سرگودھا ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 31 جولائی 2025ء ) صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا میں معاشی حالات سے تنگ 24 سالہ نوجوان نے مبینہ طور پر خود کشی کرلی۔ تفصیلات کے مطابق تنگ دستی یعنی غربت یا مالی مشکلات کی وجہ سے خودکشی کا رجحان ایک نہایت سنجیدہ اور افسوسناک مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں بہت سے افراد اور خاندانوں کو متاثر کرتا ہے، خصوصاً ان معاشروں میں جہاں معاشی تحفظ، سماجی مدد اور ذہنی صحت کی سہولیات محدود ہوں اور ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی بدحالی بھی زندگیاں نگلنے لگی۔

بتایا گیا ہے کہ ایسا ہی ایک افسوسناک واقعہ سرگودھا میں بھی پیش آیا جہاں قرض کے بوجھ تلے دبے 24 سالہ محمد طیّب نے مبینہ طور پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا، جس کی لاش سپورٹس سٹیڈیم کے قریب سے برآمد ہوئی، طیب مقامی ہسپتال میں ملازم تھا جس کی جیب سے قرضوں کی تفصیل والی پرچی بھی برآمد ہوئی، جس پر لکھا تھا کہ ’بس اتنی سی گھر والوں سے التجا ہے کہ میرا ادھار دے دینا تاکہ کچھ عذاب کم ہوسکے‘۔

(جاری ہے)

گھر والوں سے التجا ہے کہ میرا یہ ادھار دے دینا تاکہ میرے اوپر کچھ عذاب کم ہوسکے ????
سرگودھا میں معاشی بدحالی نوجوان کی زندگی نگل گئی قرض کے بوجھ تلے دبے 24 سالہ محمد طیّب نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا، لاش سپورٹس سٹیڈیم کے قریب سے برآمد ہوئی ہے۔ نوجوان کی جیب سے قرضوں سے متعلق… pic.

twitter.com/bm5dYlWAgm

— صحرانورد (@Aadiiroy2) July 30, 2025 بتایا جارہا ہے کہ پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے عوام کی معاشی مشکلات بڑھتی ہی جا رہی ہیں، ایک طرف ملک میں برھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ ہے تو دوسری جانب عوام کے لیے ضروریات زندگی کی خریداری امتحان بنتا جارہا ہے، بجلی، پیٹرول، گیس کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کرکے رکھی ہوئی ہے، اضافی ٹیکسوں کے نفاذ سے مہنگائی کی نچلی سطح تک پہنچنے والی لہر بے قابو دکھائی دے رہی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس تشویش ناک صورت حال پر کہا گیا کہ ’ریاستی سٹیبلشمنٹ اور کاروباری، زرعی و صنعتی اشرافیہ کے درمیان خفیہ اتحاد نے عام آدمی کا جینا مشکل کر رکھا ہے جس کا نتیجہ دولت کی غیر مساوی تقسیم اور ایک صارفیت پر مبنی معیشت کی صورت میں نکلا ہے، جس کے باعث لاکھوں لوگوں کو اپنے اخراجات کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔‘

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی ( تحقیقاتی رپورٹ: محمد علی فاروق )روشنیوں کا شہر آج گڑھوں، ٹوٹ پھوٹ اور ابلتے گٹروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہی شہر جس کے شہریوں نے صرف گاڑیاں سڑک پر چلانے کے لیے گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 60 ارب روپے موٹر وہیکل ٹیکس کی صورت میں ادا کیے، آج بنیادی سفری سہولیات سے محروم ہے۔اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2019-20 سے 2024-25 تک سندھ حکومت نے کراچی سمیت صوبے بھر سے موٹر وہیکل ٹیکس کی مد میں بھاری رقم اکٹھی کی۔ 2019- اور 2020 میں 5.94 ارب روپے جبکہ 2020- اور2021: میں 9.52 ارب روپے اسی طرح 2021 اور 2022 میں 12.17 ارب روپے ، علاوہ ازیں 2022- اور 2023 میں 10.36 ارب روپے دریں اثناء 2023 اور-2024: میں 10.83 ارب روپے دیگر میں 2024 اور 2025: میں 13.60 ارب روپے ادا کئے جا چکے ہیں ۔یعنی محض ایک سال میں شہریوں نے 13 ارب 60 کروڑ روپے “سڑک پر گاڑی چلانے کے حق” کے نام پر ادا کیے ہیں مگر سوال وہی ہے کہ وہ سڑکیں کہاں ہیں۔کراچی کے بیشتر علاقوں میں سڑکیں کسی جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کرتی ہیں۔کورنگی، نارتھ کراچی، ماڑی پور، اورنگی، اور شاہ فیصل کالونی کی مرکزی شاہراہوں پر گڑھوں، ملبے، اور بارش کے پانی کے باعث گاڑیاں نہیں، قسمتیں آزمائی جاتی ہیں۔جہاں کبھی ٹریفک بہتا تھا، آج وہاں پانی کے جوہڑ اور کچرے کے ڈھیر ہیں۔چالیس فیصد سے زائد سڑکیںانتہائی خستہ حال قرار دی جا چکی ہیں، جبکہ محکمہ بلدیات اور سندھ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کے مصرف پر خاموشی نے شکوک کو مزید گہرا کر دیا ہے۔کراچی کے شہری ہر سال اربوں روپے اس امید پر ادا کرتے ہیں کہ بدلے میں حکومت انہیں بہتر روڈز، ٹریفک سگنلز، زیبرا کراسنگ، اور اوورہیڈ برج جیسی بنیادی سہولیات دے گی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ شہر کی بیشتر سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس بند، سگنل ناکارہ، اور فٹ پاتھ غائب ہیں۔یونیورسٹی روڈ، سپر ہائی وے، نارتھ ناظم آباد، اور ایم اے جناح روڈ کے اطراف جگہ جگہ ٹوٹی لائنیں، غائب کیٹ آئیز، اور تباہ شدہ یو ٹرن شہریوں کی گاڑیوں کو روزانہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ موٹر وہیکل ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ صوبائی خزانے میں نان ڈیولپمنٹ اخراجات میں ضم ہو جاتا ہے۔یعنی وہ رقم جو سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک سسٹم کی بہتری پر خرچ ہونی تھی، وہ تنخواہوں، ایڈمن اخراجات، اور نئی گاڑیوں کی خریداری میں استعمال ہو رہی ہے۔ٹریفک ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اگر یہ فنڈز شفاف طریقے سے صرف کراچی کی سڑکوں پر لگائے جائیں توصرف دو سال میں پورا شہر ازسرِنو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔شہریوں نے سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ ہم ٹیکس دیتے ہیں، مگر بدلے میں ملتا ہے گڑھا، گرد، اور گندہ سیورج ملا پانی کیا یہی ترقی ہے۔ایک شہری کا کہناتھا کہ حکومت نے ٹریفک سگنل تو لگائے نہیں، البتہ گاڑی کے شاکس ضرور بدلوا دیے ہیں۔کراچی کا بنیادی ڈھانچہ اربوں روپے کے ٹیکس کے باوجود زبوں حالی کا شکار ہے۔ اگر اس رقم کے شفاف استعمال کا نظام نہ بنایا گیا تو کراچی صرف ٹریفک حادثوںکا نہیں بلکہ حکومتی بدانتظامی کا استعارہ بن جائے گا۔شہریوں کا مطالبہ صاف ہے کہ ٹیکس ہم نے دیا ، حساب تم دو، اور سڑک ہمیں دو۔

محمد علی فاروق گلزار

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں ڈاکو راج، مزاحمت کرنے پر 18 سالہ نوجوان جاں بحق
  • بہار کے وزیراعلٰی کو اپنے 20 سالہ دور اقتدار کا حساب دینا چاہیئے، اشوک گہلوت
  • گورنر پنجاب کی کسانوں سے ملاقات، سیلاب سے متاثرہ فصلوں اور مالی مشکلات پر تبادلہ خیال
  • شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں
  • ماڑی پور میں اسکول سے واپسی پرٹریفک حادثے میں طالبعلم جاں بحق
  • وقار یونس نوجوان کھلاڑیوں سے حسد کرتے ہیں، میرا کیریئر بھی تباہ کیا؛ عمر اکمل
  • سرگودھا: 15 سالہ طالبہ سے 16 ماہ تک 5 ملزمان کی مبینہ زیادتی
  • صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
  • ٹریفک حادثات میں معمرشخص سمیت 4افراد جان کی بازی ہارگئے
  • کوالالمپور: امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ