یرس سے ماسکو تک ہلچل، روسی صدر پیوٹن کی مبینہ بیٹی والد کے خلاف ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی مبینہ بیٹی الیزاویتا کریوونوگخ نے برسوں کی خاموشی توڑتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک جذباتی اور سخت پیغام میں اپنے مبینہ والد پر شدید تنقید کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حماس کا شکریہ کیوں ادا کیا؟
22 سالہ الیزاویتا، جو اب پیرس کی ایک آرٹ گیلری میں کام کرتی ہیں، نے اپنی ٹیلیگرام پوسٹ میں بغیر نام لیے پیوٹن پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے ان کی زندگی تباہ کی اور لاکھوں افراد کی جانیں لیں۔
الیزاویتا نے لکھا ’دنیا کے سامنے اپنا چہرہ دکھانا دوبارہ ایک آزادی کا احساس دیتا ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ میں کون ہوں، اور کس نے میری زندگی برباد کی۔‘
‼️???????? "The man who took the lives of millions and destroyed mine as well" — Putin’s alleged illegitimate daughter has released personal photos and publicly criticized her dictator father, according to the German outlet BILD.
????Luiza Rozova was born on March 3, 2003, in Saint… pic.twitter.com/HJmF8j7vBn
— Visioner (@visionergeo) August 4, 2025
پیوٹن سے مبینہ تعلق، افواہوں سے حقیقت تک2003 میں پیدا ہونے والی الیزاویتا مبینہ طور پر پیوٹن اور ان کی سابق گھریلو ملازمہ سویتلانا کے خفیہ تعلق کا نتیجہ ہیں۔ 2020 میں روسی تحقیقاتی ادارے راکٹ نے ان کے پیوٹن سے جسمانی مشابہت اور ان کی والدہ کے تعلقات کی بنیاد پر یہ انکشاف کیا تھا۔ ان کے برتھ سرٹیفکیٹ میں درمیانی نام ’ولادی میرونا‘(ولادیمیر کی بیٹی) بھی پیوٹن سے تعلق کا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یوکرین کا زیلنسکی-پیوٹن براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ، روس کی مختصر جنگ بندی کی تجویز
2021 میں مقتول اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی نے الیزاویتا کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کو منظر عام پر لایا، جو ان کی پرتعیش زندگی کی عکاسی کرتا تھا۔ ناقدین نے اسے پیوٹن کے مالی اثر و رسوخ سے جوڑا۔
یوکرین جنگ اور بدلتا رویہروس کے یوکرین پر حملے کے بعد الیزاویتا نے اپنا انسٹاگرام بند کردیا اور عوامی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ وہ پیرس منتقل ہوئیں، جہاں وہ اب جنگ مخالف فن پاروں والی آرٹ گیلری سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اپنی سابقہ پرتعیش زندگی کو ’اخلاقی گراوٹ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور یوکرین جنگ کے مظالم پر کھل کر تنقید کی۔
عالمی توجہ اور کریملن کی خاموشیالیزاویتا کے بیانات نے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کرلی ہے اور روس میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ صورتحال کریملن کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ صدر کی مبینہ بیٹی ان کے خلاف کھل کر بول رہی ہے۔ تاہم کریملن نے تاحال اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پیوٹن سے متوقع ملاقات: ٹرمپ روس یوکرین جنگ رُکوانے کے لیے پُرعزم
ماہرین کا کہنا ہے کہ الیزاویتا کے بیانات روس کے اندرونی سیاسی منظرنامے اور عالمی سطح پر پیوٹن کی ساکھ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ فی الحال دنیا ان کے اگلے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news الیزاویتا بیٹی پیرس روس صدر ولادیمیر پیوٹن یوکرین جنگذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بیٹی پیرس صدر ولادیمیر پیوٹن یوکرین جنگ یوکرین جنگ پیوٹن سے
پڑھیں:
اسپین میں یوکرین کی حمایت جائز فلسطین کی ممنوع قرار،اسکولوں سے پرچم ہٹانے کا حکم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسپین: میڈرڈ کی قدامت پسند حکومت نے سرکاری فنڈنگ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں فلسطین کی حمایت پر خاموشی سے پابندی عائد کردی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسپین کے دارالحکومت نے مختلف اسکولوں کو فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے تمام نشانات، جن میں فلسطینی پرچم بھی شامل ہیں، ہٹانے کی ہدایات دی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی موقف یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کو غیر سیاسی ہونا چاہیے اور فلسطین کی حمایت ایک سیاسی معاملہ ہے، یہ ہدایات حال ہی میں جاری کی گئی ہیں کیونکہ اس سے قبل میڈرڈ ریجن کے کئی اسکول مہینوں تک فلسطین کے حق میں تقریبات کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔
خیال رہےکہ اسی حکومت نے 2022 میں یوکرین جنگ کے بعد تعلیمی اداروں میں یوکرین کی حمایت کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی تھی، جس سے اس فیصلے پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اسپین کی قومی سیاست میں بھی شدت اختیار کر رہا ہے، گزشتہ دنوں میڈرڈ ریجن کی پاپولر پارٹی کی سربراہ ایزابیل دیاس اییوسو نے وزیراعظم پیڈرو سانچیز کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے حق میں مظاہرے ملکی آزادی اور کھیلوں کے تقدس پر حملہ ہیں۔
اسی دوران پاپولر پارٹی کے قومی سربراہ البیرتو نونیز فیخوو نے بھی حکومت کی فلسطین نواز پالیسی پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ سانچیز اپنی ناکامیوں اور کرپشن اسکینڈلز سے توجہ ہٹانے کے لیے غزہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں،میں آپ کو اجازت نہیں دوں گا کہ غزہ میں ہونے والی اموات کو ہسپانوی عوام کے خلاف استعمال کریں۔”
جواب میں وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے فیخوو کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ حالیہ سروے کے مطابق 82 فیصد اسپین کے عوام غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیتے ہیں ۔
یاد رہے کہ اسپین کی بائیں بازو کی مخلوط حکومت یورپی یونین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سب سے مؤثر آواز رہی ہے۔ 2024 میں اسپین نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا، اس کے ساتھ ہی اسرائیل پر مستقل اسلحہ پابندی اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے درآمدات پر بھی پابندی عائد کی۔
میڈرڈ ریجن کی حکومت کی اس پالیسی نے نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ عوامی سطح پر بھی شدید بحث کو جنم دیا ہے اور یہ واضح تضاد اجاگر کیا ہے کہ ایک طرف یوکرین کی حمایت کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ فلسطین کی حمایت کو دبایا جا رہا ہے۔
غزہ کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کر رہے ہیں جبکہ عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مسلم حکمران بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔