سینٹرل ایشیا فرینڈ شپ موٹر بائیک ریلی پشاور پہنچ گئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
اسلام آباد:
لاہور سے گزشتہ روز روانہ ہونے والی سینٹرل ایشیا فرینڈ شپ موٹر بائیک ریلی پشاور پہنچ گئی۔
یہ ریلی 23 دن کے دوران پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور ازبکستان سے گزرتے ہوئے 5,000 کلومیٹر سے زائد فاصلہ طے کرے گی جو طورخم، کابل، قندوز، خجند، سمرقند اور بخارا جیسے اہم شہروں سے گزرے گی۔
ریلی میں 11 موٹر بائیکرز شریک ہیں جن کا تعلق پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور ازبکستان سے ہے۔ ریلی کا مقصد علاقائی سیاحت ، ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی کو فروغ دینا اور ثقافتی رابطوں کو مضبوط بنانا ہے۔
اسلام آباد میں بائیک ریلی پہنچنے پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے سیاحت سردار یاسر الیاس نے کہا کہ پاکستان سیاحت، موسمی تنوع اور ثقافت کے اعتبار سے خودکفیل ملک ہے، آئندہ 5 سے 10 سال کے دوران سیاحت کے شعبے کے لیے ایک نیا وژن متعارف کرایا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
چین جنوبی ایشیا میں پہلے سے زیادہ فعال اور فیصلہ کن کردار ادا کر رہا ہے: مشاہد حسین سید
— فائل فوٹوچیئرمین پاک چائنا انسٹیٹیوٹ اور سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ چین جنوبی ایشیا میں پہلے سے زیادہ فعال اور فیصلہ کن کردار ادا کر رہا ہے۔
مشاہد حسین نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو نئے حالات میں معاشی و سفارتی حکمت عملی اپنانا ہوگی، یہ ہفتے ایسے ہیں جن میں دہائیوں کے برابر واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں 3 بڑی حقیقتیں جنم لے چکی ہیں، بھارت کو سیاسی، سفارتی اور عسکری طور پر شدید دھچکا لگا ہے، بھارت کی پالیسیوں نے دنیا کے سامنے اس کی کمزوریاں واضح کردی ہیں۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکی پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر روایتی کردار ادا کیا ہے، ٹرمپ نے خطے میں پرانی امریکی حکمت عملی کو تبدیل کر دیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان چین کے ساتھ مکمل قومی اتفاق رائے کے تحت کھڑا ہے، پاکستان، چین اور افغانستان کے تعلقات نئے دور میں داخل ہوگئے ہیں، ریلوے منصوبے سے وسطی ایشیائی ممالک کو پہلی بار سمندر تک رسائی ملے گی، وسطی ایشیا کے زمینی ممالک کو پاکستان کے راستے عالمی تجارت کا راستہ ملے گا۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ ٹرمپ بھارت کو چین کے مقابلے میں سپورٹ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیا کے نئے نقشے میں اب ایران، چین اور وسطی ایشیا کو بھی شامل کیا جارہا ہے، اہم تبدیلی یہ ہے کہ امریکا اور چین کی کشمکش عسکری نہیں بلکہ اقتصادی شکل اختیار کرچکی ہے۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ بھارت کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے باعث خطہ مسلسل کشیدگی میں رہے گا۔
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ مودی اور آر ایس ایس کی نظریاتی خارجہ پالیسی بھارت کو نقصان پہنچا رہی ہے، پاکستان کو بھارت کے ساتھ نرم سفارت کاری اور عوامی سطح پر روابط بڑھانے چاہئیں۔