ملک بھر میں آئندہ پیر سے موسلادھار بارشوں کی پیشگوئی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT
—فائل فوٹو
محکمۂ موسمیات نے ملک بھر میں آئندہ پیر سے موسلادھار بارشوں کی پیش گوئی کر دی۔
محکمۂ موسمیات کے مطابق 4 سے 7 اگست تک کشمیر، گلگت بلتستان میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش متوقع ہے۔
خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں تیز بارشوں کا امکان ہے جبکہ پنجاب اور اسلام آباد میں بھی شدید بارش متوقع ہے۔
محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ 6 اگست کو بلوچستان اور سندھ میں تیز بارشیں متوقع ہیں، موسلادھار بارشوں کے باعث ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے اسلام آباد اور مری میں گرج چمک کے ساتھ بارش سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بارش سے ندی نالوں میں طغیانیماہرینِ موسمیات نے رواں سال مون سون سیزن ستمبر کے آخر تک رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔
ماہرینِ موسمیات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث موسموں کے پیٹرن تبدیل ہو رہے ہیں۔
ماہرین نے بتایا کہ رواں سال مون سون ہوائیں ملک کے جنوبی حصے پر کم اثر انداز ہو رہی ہیں، مون سون ہوائیں زیادہ تر ملک کے شمالی و بالائی علاقوں پر اثر انداز ہیں، 10 اگست سے مون سون ہوا کا رخ ملک کے جنوبی حصے کی جانب ہو جائے گا۔
ماہرین کے مطابق اگست کے وسط سے مون سون سسٹم جنوبی حصے پر اثر انداز ہو سکتا ہے، رواں سال مون سون کا دورانیہ بھی بڑھ سکتا ہے، عام طور پر ملک کے جنوبی حصے سے مون سون 15 ستمبر کو ختم ہو جاتا ہے تاہم رواں سال مون سون ستمبر کے آخر تک رہ سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: رواں سال مون سون ملک کے
پڑھیں:
این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات نے بارشوں کی الگ الگ پیش گوئی کی، سینیٹ کمیٹی میں انکشاف
ملک بھر میں رواں سال مون سون کی بارشوں سے 998 افراد ہلاک اور 1062 افراد زخمی ہوئے جبکہ مجموعی طور پر 3 کروڑ لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔
اس کے باوجود ملک میں پیشگی انتباہی نظام یعنی ارلی وارننگ سسٹم کا نہ ہونا حالیہ تباہی کی بڑی وجہ بن رہی ہے۔ اب سینیٹ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ (پی ڈی ایم) نے سیلاب اور بارشوں کی الگ الگ پیش گوئی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مون سون کا آخری اسپیل اختتام کے قریب،5 ہزار سے زائد دیہات زیر آب: چیئرمین این ڈی ایم اے
سینیٹ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کا اجلاس سینیٹر شیری رحمان کی زیر صدارت منعقد ہوا، کمیٹی اجلاس میں رکن کمیٹی سینیٹر وقار احمد نے کہا کہ ملک میں پیشگی انتباہی نظام کا نہ ہونا حالیہ تباہی کی بڑی وجہ بن رہی ہے، سندھ اور کراچی میں ہونے والی بارشوں کے موقع پر پی ایم ڈی نے غلط وارننگ جاری کی تھی۔
پی ڈی ایم اے سندھ کے ڈائریکٹر جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے پاس محدود وسائل ہیں، بارشوں سے قبل پی ایم ڈی اور این ڈی ایم اے کی مختلف رپورٹس آ رہی تھی اور پی ایم ڈی نے غلط جگہ پر زیادہ بارشوں کی اطلاع دی تھی، ہم نے اس مقام پر تیاری کی اور بارش کسی اور جگہ ہو گئی جس سے نقصانات ہوئے، حیدرآباد میں بھی 27 اگست کو این ڈی ایم اے اور پی ایم ڈی نے الگ الگ پیشنگوئیاں بھیجیں تھیں۔
اس موقع پر پی ایم ڈی حکام نے بتایا کہ پی ایم ڈی صرف بارشوں کی پیشگوئی کرتا ہے جبکہ پی ڈی ایم اے اس پیشنگوئی کا جائزہ لے کر وارننگ جاری کرتا ہے۔
ملک میں پیشگی انتباہی نظام کے نہ ہونے پر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ گلگت بلتستان میں گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، فلیش فلڈنگ کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں، مقامی لوگوں کے لیے یہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ان کے مویشی اور بہت سی قیمتی اشیا پانی میں بہہ جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں چرواہے کا کردار سب نے دیکھا ہے، چرواہے کی بروقت اطلاع دینے سے بڑے پیمانے پر لوگوں کی جان بچ گئی۔
کمیٹی اجلاس میں حالیہ سیلاب، متاثرین کی حالت، امدادی سرگرمیوں کی پیشرفت، پینے کے پانی کی صورتحال اور حکومتی اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین نے بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ حالیہ سیلاب کے باعث ملک بھر میں تقریباً 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے 3 لاکھ سے زائد افراد اب بھی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: وزیراعظم شہباز شریف کا سیلاب متاثرین کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان
انہوں نے کہا کہ سیلاب کے نتیجے میں 998 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ 1062 افراد زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ پنجاب رہا جہاں 29 لاکھ لوگ سیلاب کی زد میں آئے۔
سینیٹر شیری رحمان نے حکومت کی جانب سے متاثرہ افراد کو بروقت مالی امداد نہ دیے جانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کو فوری طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت امدادی رقوم منتقل کی جائیں کیونکہ اس حوالے سے تاخیر کسی صورت قابل قبول نہیں۔
کمیٹی نے خیمہ بستیوں میں موجود لوگوں کی حالتِ زار پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ چیئرپرسن نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ خیمہ بستیوں میں صاف پانی، بجلی، صحت کی بنیادی سہولیات اور انسانی وقار کے مطابق حالات مہیا کیے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو عارضی خیموں سے متاثرین کو مستقل رہائش فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ انہیں بار بار قدرتی آفات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے بریفنگ میں بتایا کہ حالیہ سیلاب کا آغاز خیبرپختونخوا کے علاقے بونیر اور شمالی علاقہ جات میں گلگت بلتستان سے فلیش فلڈنگ کی صورت میں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور پاکستان اب دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو ماحولیاتی تباہی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پنجاب میں سیلاب سے کتنے نقصانات ہوئے، پی ڈی ایم اے نے تفصیلات جاری کردیں
انہوں نے کہا کہ ملک میں سردیوں کا دورانیہ کم اور گرمیوں کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بارشوں کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اپریل 2025 کو گزشتہ 65 سال کا گرم ترین اپریل قرار دیا گیا ہے۔
بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ پنجاب اور سندھ میں پاک فوج اور نیوی کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن جاری ہیں۔ اب تک ملک بھر میں 2000 سے زائد ریلیف کیمپس قائم کیے جا چکے ہیں جہاں متاثرین کو عارضی پناہ دی جا رہی ہے۔ تاہم چیئرمیں کمیٹی نے ان کیمپس کی حالت پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہاں انسانی معیار کے مطابق سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
این ڈی ایم اے بارشیں پی ڈی ایم اے سیلاب