امریکی یورپی ’’ٹیرف یونین‘‘کا دوسرا رخ: عالمگیریت کے زوال کا خمیازہ کون بھرے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
امریکی یورپی ’’ٹیرف یونین‘‘کا دوسرا رخ: عالمگیریت کے زوال کا خمیازہ کون بھرے گا؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 28 July, 2025 سب نیوز
واشنگٹن : امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین نے 15 فیصد شرح محصولات پر معاہدہ کر لیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت یورپی یونین پہلے کی نسبت امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کرے گی، امریکی فوجی سازوسامان کی خریداری بڑھائے گی اور 150 ارب ڈالر کی امریکی توانائی مصنوعات خریدے گی۔ یورپی کمیشن کی صدر وان ڈیر لیین نے کہا کہ یورپی یونین اور امریکہ دونوں 15 فیصد یکساں شرح محصولات پر متفق ہو گئے ہیں، جس میں گاڑیوں سمیت دیگر تمام اقسام کی اشیا شامل ہوں گی۔ وان ڈیر لیین نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ یہ تجارتی معاہدہ مارکیٹ میں استحکام لائےگا۔ اسی دن امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ صدر ٹرمپ نے دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک کا دروازہ کھول دیا ہے، یورپی یونین اپنی 20 ٹریلین ڈالر کی مارکیٹ کو کھولے گی اور پہلی بار مکمل طور پر امریکی گاڑیوں اور صنعتی معیارات کو قبول کرے گی۔تاریخی تناظر میں ، امریکہ اور یورپ کے تجارتی تعلقات ہمیشہ ’’حلیف‘‘اور ’’حریف‘‘کی دوہری شناخت کے گرد ڈولتے رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں، سٹیل اور ایلومینیم کے محصولاتی تنازعات سے لے کر ڈیجیٹل سروس ٹیکس کی دوڑ تک، بحر اوقیانوس کے پار تجارتی کشمکش کبھی ختم نہیں ہوئی۔ اس دفعہ امریکہ کے لیے 600 ارب ڈالر کی نئی سرمایہ کاری کا وعدہ اور 150 ارب ڈالر کی توانائی مصنوعات کی خریداری، نہ صرف امریکہ کی گھریلو مینوفیکچرنگ میں روزگار کے دباؤ کو کم کر سکتی ہے بلکہ توانائی کی برآمدی برتری کو بھی مضبوط بنا سکتی ہے، جو ٹرمپ کی ایک حکمت عملی کی فتح سمجھی جا سکتی ہے۔
البتہ یورپی یونین کا حساب کتاب بھی پیچیدہ ہے۔ توانائی کی خودمختاری اور سلامتی خدشات کے دہرے دباؤ کے تحت، امریکی فوجی سازوسامان کی خریداری سے قلیل مدت میں دفاعی خودمختاری کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے، جبکہ یکساں شرح محصولات سے لڑکھڑاتی یورپی گاڑیوں کی صنعت کو استحکام مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جرمن گاڑیوں کی صنعت یورپی یونین کے جی ڈی پی کا 4 فیصد ہے، اور کوئی بھی تجارتی اتھل پتھل یوروزون کی معیشت کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔ وان ڈیر لیین کا زور “مارکیٹ استحکام” پر درحقیقت توانائی کے بحران اور معاشی کساد بازاری کے خطرے سے دوچار یورپ کے لیے کچھ سانس لینے کی جگہ حاصل کرنا ہے۔تاہم، اس معاہدے کے منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 15 فیصد کی یکساں شرح محصولات عارضی طور پر دونوں فریقوں کے درمیان توازن کا نقطہ نظر لگتی ہے، لیکن یہ عالمی تجارتی نظام کے لیے منفی اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ جب امریکہ اور یورپ محصولات پر “متحدہ محاذ” تشکیل دیتے ہیں، تو عالمی سپلائی چینز مخصوص خطوں میں مرتکز ہونے لگتی ہیں، جو ڈبلیو ٹی او کے عدم امتیاز کے اصولوں کی صریح نفی ہے۔ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ معاہدے میں “امریکی توانائی مصنوعات کی خریداری” کی اصطلاح واضح تجارتی رجحان کی حامل ہے، جو “فرینڈ شورنگ” کے رجحان کو مزید تقویت دے کر عالمی مارکیٹ کی ڈسٹری بیوشن کارکردگی کو کم کر سکتی ہے۔ظاہر ہے ، جب ڈبلیو ٹی او کا تنازعات کے حل کا میکانزم غیر فعال ہے، تو بڑی طاقتوں کے درمیان دو طرفہ معاہدوں کے ذریعے قواعد و ضوابط طے کرنے کا رجحان مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔
اگرچہ یہ “کلب نما” قواعد سازی مخصوص فریقوں کے درمیان کچھ اختلافات کو جلدی حل کر سکتی ہے، لیکن اس سے عالمی تجارتی نظام کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خطرہ ہے — ترقی یافتہ ممالک اپنی مذاکراتی صلاحیت کے بل پر “اعلیٰ معیار” کے قواعد کا حلقہ بنا لیں گے، جبکہ ترقی پذیر ممالک کو مختلف قواعد کے نظاموں سے خود کو مشکل سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔مستقبل میں، اس معاہدے کے استحکام کا انحصار ایک طرف تو امریکہ اور یورپ کے اندرونی سیاسی ماحول کے توازن پر ہے — ٹرمپ کو قدامت پسندوں کے لیے “امریکہ فرسٹ” کے اثرات ثابت کرنے ہوں گے، جبکہ وان ڈیر لیین کو یورپی یونین کے اندر فرانس اور جرمنی جیسے ممالک کے مفادات کے فرق کو سنبھالنا ہوگا۔ دوسری طرف یہ عالمی تجارتی نظام پر منحصر ہے کہ وہ اتھل پتھل میں کسی حد تک متحرک توازن برقرار رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ علاقائی معاہدوں کو خصوصی گروہوں میں بدلنے سے کیسے بچایا جائے، یہ پالیسی سازوں کی عقل کا امتحان ہے۔اس غیر یقینی کے دور میں، امریکہ اور یورپ کے درمیان ہونے والا یہ محصولاتی سمجھوتہ درحقیقت عالمی میدان میں طاقت اور مفادات کی کشمکش کا تسلسل ہے۔
جب امریکہ اور یورپ “کلب نما” معاہدوں کے ذریعے ڈبلیو ٹی او کے کثیر جہتی فریم ورک کو کمزور کرتے ہیں، تو ترقی پذیر ممالک کو’’ قواعد قبول کرنے‘‘اور’’پیچھے رہنے‘‘ کے درمیان مشکل انتخاب کرنا پڑتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ عالمگیر چیلنجز اور انسانی ہم نصیب معاشرے کے مستقبل کے سامنے ،کسی بھی یکطرفہ حکمت عملی کی سوچ دانش مندی نہیں ہے۔ توازن کی قیود سے ہٹ کر کیے گئے کسی بھی تجارتی انتظام کا اثر آخرکار اس کے استحکام کو ہی نقصان پہنچاتا ہے، اور اس امریکی یورپی محصولاتی معاہدے سے بھی یہی ہوتا نظر آتا ہے ۔بہرحال، مجھے اب بھی یقین ہے کہ گلوبلائزیشن کی کہانی ختم نہیں ہوئی ہے، بلکہ ایک زیادہ پیچیدہ طریقے سے دوبارہ لکھی جا رہی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرغزہ میں بھوک نے مزید 14 افراد کی جان لے لی، اسرائیلی حملوں میں مزید 41 فسلطینی شہید شنگھائی سے مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی کے لئے ایک نئے پل کی تعمیر چاؤ لیجی کا کرغزستان کا دورہ خیرسگالی بلند شرح سودکاروباری سرگرمیوں کے فروغ میں رکاوٹ ہے، زاہد اقبال چوہدری چین کا تائیوان کے عوامی نمائندوں کی ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں گومن دانگ پارٹی کی کامیابی پر رد عمل چین اور اقوام متحدہ کے اقتصادی و سماجی کمیشن برائے ایشیاء و بحرالکاہل کے درمیان “بیلٹ اینڈ روڈ” پر تعاون کی دستاویز کی تجدید چینی وزیر اعظم کی 2025 عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں شرکتCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
سکلز ایمپیکٹ بانڈ کی منظوری، جدید ماڈل نوجوانوں کیلئے نجی سرمایہ کاری لائے گا: وزیراعظم
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کی تجارتی شراکت داری کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یورپی یونین کی سفیر رینا کیونکا سے گفتگو میں کیا جنہوں نے ان سے الوداعی ملاقات کی۔ وزیراعظم نے یورپی یونین کی سفیر کو پاکستان میں اپنی مدت ملازمت کی کامیابی سے تکمیل پر مبارکباد دیتے ہوئے پاکستان اور یورپی یونین کے تعلقات کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے پاکستان میں 2022ء کے سیلاب کے دوران یورپی یونین کی جانب سے مدد کو یقینی بنانے میں ان کی کوششوں کو سراہا۔ وزیراعظم نے پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک کے طور پر یورپی یونین کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے جی ایس پی پلس سکیم کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا جو فریقین کے لیے باہم فائدہ مند ثابت ہوئی۔ وزیر اعظم نے یورپی یونین کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیرلیین کے لیے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ان سے جلد ملاقات کے منتظر ہیں۔ علاوہ ازیں شہباز شریف نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے پر حکومت کی جانب سے ہرممکن قانونی و سفارتی مدد کی فراہمی کا یقین دلاتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیدی۔ شہباز شریف سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں کسی طور غافل نہیں، حکومت کی جانب سے پہلے بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں سفارتی و قانونی مدد فراہم کی جاتی رہی ہے۔ وزیر اعظم نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں اب بھی حکومت کی جانب سے ہر ممکن قانونی و سفارتی مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ کمیٹی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے اس حوالے سے رابطے میں رہے گی اور درکار ممکنہ معاونت کیلئے کام کرے گی۔ مزید براں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ادارہ جاتی اصلاحات ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ معیشت کی ڈیجیٹائزیشن، سرکاری اداروں کی رائیٹ سائزنگ اور حکومتی اداروں میں میرٹ پر ماہرین کی تعیناتی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو وفاقی وزارتوں اور محکموں میں تکنیکی ماہرین کی تعیناتی اور بیرونی سرمایہ کاری پرحکمت عملی کی تشکیل اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی پر پیشرفت کے حوالے سے جائزہ اجلاس سے خطاب میں کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ معیشت کی ڈیجیٹایزیشن، سرکاری اداروں کی رائٹ سائزنگ اور حکومتی اداروں میں میرٹ پر ماہرین کی تعیناتی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، ماہرین کی تعیناتی کے حوالے سے میرٹ اور شفافیت پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں ہو گا۔ اجلاس میں وزیراعظم کو تکنیکی ماہرین کی تعیناتی کے حوالے سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی پر بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ اب تک تکنیکی ماہرین کی 15 اسامیوں پر تعیناتیاں ہوچکی ہیں، مزید 47 تکنیکی اسامیوں پر ماہرین کی تعیناتی کی جا رہی ہے، 7 اہم وزارتوں اور محکموں میں چیف ایگزیکٹو افسران، چیف فنانس افسران اور مینجنگ ڈائریکٹرز کی تعیناتی کے لئے 30 امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب شہباز شریف سے تحریک انصاف کے سابق صوبائی صدر اور سابق صوبائی وزیر نوابزادہ محسن علی خان نے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے نوابزادہ محسن علی خان کا مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ خیبر پی کے میں مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں کو فروغ دینے اور عوامی روابط بڑھانے کے حوالے سے فعال کردار ادا کریں گے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت خیبر پی کے کے عوام کی فلاح و بہبود اور وہاں امن و امان کے فروغ کے لئے ہرممکن کردار ادا کرتی رہے گی۔ شہباز شریف نے پاکستان کے پہلے سکلز ایمپیکٹ بانڈ کی منظوری دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جدید ماڈل نوجوانوں کو روزگار کے قابل بنانے کیلئے نجی سرمایہ کاری کو راغب کرے گا۔ پاکستان کے باصلاحیت نوجوان پاکستان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ نوجوانوں کو روزگار کے قابل تعلیم و ہنر کی فراہمی سے اس ملک کی تقدیر بدلیں گے۔ پاکستان کے باصلاحیت نوجوان دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں۔ نوجوانوں کو پاکستان اور بیرون ملک روزگار کے مواقع اور حصول کی تعداد کے تخمینے پر مبنی ایک جامع روڈمیپ پیش کیا جائے۔ ہر دو ماہ میں اس پر عملدرآمد کی پیش رفت کا خود جائزہ لوں گا۔ اس نظام کے تحت نوجوانوں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ایسے ہنر سکھائے جائیں گے جس سے پاکستان کے نوجوان با اختیار اور ملکی اقتصادی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر سکیں گے۔ پاکستانی نوجوانوں کو بیرون ملک روزگار کے حصول میں معاونت کیلئے ان ممالک کی مقامی زبانوں کی تعلیم کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ بیرون ملک روزگار کے حصول کیلئے ہنر مند افراد کی تیاری کو ترجیح دی جائے۔ نوجوانوں کو ڈیجیٹل یوتھ ہب پر موجود روزگار کے مواقع کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کیلئے مہم چلائی جائے۔ پاکستان کے باصلاحیت نوجوان پاکستان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ نوجوانوں کو روزگار کے قابل تعلیم و ہنر کی فراہمی سے اس ملک کی تقدیر بدلیں گے۔ ڈیجیٹل یوتھ ہب کے تحت اب تک پانچ لاکھ سے زائد افراد رجسٹرڈ ہو چکے جبکہ 17 لاکھ سے زائد لوگوں نے اس کی ایپلی کیشن کو ڈائون لوڈ کیا۔