ملک کے 27 معروف یوٹیوب چینلز بلاک کرنے کا حکم دے دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 08 جولائی 2025ء ) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت کی جانب سے ملک کے 27 معروف یوٹیوب چینلز بلاک کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ایف آئی اے کی درخواست پر 27 معروف یوٹیوب چینلز بلاک کرنے کا حکم دیا جہاں جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے یوٹیوب چینل بلاک کی درخواست پر سماعت کی، جس کے بعد ایف آئی اے کی درخواست پر عدالت نے 2 صفحات کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔
عدالتی آرڈر میں کہا گیا ہے کہ ریاست مخالف مواد کے حوالے سے ایف آئی اے نے 2 جون کو انکوائری شروع کی، عدالت نے اس حوالے سے انکوائری افسرکو سنا اور دستیاب ریکارڈ کا بھی جائزہ لیا، جس کے نتیجے میں سامنے آنے والے شواہد کی بنیاد پر عدالت سمجھتی ہے کہ یہ معاملہ پیکا ایکٹ اورتعزیرات پاکستان کے تحت قابل سزا جرم ہے، اس لیے یوٹیوب کے افسرانچارج کو حکم دیا جاتا کہ ہے 27 یوٹیوب چینلزکو بلاک کردیا جائے۔(جاری ہے)
بتایا جارہا ہے کہ اس معاملے پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس بھی ہوا تھا جس میں چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ ’ملک کیخلاف سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا جاری رہا، پی ٹی اے نے اس حوالے سے کیا اقدامات کیے؟ کیا پی ٹی اے کی جانب سے کوئی یوٹیوب چینلز بلاک کیے گئے؟‘۔ اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ ’پی ٹی اے کے پاس دو راستے ہیں، چینل بلاک کرلینا یا مواد بلاک کرنا، پی ٹی اے دیکھتا ہے کہ اسے کس قسم کی شکایات موصول ہوتی ہیں، کسی کے اکاؤنٹ بلاکنگ کی براہ راست درخواست نہیں آئی، پی ٹی اے کے پاس مواد بلاک کی روزانہ 300 درخواستیں آتی ہیں، سرکاری اداروں کیلئے ایک پورٹل بنایا ہے، جہاں 5ماہ 45 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئی ہیں‘۔ اس موقع پر سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ ’سوشل میڈیا کمپنیوں کو کہا جائے کہ پاکستان میں اپنے دفاتر بنائیں‘، چیئرمین پی ٹی اے نے جواب دیا کہ ’جب ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست مخالف مواد ہے تو کارروائی کرتے ہیں، سوشل میڈیا کمپنیاں سیاسی مواد کو نہیں ہٹاتی ہیں، پی ٹی اے سیاسی مواد ہٹانے کا کہے بھی تو کمپنیاں انکار کردیتی ہیں تاہم انفرادی شکایت پر سوشل میڈیا کمپنیاں صارف کو خود رسپانس دیتی ہیں‘۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یوٹیوب چینلز بلاک سوشل میڈیا پی ٹی اے
پڑھیں:
این سی سی آئی اے کے لاپتہ ڈپٹی ڈائریکٹر پر 15 کروڑ روپے رشوت لینے کا الزام
نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے ) کے لاپتہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کا کیس نیا موڑ اختیار کر گیا ہے۔
ڈی ایس پی لیگل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افسر کی بازیابی کے کیس کی سماعت کے دوران موقف اختیار کیا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی اور انکوائری کی وجہ سے خود روپوش تھے۔
انہوں نے کہا کہ کرپشن کیس کا مقدمہ درج ہوچکا ہے اور گرفتاری بھی ہو چکی۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی اے) کے لاپتہ ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان کی بازیابی کی درخواست دائر کرنے والی اِن کی اہلیہ بھی لاپتہ ہو گئيں۔
قبل ازیں دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر کو 15 روز غائب رکھا گیا۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور میں پیش کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا، اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی ہے۔
عدالت نے لاپتہ افسر کی بازیابی کے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
واضح رہے کہ مغوی افسر، این سی سی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو 14 اکتوبر کو اپارٹمنٹ کی پارکنگ سے اغواء کیا گیا تھا۔