میئر کراچی کا نیپا و صفورہ ہائیڈرنٹ پر ڈرامائی چھاپہ محض دکھاوا ہے، علی خورشیدی
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی نے کہا کہ کراچی سے ہر ماہ اربوں روپے کی وصولی کی جاتی ہے، مگر اس کے باوجود گزشتہ سال واٹر بورڈ کے بجٹ سے پانی کے نظام کی بہتری کے لیے ایک روپے کا بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ صورتحال عوام کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایم کیو ایم پاکستان کے اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی علی خورشیدی نے میئر کراچی مرتضی وہاب کی جانب سے واٹر کارپوریشن انتظامیہ کے ہمراہ نیپا و صفورہ ہائیڈرنٹ پر کیے گئے مبینہ چھاپے کو محض ایک ڈرامائی کاروائی قرار دیتے ہوئے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ علی خورشیدی نے سوال اٹھایا کہ کیا پورے کراچی میں صرف دو ہی غیر قانونی ہائیڈرنٹس سرگرم ہیں؟ یہ کاروائی صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھاپے کی آڑ میں صرف نچلے گریڈ کے غریب ملازمین کو معطل کیا گیا ہے جبکہ اصل ذمہ داران، خصوصا انچارج ہائیڈرنٹ سیل اور واٹر کارپوریشن کے اعلی افسران کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی، میئر کراچی ان افراد کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں جو اس پورے نظام کے اصل ذمہ دار ہیں۔
علی خورشیدی نے واٹر کارپوریشن کے موجودہ سی ای او اور سی او او کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ادارے کا پچھلا سالانہ بجٹ مکمل طور پر ضائع ہوگیا۔ انہوں نے حکومت سندھ اور میئر کراچی سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائے کہ مالی سال 2024-25ء کا واٹر کارپوریشن کا مکمل بجٹ کس کے ایماء پر ضائع کیا گیا اور یہ فنڈز کہاں خرچ ہوئے۔ اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ کراچی سے ہر ماہ اربوں روپے کی وصولی کی جاتی ہے، مگر اس کے باوجود گزشتہ سال واٹر بورڈ کے بجٹ سے پانی کے نظام کی بہتری کے لیے ایک روپے کا بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ صورتحال عوام کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: واٹر کارپوریشن علی خورشیدی میئر کراچی کیا گیا کہا کہ
پڑھیں:
کراچی میں ای چالان کی بھاری رقم پر جماعت اسلامی کا احتجاج، سٹی کونسل میں قرارداد پیش
کراچی میں ای چالان کی بھاری رقم اور کیمروں کے ذریعے اصلاحی اقدامات پر جماعت اسلامی نے سٹی کونسل میں قراردادیں پیش کیں۔ دونوں قراردادیں جماعت اسلامی کے نمائندوں نے سٹی کونسل میں پیش کیں۔
رہنما جماعت اسلامی جنید مکاتی نے سوال اٹھایا کہ یہ چالان لاڑکانہ اور نواب شاہ میں کیوں نہیں لگتے؟ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو سہولیات یا بہتر سڑکیں فراہم کیے بغیر ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں۔
بعد ازاں اپوزیشن لیڈر سیف الدین ایڈووکیٹ کی قیادت میں جماعت اسلامی کے سٹی کونسل ممبران نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے باہر ای چالان کی بھاری رقم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
کراچی میں ای چالان سسٹم کے تحت ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر عائد کیے جانے والے جرمانے شہریوں کے لیے حیران کن ثابت ہوئے ہیں۔ کراچی اور لاہور کے جرمانوں کا تقابلی جائزہ لینے سے واضح فرق سامنے آتا ہے۔ مثال کے طور پر، ڈرائیونگ لائسنس نہ رکھنے پر کراچی میں 20 ہزار روپے جبکہ لاہور میں صرف 200 روپے جرمانہ عائد ہوتا ہے، یعنی کراچی میں یہ رقم سو گنا زیادہ ہے۔
ہیلمٹ نہ پہننے پر کراچی میں 5 ہزار روپے جبکہ لاہور میں 2 ہزار روپے، سگنل توڑنے پر کراچی میں 5 ہزار روپے جبکہ لاہور میں 300 روپے، اور اوور اسپیڈنگ پر کراچی میں 5 ہزار روپے جبکہ لاہور میں 200 روپے جرمانہ ہے۔ سب سے زیادہ فرق ون وے خلاف ورزی پر ہے، جہاں کراچی میں 25 ہزار روپے جبکہ لاہور میں 2 ہزار روپے کا چالان عائد ہوتا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں جرمانوں کی یہ بھاری شرح عوام کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے اور مختلف شہروں میں قوانین کے غیر مساوی اطلاق پر سوالات کھڑے کر رہی ہے۔