‘‘
صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا، ''اسرائیل کو فوراً غزہ پر بمباری بند کرنی چاہیے تاکہ ہم یرغمالیوں کو محفوظ اور جلدی باہر نکال سکیں! فی الحال ایسا کرنا بہت خطرناک ہے۔ ہم پہلے ہی تفصیلات پر بات چیت کر رہے ہیں۔
‘‘ حماس کا تفصیلی ردعمل کیا ہے؟حماس نے کہا کہ منصوبے کے وہ حصے جو غزہ پٹی کے مستقبل اور فلسطینی حقوق سے متعلق ہیں، ان پر فیصلہ ایک ''متفقہ فلسطینی مؤقف‘‘ کی بنیاد پر ہونا چاہیے، جو دیگر دھڑوں سے مشاورت اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہو۔
اس بیان میں حماس کے ہتھیار ڈالنے کا کوئی ذکر نہیں تھا، جو کہ اسرائیل کا ایک بنیادی مطالبہ ہے اور ٹرمپ کے منصوبے میں بھی شامل ہے۔
صدر ٹرمپ جنگ ختم کرنے اور درجنوں یرغمالیوں کی واپسی کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں، بالخصوص اس تنازعے کے دو برس مکمل ہونے سے قبل۔ یاد رہے کہ یہ تنازعہ سات اکتوبر کو شروع ہوا تھا۔
حماس نے لچک کیوں دیکھائی؟ صدر ٹرمپ کا منصوبہ کیا ہے؟امریکی صدر ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ حماس کو اتوار کی شام تک معاہدے پر رضامندی ظاہر کرنا ہو گی، ورنہ ''مزید شدید فوجی کارروائی‘‘ کی جائے گی۔
صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا، ''اگر یہ معاہدہ نہیں ہوا تو حماس کے خلاف وہ جہنم ٹوٹے گی جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھی ہو گی۔ مشرق وسطیٰ میں کسی نہ کسی طرح امن قائم ہو گا۔‘‘
امریکی صدر کے اس منصوبے کے مطابق حماس باقی 48 یرغمالیوں، جن میں تقریباً 20 کے زندہ ہونے کا یقین ہے، کو تین دنوں میں(اتوار تک) رہا کرے گی۔ اس کے علاوہ وہ اقتدار چھوڑ دے گی اور ہتھیار ڈال دے گی۔
اس صورت میں اسرائیل غزہ پٹی میں اپنی کارروائی روک دے گا جبکہ زیادہ تر فوجی واپس بلا لے گا۔ ساتھ ہی اسرائیل سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا اور غزہ پٹی میں امداد کی رسائی اور وہاں تعمیرنو کے عمل کی اجازت دے گا۔ اس ڈیل کے تحت غزہ کی آبادی کو دیگر ممالک میں منتقل کرنے کے منصوبے منسوخ کر دیے جائیں گے۔