سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی نیلامی رکوانے کی درخواست مسترد کر دی
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی نیلامی رکوانے کی درخواست مسترد کر دی WhatsAppFacebookTwitter 0 8 August, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی جائیدادوں کی نیلامی رکوانے کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے وکیل کو ہدایت کی کہ ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف نیب ریفرنسز کی نقول جمع کرائیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے واضح کیا کہ حکم امتناع کا فیصلہ دوسری جانب کو سن کر کیا جائے گا۔ عدالت نے کیس کی سماعت 13 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ اس روز مرکزی اور متفرق تمام درخواستیں سنی جائیں گی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ آج صرف متفرق درخواست لگی ہے، مرکزی اپیلیں سماعت کے لیے مقرر نہیں۔ نیب ریفرنسز کی نقول بھی ریکارڈ کا حصہ بنائی جائیں تاکہ اصل غبن کا پتہ چل سکے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمان نے پہلے پلی بارگین کے تحت آٹھ جائیدادیں نیب کو دی تھیں، مگر اب مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ معاہدہ دباؤ میں کیا گیا۔ پلی بارگین ختم کرنے کی درخواست چیئرمین نیب کو دی جا چکی ہے، جس کے بعد کیس دوبارہ ٹرائل اسٹیج پر آ گیا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ پلی بارگین ختم ہونے کے بعد ریفرنس پر ٹرائل ہوگا، سزا ہونے پر ہی جائیدادیں ضبط کی جا سکتی ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہماری پلی بارگین ختم کرنے کی درخواست اور نیب ریفرنس تاحال زیر التوا ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایم ڈبلیو ایم کا اربعین مارچ ملتوی کرنے کا اعلان، حکومت سے 7 نکاتی ایجنڈے پر اتفاق اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ شہر پر قبضے کی منظوری دے دی، مزید خونریزی کا خدشہ سپریم کورٹ، بحریہ ٹاون کی نیلامی کیخلاف اپیلیں کل سماعت کیلئے مقرر تعلیم اور ٹیکنالوجی کے امتزاج کو فروغ دینے کیلئے او پی ایف کالج ایف الیون2 میں اے آئی اسمارٹ کلاس رومز، اسمارٹر لرننگ کے... ایف بی آر میں پاکستان کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کے90سے زائد افسران کے تبادلے پی ٹی آئی کا 14 اگست کے احتجاج کا انجام 5اگست سے بھی برا ہوگا، شیر افضل مروت نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، الیکشن کمیشن کیخلاف عدالت جاوں گی، سینیٹر مشال یوسفزئی
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: بحریہ ٹاو ن سپریم کورٹ کی درخواست کی نیلامی
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچوں ججوں درخواستیں اعتراضات لگا کر واپس کردیں
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 ستمبر ۔2025 )سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچوں ججوں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس اعجاز اسحاق خان کی درخواستیں پر اعتراضات عائد کر کے واپس کردیں نجی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے بتایاکہ رجسٹرار سپریم کورٹ آفس نے پانچوں ججز کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اعتراض عائد کیا ہے کہ درخواست گزار نے واضح نہیں کیا کہ درخواستوں میں کونسا مفاد عامہ کا سوال ہے، درخواست گزار نے یہ بھی نہیں بتایا کہ کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے کہ آرٹیکل 184/3 کا دائرہ کار استعمال ہو.(جاری ہے)
ذرائع کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراض عائد کیا ہے کہ درخواست گزاروں نے ذاتی رنجش پر آرٹیکل 184/3 کے غیر معمولی دائرہ کار کے تحت درخواستیں دائر کیں جبکہ سپریم کورٹ کا ذوالفقار مہدی بنام پی آئی اے کیس ذاتی رنجش پر184/3 کی درخواست دائرکرنے کی اجازت نہیں دیتا. ذرائع کے مطابق اعتراض میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست کے اجزا پورے نہیں کئے گئے، ججز نے آئینی درخواست دائر کرنے کی ٹھوس وجہ بیان کی نہ نوٹسز کے لیے فریقین کی وضاحت کی واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس اعجاز اسحاق خان نے سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں درخواستوں میں ججوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ انتظامی اختیارات کو ہائی کورٹ کے ججوں کے عدالتی اختیارات کو کمزور کرنے یا ان پر غالب آنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا. درخواستوں میں کہاگیاتھا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اس وقت جب کسی بینچ کو مقدمہ دیا جا چکا ہو، نئے بینچ تشکیل دینے یا مقدمات منتقل کرنے کا مجاز نہیں ہے درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی مرضی سے دستیاب ججوں کو فہرست سے خارج نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس اختیار کو ججوں کو عدالتی ذمہ داریوں سے ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے. ججوں کی جانب سے کہا گیا کہ بینچوں کی تشکیل، مقدمات کی منتقلی اور فہرست جاری کرنا صرف ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی منظوری سے بنائے گئے قواعد کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 202 اور 192(1) کے تحت اختیار کیے گئے ہیں درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ بینچوں کی تشکیل، روسٹر ہائی کورٹ رولز اور مقدمات کی منتقلی سے متعلق فیصلہ سازی صرف چیف جسٹس کے اختیار میں نہیں ہو سکتی اور ماسٹر آف دی روسٹر کے اصول کو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ختم کر دیا گیا ہے. درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ 3 فروری اور 15 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشن کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹیاں اور ان کے اقدامات قانونی بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور کالعدم ہیں عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان نوٹی فکیشنوں اور کمیٹیوں کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے.