Express News:
2025-07-30@10:08:26 GMT

تعلیم اور درسگاہوںکے مسائل

اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT

ملک اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ وفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں کمی کردی گئی جس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ وفاق اور صوبوں کی زیرِ انتظام یونیورسٹیوں میں مالیاتی بحران بڑھ گیا ہے مگر پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی نگرانی کرنے والے ادارے کی بیوروکریسی کی شاہ خرچیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔

گزشتہ ہفتے ایچ ای سی کے حوالے سے یہ خبر ذرایع ابلاغ پر خوب اجاگر ہوئی کہ ایچ ای سی کی بااختیار اتھارٹی نے اپنے کنٹریکٹ ملازمین اور ان کی شریک حیات کے لیے ملازمت کے بعد ہیلتھ بینیفٹس جاری رکھنے کی منظوری دیدی ہے۔

ایچ ای سی کے 44 ویں اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس پالیسی کے تحت کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین، عام ملازمین سے لے کر چیئرمین اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر سمیت اعلیٰ افسران جن کی ماہانہ تنخواہیں پانچ لاکھ اور اس سے زیادہ ہیں۔ اس پالیسی سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ ایک طرف تعلیمی بجٹ کی کمی کے باوجود یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف وفاق اور صوبوں کی زیر نگرانی یونیورسٹیوں میں تعلیمی، انتظامی اور مالیاتی بحران کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف نے آئین کے تحت اردو کو قومی زبان قرار دینے کے فیصلے کے تحت کراچی میں قائم وفاقی اردو کالجز کو وفاقی اردو یونیورسٹی کی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا تھا، یوں 2002 میں ایک اسپیشل آرڈیننس کے تحت وفاقی اردو یونیورسٹی قائم ہوئی۔ وفاقی اردو یونیورسٹی 2017سے مختلف مسائل کا شکار ہے۔ اردو یونیورسٹی کے 2017سے ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے ارکان واجبات سے محروم ہیں۔ موجودہ اساتذہ اور عملے کو بھی تنخواہ اور رینٹل سیلنگ الاؤنس نہ ملنے جیسے مسائل درپیش ہیں۔ ریٹائرڈ اساتذہ اور عملے کی کئی ماہ کی پنشن ابھی تک ادا نہیں ہوسکی۔ اس دوران اردو یونیورسٹی کے 10 ریٹائرڈ اساتذہ اور ریٹائرڈ عملے کے 5 اراکین انتقال کرچکے ہیں۔

گزشتہ 6 ماہ کے دوران حاضر سروس ایک سینئر خاتون پروفیسر اور ایک اسسٹنٹ رجسٹرار بھی انتقال کرگئے، یوں 200 سے زائد خاندان مصائب کا شکار ہیں۔ وفاقی انفارمیشن کمیشن کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق اردو یونیورسٹی نے 67 کروڑ روپے کی رقم مختلف بینکوں کے اکاؤنٹس میں ڈپازٹ کی گئی ہے جس پر ہر سال منافع بھی ملتا ہے، مگر معاملہ صرف وفاقی اردو یونیورسٹی کا نہیں بلکہ وفاق کے زیرِ انتظام دیگر یونیورسٹیاں بھی مالیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ ان یونیورسٹیوں کے پاس تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بعض اوقات مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔

 بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیوں میں بھی اسی نوعیت کا بحران ہے۔ ان یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور عملے کے لوگ بھی کئی کئی دفعہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کو مسلسل ہدایات جاری کی ہیں کہ یونیورسٹیاں نئے وسائل پیدا کریں۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے پاس خطہ اراضی فروخت کرنے، طلبہ کی فیسوں میں اضافہ کرنے اور تعلیمی شعبہ جات کو بند کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے یونیورسٹیوں کو مالیاتی کمک کی فراہمی کے لیے قیمتی اراضی فروخت کرنے کی تجویز پیش کی تھی مگر اس وقت کے ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر بنوری کی شدید مخالفت کی بناء پر اس پالیسی پر عمل نہ ہوسکا۔

ڈاکٹر بنوری کا کہنا تھا کہ اراضی کی فروخت کے معاملات میں لینڈ مافیا کی مداخلت بڑھ جانے کے خدشات ہیں۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں پر زور دیا کہ طلبہ سے لی جانے والی فیسوں، امتحانات، انرولمنٹ، مارک شیٹ اور ڈگریوں کے اجراء اور دستاویزات کی تصدیق کے لیے وصول کی جانے والی فیسوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا جائے۔ اس فیصلے سے نچلے متوسط طبقے کے طلبہ کے علاوہ متوسط طبقے کے طلبہ بھی متاثر ہوئے۔ بہت سے طالب علموں نے فیس کی رقم نہ ہونے کی بناء پر تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔

گزشتہ سال کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے مختلف پروگراموں میں زیرِ تعلیم 30 سے 40 فیصد طلبہ نے فیس جمع نہیں کرائی تھی۔ فیسوں میں اضافے کے فیصلے سے غریب طلبہ خاندانوں کے طلبہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ بلوچستان میں غربت کی لکیر کے نیچے 70 فیصد آبادی زندگی گزار رہی ہے۔ ہر 10 میں سے چوتھا آدمی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بلوچستان میں طلبہ کی اکثریت مختلف اسکالر شپس پر تعلیم حاصل کرتی ہے مگر صوبائی حکومت کے وظائف کی تعداد محدود ہوگئی ہے۔ اب یونیورسٹیاں اپنے فنڈ سے فیس معاف کرنے کے بجائے محکمہ بیت المال سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتی ہیں۔ بیت المال زکوۃ کی رقم سے مخصوص زمرہ جات کے طلبہ کو ملتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں میں داخلے کی شرح کم ہوئی۔ سرکاری یونیورسٹیاں سوشل سائنس کے مضامین کے علاوہ بیسک سائنس کے بعض مضامین کی تدریس بند کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ اس فیصلے سے اردو، سندھی، بلوچی، پشتو اور براہوی زبان میں تعلیم کے راستے میں مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔

یونیورسٹیوں میں زبانوں کے علم کے علاوہ سماجی علوم اور بیسک سائنس کے شعبوں کے بند ہونے سے نظامِ تعلیم پر سخت منفی نتائج برآمد ہوںگے، اگر ان شعبوں میں تدریس بند رہی تو پھر اسکولوں اورکالجوں میں بنیادی مضامین کی تدریس کے لیے اساتذہ دستیاب نہیں ہوںگے۔ ایک اور رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب اور اسلام آباد کی اہم یونیورسٹیوں میں بیسک سائنس کے مضامین میں طلبہ کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ مختلف زبانوں پر تحقیق کے مراکز کے علاوہ دنیا کے مختلف خطوں کے مسائل پر تحقیق کرنے والے سینٹروں کی بندش سے قومی زبانوں کی ترقی رک جائے گی ۔

 وزیر اعظم کو اعلیٰ تعلیم کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر فوری توجہ دینی چاہیے ۔ حکومت کو یونیورسٹیوں کے مالیاتی بحرانوں کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ نئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی 300 یونیورسٹیوں میں کوئی پاکستانی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: وفاقی اردو یونیورسٹی یونیورسٹیوں میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ایچ ای سی کے علاوہ سائنس کے کے طلبہ کے لیے کے تحت

پڑھیں:

ورلڈ یونیورسٹی گیمزِ، پاکستانی دستے میں بے ضابطگیوں پر انکوائری کمیٹی تشکیل

انکوائری کمیٹی ٹیم ،انتخاب، نظم و ضبط، لاجسٹک مسائل و کھلاڑیوں کے غائب ہونے کی تحقیقات کرے گی
ڈائریکٹر پی ایس بی لاہور کی سربراہی میں قائم تین رکنی کمیٹی 15 یوم میں جامع رپورٹ پیش کرنے کی پابند

پاکستان اسپورٹس بورڈ نے ورلڈ یونیورسٹی گیمز کیلئے جرمنی جانے والے پاکستانی دستے میں بے ضابطگیوں پر انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی۔ ڈائریکٹر پی ایس بی لاہور کی سربراہی میں قائم تین رکنی کمیٹی 15 یوم میں جامع رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔ ڈی جی پی ایس بی کی منظوری سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق ایف آئی ایس یو ورلڈ گیمز میں پاکستانی دستے کی شرکت میں سنگین بے ضابطگیاں سامنے آئیں جن میں ٹیم آفیشلز کے انتخاب، نظم و ضبط، لاجسٹک مسائل اور دو کھلاڑیوں کے غائب ہونے جیسے سنگین نکات شامل ہیں۔ماسوائے ایک کوچ کے تمام ٹیم آفیشلز ایچ ای سی یا جامعات کے افسران تھے جس سے شفافیت پر سوال اٹھے۔ ایچ ای سی کے مطابق مقابلے کے دوران دو طالبعلم ایتھلیٹس کے لاپتہ یا فرار ہونے کی اطلاع دی گئی ہے۔ خواتین کے ریلے ٹیم 4400 مقابلوں کے لئے نااہل قرار دیا گیا۔ ایک جوڈو ایتھلیٹ نے کوچ اور مناسب مقابلہ جاتی یونیفارم کے مقابلوں میں شرکت کی۔ ان حقائق کی روشنی میں پی ایس بی نے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ہے۔ کمیٹی کی سربراہ ڈائریکٹر پی ایس بی لاہور نورش صباح جبکہ نصرا للہ رانا اور سیف الراحمان راو ممبران ہونگے۔تحقیقاتی کمیٹی ایچ ای سی کی جانب سے ایتھلیٹس اور ٹیم آفیشلز کے انتخاب کے طریقہ کار، بنیاد اور شفافیت کا جائزہ لے گی، کمیٹی دستے میں شامل ہر آفیشل کی ذمہ داریوں کا تعین کریگی کہ ان کی شمولیت مروجہ اصولوں کے مطابق تھی یا نہیں۔کمیٹی دو ایتھلیٹس کے لاپتہ یا فرار ہونے کے حالات کی چھان بین، واقعات کا وقت وار جائزہ اور غفلت یا نااہلی کے ذمہ داران کی نشاندہی کرے گی۔ کمیٹی خواتین ریلے ٹیم کی نااہلی کے اسباب کی تحقیق، تیاری، انتخاب یا نگرانی میں بھی کوتاہی کی بھی نشاندہی کرے گی۔ٹی او آر کے مطابق کمیٹی یہ تعین بھی کرے گی کہ جوڈو ایتھلیٹ کو مقابلہ کیلئے یونیفارم کیوں فراہم نہیں کیا گیا اور وہ کوچ کے بغیر کیوں شریک ہوئی۔ کمیٹی بدانتظامی، غفلت یا فرائض میں کوتاہی کے مرتکب افراد کے خلاف مناسب کارروائی کی سفارش کریگی۔ کمیٹی نوٹیفکیشن کے اجرا کی تاریخ سے (15) دن کے اندر ایک جامع رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہونگی۔

متعلقہ مضامین

  • ہارورڈ یونیورسٹی بھی ٹرمپ کے سامنے جھک گئی، 500 ملین ڈالر وقف کرنے کا اعلان
  • قائداعظم یونیورسٹی ہاسٹلز خالی نہ کرنیوالے متعدد طلبہ گرفتار، یونیورسٹی کا موقف بھی جاری
  • قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ہاسٹلز سے سیکڑوں طلباء گرفتار
  • قائداعظم یونیورسٹی کے تمام ہاسٹلز خالی، پولیس نے بڑی کارروائی کیوں کی؟
  • مغیث الدین شیخ باکمال معلم اور ماہر تعلیم
  • پنجاب کی سرکاری و نجی یونیورسٹیوں میں ایم پی ایز کی لازمی شمولیت، نیا قانون، نئی تنقید
  • ورلڈ یونیورسٹی گیمزِ، پاکستانی دستے میں بے ضابطگیوں پر انکوائری کمیٹی تشکیل
  • کور کمانڈر بلوچستان کی مختلف جامعات کے طلبہ کیساتھ خصوصی نشست
  • ڈی جی آئی ایس پی آراحمد شریف چوہدری کا جی سی یونیورسٹی لاہور کا دورہ