پاکستان میں ’می ٹو‘ مہم کا غلط استعمال ہوا: کومل میر
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
معروف اداکارہ کومل میر نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کو ہراسانی کے خلاف آواز بلند کرنے کا پلیٹ فارم دینے والی ’می ٹو‘ مہم کو پاکستان میں بدقسمتی سے بعض افراد نے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا، جس سے اصل متاثرین کی آواز دب گئی۔
یہ بات انہوں نے اپنے نئے ڈرامے کی تشہیر کے لیے منعقد ایک تقریب میں گفتگو کے دوران کہی، جس کا موضوع دفتر اور پیشہ ورانہ ماحول میں خواتین کو درپیش ہراسانی اور بدسلوکی ہے۔
کومل میر نے کہا کہ پاکستان میں اس مہم کو جس طرح استعمال کیا گیا، اس نے اصل متاثرہ خواتین کی آواز کو پیچھے دھکیل دیا اور مہم کی اصل روح متاثر ہوئی۔
کومل میر کے مطابق ان کا نیا ڈرامہ ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے جو دفتر میں ہونے والی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھاتی ہے اور قانونی کارروائی کا راستہ اپناتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا کردار ایک ایسی عورت کا ہے جو خاموش رہنے کے بجائے انصاف کے لیے کھڑی ہوتی ہے اور دوسروں کے لیے مثال بنتی ہے کہ خاموشی کی بجائے قانون کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
اداکارہ نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں اکثر خواتین اپنے قانونی حقوق سے لاعلم ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خود حال ہی میں پتہ چلا کہ ہراسانی سے متعلق قوانین کتنے واضح اور مضبوط ہیں۔ ہمارا ڈرامہ اسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش ہے۔
کومل کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں اکثر خواتین خوف، سماجی دباؤ یا شرمندگی کے باعث آواز نہیں اٹھاتیں، ہماری کوشش ہے کہ اس ڈرامے کے ذریعے ایسی خواتین کو حوصلہ دیا جائے جو خود بول نہیں سکتیں۔
یاد رہے کہ ’می ٹو‘ مہم 2017ء میں عالمی سطح پر ابھری، جس نے خواتین کو جنسی ہراسانی کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔ پاکستان میں بھی اس مہم کے نتیجے میں کئی اہم شخصیات پر الزامات سامنے آئے۔ بعد ازاں جھوٹے الزامات اور بداعتمادی کی فضا نے اس مہم کے مؤثر اثرات کو متاثر کیا۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستان میں خواتین کو کومل میر کے لیے نے کہا
پڑھیں:
قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر سخت پابندی عائد
قازقستان نے خواتین کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر باضابطہ پابندی عائد کر دی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق، ملک میں منگل کے روز ایک نیا قانون نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت اب کسی کو زبردستی شادی پر مجبور کرنا قانونی جرم قرار دیا گیا ہے، جس کی سزا 10 سال تک قید ہو سکتی ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ قانون خاص طور پر خواتین اور نوجوانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، تاکہ وہ معاشرتی دباؤ یا جبر کا شکار نہ ہوں۔
دلہنوں کے اغوا پر بھی پابندی
نئے قانون کے تحت اب دلہنوں کے اغوا پر بھی مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق، پہلے اگر کوئی اغوا کار متاثرہ لڑکی کو بعد میں چھوڑ دیتا تھا تو اس کے لیے قانونی سزا سے بچ نکلنے کا راستہ موجود ہوتا تھا، مگر اب ایسا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔
درست اعداد و شمار کی کمی، مگر مسئلہ سنگین
اگرچہ قازقستان میں جبری شادیوں کے حوالے سے قابل اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ پہلے قانون میں اس حوالے سے کوئی واضح شق نہیں تھی، تاہم ایک رکنِ پارلیمان نے انکشاف کیا تھا کہ گزشتہ تین سال کے دوران پولیس کو 214 شکایات موصول ہو چکی ہیں۔
پس منظر: خواتین کے حقوق پر بڑھتی تشویش
یہ قانون ایک ایسے وقت میں نافذ کیا گیا ہے جب قازقستان میں خواتین کے حقوق کا مسئلہ پہلے ہی شدت اختیار کر چکا ہے۔ یاد رہے کہ 2023 میں ایک سابق وزیر کی جانب سے اپنی اہلیہ کے قتل نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل پیدا کیا تھا، جس کے بعد خواتین کے تحفظ سے متعلق قانون سازی کی ضرورت اور بھی نمایاں ہو گئی۔
Post Views: 5