مغربی کنارے میں شاپنگ مال پر حملہ؛ ایک اسرائیلی ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
مغربی کنارے کے ایک پُرہجوم شاپنگ سینٹر میں دو چاقو بردار شخص نے حملہ کرکے گارڈ کو مار دیا اور اس کا اسلحہ چھین کر فائرنگ کردی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق حملے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز نے شاپنگ سینٹر کو گھیرے میں لے لیا۔
اسرائیلی سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ کرکے دونوں حملہ آوروں کو قتل کردیا جن کی شناخت کا عمل جاری ہے۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ حملہ آور حلیے اور شکل و صورت سے فلسطینی لگ رہے تھے جنھوں نے پہلے ایک گاڑی چھینی اور اس پر شاپنگ سینٹر پہنچے تھے۔
یاد رہے کہ اس واقعے سے چند گھنٹے قبل ہی ایک اور اسرائیلی فوجی کو جنین کے قریب فلسطینی گاؤں رمانہ میں چھری مار کر زخمی کر دیا گیا تھا۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر بڑے حملے کے بعد سے مغربی کنارے میں بھی حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور یہودی آبادکاروں پر حملوں میں 53 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 8 فوجی اہلکار عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس عرصے میں مغربی کنارے سے تقریباً 6 ہزار فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 2,350 سے زائد کا تعلق حماس سے ہے۔
ادھر فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 950 سے زائد ہوگئی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعے کے روز استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب غزہ جنگ کے دوران گرفتار ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات جاری تھیں۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد اسرائیل میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا اور پانچ فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مخالفت کی جبکہ مشتعل مظاہرین نے ان دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا جہاں تفتیشی ٹیمیں فوجیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں۔
واقعے کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی نیوز چینل ”این 12“ نے وہ ویڈیو نشر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو الگ لے جا کر گھیر لیتے ہیں، ایک کتا ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنی شیلڈز کے ذریعے منظر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو بتایا تھا کہ ویڈیو لیک ہونے پر فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور ٹومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ویڈیو جاری کرنا دراصل فوج کے قانونی محکمے پر پھیلنے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا توڑ تھا، جسے جنگ کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں اُن فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث تھے، ساتھ ہی ان فلسطینیوں کو بھی جو غزہ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کیمپوں میں فلسطینی قیدیوں پر سنگین تشدد کی شکایات کی ہیں، اگرچہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تشدد کوئی ”منظم پالیسی“ نہیں۔
اپنے استعفے کے خط میں ٹومر یروشلمی نے ان قیدیوں کو ”بدترین دہشت گرد“ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کے باوجود ان پر ظلم یا غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا: ”افسوس ہے کہ یہ بنیادی سمجھ اب سب کے لیے قائل کن نہیں رہی کہ چاہے قیدی کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ کچھ حدود عبور نہیں کی جا سکتیں۔“
استعفا سامنے آنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاتز نے کہا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجیوں پر ”جھوٹے الزامات“ لگاتا ہے وہ فوجی وردی پہننے کے لائق نہیں۔ جبکہ اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید قانونی حکام کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بن گویر نے خود ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آتے ہیں جو جیل میں بندھے ہوئے فرش پر لیٹے تھے۔ بن گویر نے ان قیدیوں کو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ”سزائے موت“ ہونی چاہیے۔