UrduPoint:
2025-09-18@00:32:46 GMT

ملک کے 27 معروف یوٹیوب چینلز بلاک کرنے کا حکم دے دیا گیا

اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT

ملک کے 27 معروف یوٹیوب چینلز بلاک کرنے کا حکم دے دیا گیا

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 08 جولائی 2025ء ) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت کی جانب سے ملک کے 27 معروف یوٹیوب چینلز بلاک کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ایف آئی اے کی درخواست پر 27 معروف یوٹیوب چینلز بلاک کرنے کا حکم دیا جہاں جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے یوٹیوب چینل بلاک کی درخواست پر سماعت کی، جس کے بعد ایف آئی اے کی درخواست پر عدالت نے 2 صفحات کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔

عدالتی آرڈر میں کہا گیا ہے کہ ریاست مخالف مواد کے حوالے سے ایف آئی اے نے 2 جون کو انکوائری شروع کی، عدالت نے اس حوالے سے انکوائری افسرکو سنا اور دستیاب ریکارڈ کا بھی جائزہ لیا، جس کے نتیجے میں سامنے آنے والے شواہد کی بنیاد پر عدالت سمجھتی ہے کہ یہ معاملہ پیکا ایکٹ اورتعزیرات پاکستان کے تحت قابل سزا جرم ہے، اس لیے یوٹیوب کے افسرانچارج کو حکم دیا جاتا کہ ہے 27 یوٹیوب چینلزکو بلاک کردیا جائے۔

(جاری ہے)

بتایا جارہا ہے کہ اس معاملے پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس بھی ہوا تھا جس میں چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ ’ملک کیخلاف سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا جاری رہا، پی ٹی اے نے اس حوالے سے کیا اقدامات کیے؟ کیا پی ٹی اے کی جانب سے کوئی یوٹیوب چینلز بلاک کیے گئے؟‘۔ اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ ’پی ٹی اے کے پاس دو راستے ہیں، چینل بلاک کرلینا یا مواد بلاک کرنا، پی ٹی اے دیکھتا ہے کہ اسے کس قسم کی شکایات موصول ہوتی ہیں، کسی کے اکاؤنٹ بلاکنگ کی براہ راست درخواست نہیں آئی، پی ٹی اے کے پاس مواد بلاک کی روزانہ 300 درخواستیں آتی ہیں، سرکاری اداروں کیلئے ایک پورٹل بنایا ہے، جہاں 5ماہ 45 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئی ہیں‘۔

اس موقع پر سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ ’سوشل میڈیا کمپنیوں کو کہا جائے کہ پاکستان میں اپنے دفاتر بنائیں‘، چیئرمین پی ٹی اے نے جواب دیا کہ ’جب ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست مخالف مواد ہے تو کارروائی کرتے ہیں، سوشل میڈیا کمپنیاں سیاسی مواد کو نہیں ہٹاتی ہیں، پی ٹی اے سیاسی مواد ہٹانے کا کہے بھی تو کمپنیاں انکار کردیتی ہیں تاہم انفرادی شکایت پر سوشل میڈیا کمپنیاں صارف کو خود رسپانس دیتی ہیں‘۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یوٹیوب چینلز بلاک سوشل میڈیا پی ٹی اے

پڑھیں:

جعلی ڈگری کیس، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام سے روک دیا گیا

اسلام آباد: جعلی ڈگری کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج فرائض انجام دینے سے عارضی طور پر روک دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت تک نافذ العمل رہے گا جب تک سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے پر اپنا حتمی فیصلہ نہیں سنا دیتی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ حکم جاری کیا۔ عدالت نے معروف قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر اوصاف علی کو عدالتی معاون مقرر کیا، جبکہ اٹارنی جنرل سے درخواست کی سماعت کے قابل ہونے پر قانونی معاونت طلب کی گئی ہے۔

یہ فیصلہ ایڈووکیٹ میاں داؤد کی جانب سے دائر کردہ کو وارنٹو رٹ پٹیشن پر دیا گیا۔ تاہم، کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار عدالت میں پیش نہ ہو سکے۔ ان کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ میڈیکل ایمرجنسی کی وجہ سے غیر حاضر ہیں اور سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔

دورانِ سماعت اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد بار کونسل کے نمائندگان روسٹرم پر آ گئے اور اس درخواست پر تحفظات کا اظہار کیا۔ وکلا نمائندگان نے پٹیشن کو ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فی الوقت عدالت صرف ابتدائی اعتراضات کا جائزہ لے رہی ہے، اور ابھی نہ تو جج صاحب کو اور نہ ہی کسی دوسرے فریق کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ جب تک سپریم جوڈیشل کونسل کوئی فیصلہ نہیں دیتی، یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا۔

عدالت اس اہم آئینی سوال پر غور کر رہی ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہو، تو کیا ایسی صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے؟

اسلام آباد بار کونسل کے رکن راجہ علیم عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ ججز کے خلاف شکایات کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو حاصل ہے، اور اگر عدالتیں اس نوعیت کی پٹیشنز کو سماعت کے لیے منظور کرتی رہیں تو یہ عدلیہ کے وقار کے لیے نقصان دہ ہو گا۔

عدالت نے بار کے نمائندوں سے استفسار کیا کہ آیا وہ اس کیس میں فریق ہیں؟ ساتھ ہی کہا کہ اگر نوٹس جاری کیا گیا تو تمام متعلقہ فریقین کو سنا جائے گا۔ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم علی گجر نے کہا کہ بار اس معاملے میں ایک اسٹیک ہولڈر ہے اور ان کا مؤقف ہے کہ یہ درخواست قابلِ سماعت نہیں۔

چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ بار کا آئینی مؤقف قابلِ قدر ہے، تاہم اس وقت عدالت صرف ابتدائی قانونی اعتراضات پر غور کر رہی ہے۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • ہزاروں پاسپورٹ چوری ہونے کا معاملہ، تمام بلاک کردیے، ڈی جی کا دعویٰ
  • 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس: بانیٔ پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کے بجائے عدالت میں پیش کرنے کی درخواست منظور
  • ماہ رنگ بلوچ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست منتقل کرنیکی استدعا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیئرمین پی ٹی اے کو ہٹانے کا حکم، فیصلہ چیلنج
  • بلوچستان ہائیکورٹ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت
  • جعلی ڈگری کیس، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام سے روک دیا گیا
  • آئی سی سی نے میچ ریفری کو ہٹانے کی پاکستان کی درخواست مسترد کردی: بھارتی میڈیا کا دعویٰ
  • کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کی درخواست پر جواب طلب
  • رجب بٹ اور دوستوں کے خلاف زیادتی کیس میں اہم پیش رفت
  • سابق صدر  عارف علوی نے غیر قانونی اقدام کیا ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کا حکم