کراچی، 8 محرم الحرام کیلیے مارکیٹس اور دکانوں کو سیل کر دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
کراچی:
شہر قائد میں پولیس حکام کی جانب سے آج 8 محرم الحرام کے جلوس کی سیکیورٹی کے لیے راستوں میں آنے والی مارکیٹس اور دکانوں کو سرچنگ کے بعد سیل کر دیا گیا.
جبکہ جلوس کی گزر گاہوں میں آنے والے دیگر راستوں کو بھی کنٹینرز اور بڑی گاڑیاں کھڑی کر کے سیل کر دیا گیا جبکہ پولیس کی جانب سے سیل کیے جانے والے راستوں پر بھی پولیس کی نفری کو تعینات کرتے ہوئے پابند کیا گیا ہے ان راستوں سے جلوس میں نہ تو کوئی شامل ہوگا اور نہ ہی جلوس میں سے کسی کو ان راستوں سے جانے دیا جائیگا.
آخری اطلاعات آنے تک پولیس کی جانب سے نمائش چورنگی ایم اے جناح روڈ سے کھارادر تک راستوں ، دکانوں اور مارکیٹوں کو سرچنگ کے بعد سیل کیے جانے کا عمل جاری تھا۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بنیادی انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں ٹریفک کے نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے نافذ کیے گئے ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) نے شہریوں، ماہرین اور سیاسی حلقوں میں شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔
27 اکتوبر سے نافذ العمل ہونے والے اس ڈیجیٹل ای چالان نظام کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ شہر میں ٹریفک سے متعلق بنیادی انفرا اسٹرکچر کا تباہ حال ہونا ہے۔ اربن پلانرز اور سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کی 60 فیصد سے زائد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جب کہ اندازاً 80 فیصد سے زائد شاہراہوں پر ٹریفک کے اشارے (سگنلز) اور علامات نصب ہی نہیں ہیں، یا درست کام نہیں کررہے۔ ایسے میں ٹریفک مینجمنٹ قائم کیے بغیر جدید ترین مصنوعی ذہانت پر مبنی یہ خودکار نظام (ٹریکس) کس طرح کامیابی سے کام کرے گا، یہ ایک بڑا سوال ہے۔
شہری حلقوں کی جانب سے تحفظات کا دوسرا اہم نکتہ جرمانوں کی غیر معمولی حد تک زیادہ شرح ہے، جو 5 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک مقرر کی گئی ہے۔ شہریوں کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بے روزگاری اور کم آمدنی والے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے بھاری جرمانے کیسے ادا کر پائیں گے۔
قانون دانوں اور سیاسی رہنماؤں نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ جب ملک کے دیگر شہروں مثلاً لاہور میں چالان کی شرح بہت کم ہے تو کراچی کے شہریوں پر اتنا بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے، جو آئینی طور پر ایک ملک میں دو قوانین کی موجودگی پر سوال کھڑا کرتا ہے۔
سیاسی جماعتوں نے اس نظام کو ظالمانہ رویہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف عوامی احتجاج بلکہ عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کر دیا ہے، جس کے بعد اس نظام کا مستقبل اب سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے سے منسلک ہو گیا ہے۔