ناروے کپ: لیاری سے تعلق رکھنے والے فٹبالر امان اللہ رؤف بلوچ اوسلو میں لاپتہ ہوگئے۔
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
اوسلو (سپورٹس ڈیسک) ناروے کپ کے دوران پاکستان کی مسلم ہینڈز ٹیم کے فٹبالر امان اللہ رؤف بلوچ اوسلو میں لاپتہ ہو گئے۔ مسلم ہینڈز فٹبال ٹیم کے ترجمان کے مطابق کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والے فٹبالر امان اللہ رؤف بلوچ ناروے کپ کے پہلے روز اوسلو میں لاپتہ ہوگئے تھے۔ مسلم ہینڈز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فٹبالر امان اللہ ایونٹ کی استقبالیہ تقریب میں بھی نہیں آئے، حالانکہ مسلم ہینڈز کی ٹیم اب وطن واپس پہنچ چکی ہے۔ ترجمان کے مطابق امان اللہ کا پاسپورٹ ناروے میں پاکستانی سفارت خانے میں جمع کرا دیا گیا ہے اور ناروے پولیس سمیت پاکستانی سفارت خانے کو تمام صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستانی ٹیم بیٹر فیوچر پاکستان نے ناروے کپ میں انڈر 15 کا ٹائٹل جیتا تھا۔ ناروے کپ میں انڈر 15 ایونٹ میں شرکت کرنے والی بیٹر فیوچر پاکستان کی ٹیم لیاری کے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ بیٹر فیوچر کی ٹیم پورے ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہی اور ہر میچ میں اپنے مخالفین کو آؤٹ کلاس کرکے ٹرافی جیتی۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مسلم ہینڈز ناروے کپ
پڑھیں:
پاکستان: پی او آر کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کی یکم ستمبر سے ملک بدری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اگست 2025ء) ریڈیو پاکستان کے مطابق، پی او آر کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کی یکم ستمبر سے باقاعدہ ملک بدری کا فیصلہ منگل کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا، جو غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے (آئی ایف آر پی) کے تحت ہوا۔ یہ فیصلہ سکیورٹی خدشات اور قومی وسائل پر بڑھتے دباؤ کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں تصدیق کی گئی ہے کہ ان افغان باشندوں کو، جن کے پی او آر کارڈ کی مدت 30 جون کو ختم ہو چکی ہے، انہیں اگلے مہینے سے باقاعدہ طور پر واپس بھیجا جائے گا۔
اس سے قبل وزارت داخلہ نے پی او آر کارڈ رکھنے والوں کو 30 جون تک پاکستان میں رہنے کی اجازت دی تھی، لیکن اس تاریخ کے بعد 13 لاکھ سے زائد افراد کو واپس بھیج دیا جائے گا۔
(جاری ہے)
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہیں۔ جبکہ دیگر تقریباً 13 لاکھ افراد پاکستان حکومت کے ساتھ باضابطہ طور پر رجسٹرڈ ہیں اور ان کے پاس ’پروف آف رجسٹریشن‘ ہے۔
مجموعی طور پر، پاکستان میں تقریباً 28 لاکھ افغان مہاجرین موجود تھے، جو گزشتہ 40 برسوں کے دوران اپنے ملک میں جاری تنازعات کے باعث سرحد پار کر کے آئے تھے۔
اقوام متحدہ کے اداروں کے مطابق، اب بھی تقریباً 13 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر خیبرپختونخوا میں مقیم ہیں۔
پاکستان نے نومبر 2023 میں آئی ایف آر پی منصوبہ شروع کیا تھا، جس کا ابتدائی ہدف غیر دستاویزی افراد اور افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے تھے۔ تب سے اب تک تقریباً 13 لاکھ افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے، لیکن اب بھی تقریباً 16 لاکھ پاکستان میں موجود ہیں، جن میں سے کئی پالیسی میں تبدیلی کی امید رکھتے ہیں۔
’باوقار طریقے سے واپسی‘خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق پاکستان بھر میں پولیس افغان باشندوں کو حراست میں لے کر بارڈر کراسنگ پوائنٹس تک منتقل کر رہی ہے۔ یہ بات دو سرکاری اور سکیورٹی اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی کیونکہ وہ عوامی طور پر بات کرنے کے مجاز نہیں تھے۔
ان کے مطابق یہ گرفتاریاں بڑے پیمانے پر نہیں کی جا رہیں، بلکہ پولیس کو ہدایت دی گئی ہے کہ گھر گھر جا کر چیکنگ کرے اور غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکیوں کو گرفتار کرے۔
اے پی کے مطابق خیبرپختونخوا میں افغان مہاجرین کے کمشنر شکیل خان نے کہا، ’’جی ہاں، جو افغان مہاجرین پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں، انہیں باوقار طریقے سے واپس بھیجا جا رہا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن وفاقی حکومت کے احکامات کے تحت اب تک کا سب سے اہم اقدام ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے تنقیداقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے حکومت پاکستان کے حالیہ اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس انداز میں لوگوں کو واپس بھیجنا جبری واپسی کے مترادف ہے، جو کسی ریاست کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ ’’انسانی ہمدردی پر مبنی، تدریجی اور باوقار طریقہ کار‘‘ اختیار کرے تاکہ افغانوں کی واپسی رضاکارانہ ہو۔ انہوں نے اس بات کو سراہا کہ پاکستان نے گزشتہ 40 سالوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔
اے پی کے مطابق افغانستان کی حکمران طالبان نے ہمسایہ ممالک کی جانب سے افغانوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری پر تنقید کی ہے۔
طالبان حکومت کے نائب وزیر برائے مہاجرین و واپسی، عبد الرحمن راشد نے میزبان ممالک کی جانب سے افغانوں کی جبری واپسی کو بین الاقوامی اصولوں، انسانی ہمدردی کے ضوابط اور اسلامی اقدار کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔
انہوں نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا،’’جس پیمانے اور انداز میں افغان مہاجرین کو وطن واپسی پر مجبور کیا جا رہا ہے، ایسا منظر افغانستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین